کلامِ نبوتؐ کی کرنیں

ترتیب: عبدالعزیز

صلہ رحمی: ہمارے رشتہ دار ہمارے بھائی ہیں، ان کے ساتھ حسن سلوک کرنا ہمارا اوّلین فرض ہے، اس سے خاندان میں یکجہتی پیدا ہوتی ہے اور مشکل سے مشکل کام کو آسانی سے کیا جاسکتا ہے۔
* مدارج النّبوّت میں ہے کہ کوئی تحفہ لاتا تو اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم دوسروں کو بھی شریک کرلیتے۔ تقسیم نقد و جنس میں خویشوں کا حصہ بڑھا دیتے۔ ذوی الارحام کا خاص لحاظ رکھتے تھے۔
* فرمایا: خدا مجھ کو دوست ہے اور ذوی الارحام سے نیکی کرنی مجھے پیاری ہے۔ ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دودھ شریک بہن دائی حلیمہ کی لڑکی بنی ہوازن کے قیدیوں میں آئی۔ اس نے حضورؐ کو یاد دلایا کہ فلاں لڑکی ہوں یعنی میری رعایت فرمائی جائے۔ حضورؐ نے پہچان کر اپنی چادر اس کیلئے بچھا دی اور فرمایا: ’’اگر تم میرے پاس رہوگی تو میں خدمت کروں گا اور اپنے گھر جانا چاہو تو تمہاری مرضی‘‘۔ انھوں نے گھر جانا چاہا تو ان کو اتنا مال دے کر بھیجا کہ خوش ہوگئیں۔
*نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’وہ شخص جو بدلہ میں رشتہ داروں کا لحاظ کرتا ہے وہ مکمل درجے کا صلہ رحمی کرنے والا نہیں ہے۔ کمال درجہ کی صلہ رحمی یہ ہے کہ جب دوسرے رشتہ دار اس کے ساتھ بے تعلقی کریں تو یہ ان کے ساتھ اپنا تعلق جوڑے اور ان کا حق دے‘‘ (بخاری: ابن عمرؓ)۔
مطلب یہ ہے کہ حسن سلوک کے جواب میں حسن سلوک کرنا تو ایک عام بات ہے۔ صلہ رحمی کا تقاضا تو یہ ہے کہ جب دوسرے لوگ بے تعلقی کا برتاؤ کریں تو یہ ان کے ساتھ محبت و آشتی سے پیش آئے اور ان کے سارے حقوق ادا کرے۔ یہ ایک ایسی صفت ہے جو بغیر اخلاص و تقویٰ کے ممکن نہیں۔
* ایک آدمی نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہاکہ اے اللہ کے رسولؐ! میرے کچھ رشتہ دار ہیں جن کے حقوق میں ادا کرتا ہوں اور وہ میرے حقوق ادا نہیں کرتے ہیں، میں ان کے ساتھ حسن سلوک کرتا ہوں اور وہ میرے ساتھ بدسلوکی کرتے ہیں، میں ان کے ساتھ حلم و بردباری سے پیش آتا ہوں اور وہ میرے ساتھ جہالت برتتے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا: ’’اگر تو ایسا ہی ہے جیسا کہ تو کہتا ہے تو گویا تو ان کے چہروں پر سیاہی پھیر رہا ہے اور اللہ ان کے مقابلے میں ہمیشہ تیرا مددگار رہے گا جب تک تو اس حالت پر قائم رہے گا‘‘ (مسلم: ابوہریرہؓ)۔
* ایک اور حدیث میں تنبیہ کرتے ہوئے حضورؐ نے فرمایا: ’’قرابت داروں کے حق کو پامال کرنے والا اور اپنے برتاؤ میں رشتے ناطوں کا لحاظ نہ رکھنے والا جنت میں نہ جائے گا‘‘۔
* حضرت ابوہریرہؓ کا بیان ہے کہ ’’میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ جس کو پسند ہو روزی کا فراخ ہونا اور عمر کی درازی تو چاہئے کہ وہ رشتہ داروں سے عمدہ سلوک کرے‘‘ (بخاری)۔
* ایک شخص نے آکر کہا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! میں نے بہت بڑا گناہ کیا ہے۔ کیا توبہ و ندامت سے وہ دھل جائے گا؟ آپؐ نے پوچھا: ’’کیا تمہاری ماں زندہ ہے؟‘‘ اس نے کہا: ’’نہیں‘‘۔ آپؐ نے پھر پوچھا: ’’کیا تمہاری خالہ زندہ ہے؟‘‘ اس نے کہا ’’ہاں‘‘! آپؐ نے فرمایا: ’’اس کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آؤ‘‘ (مسلم)۔
پڑوس کے لوگوں سے برتاؤ: رشتہ داروں کے علاوہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے پڑوسیوں سے بھی ہر وقت کا تعلق تھا۔ ان میں وہ لوگ بھی تھے جو آپؐ پر ایمان لاچکے تھے اور ایسے بھی تھے جو بہت دن تک دولت اسلام سے محروم رہے لیکن آپؐ نے ہمیشہ ان سے کریمانہ برتاؤ کیا۔ ان کی تکلیف کو اپنی تکلیف سمجھا۔ ایک حدیث میں حضورؐ نے یہاں تک فرمایا ہے: ’’وہ مسلمان نہیں جو خود پیٹ بھر کر کھائے اور پہلو میں رہنے والا اس کا پڑوسی بھوکا رہے‘‘ (بخاری، بیہقی)۔
چنانچہ آپؐ سالن میں پانی زائد کرا دیا کرتے تھے کہ جس سے پڑوسیوں کا بھی بھلا ہوجائے اور اپنے یہاں کوئی اچھی چیز پکتی تو پڑوسیوں کا خیال رکھتے۔
مکہ میں آپؐ کا قریب سے قریب پڑوسی ابولہب تھا جو آپؐ کا چچا بھی تھا۔ دونوں کے گھر کے بیچ ایک دیوار واقع تھی۔ اس کے علاوہ حکم بن عاص، عقبہ بن ابی معیط وغیرہ بھی آپ کے پڑوسی تھے۔ دعوتِ حق بلند ہونے کے بعد یہ لوگ آپ کی مخالفت پر اتر آئے تھے اور گھر میں بھی چین نہیں لینے دیتے تھے۔ آپؐ کبھی نماز پڑھ رہے ہوتے تو یہ اوپر سے بکری کا اوجھ آپؐ پر پھینک دیتے۔ کبھی صحن میں کھانا پک رہا ہوتا تو یہ ہنڈیا پر غلاظت ڈال دیتے۔ ابو لہب کی بیوی اُم جمیل کا تو مستقل یہ وتیرہ تھا کہ راتوں کو آپؐ کے گھر کے دروازے پر خاردار جھاڑیاں لاکر رکھ دیتی تاکہ صبح جب آپؐ یا آپؐ کے بچے باہر نکلیں تو کوئی کانٹا پاؤں میں چبھ جائے۔ (بیہقی ابن جریر)۔۔۔ لیکن ان سب تکلیفوں کے باوجود اپنے ہمسایہ کے حق کی ادائیگی میں کوتاہی نہیں کی۔
*ابن مسعودؓ سے ابن ماجہ نے روایت کی ہے کہ ایک شخص نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: ’’مجھے یہ بات کیسے معلوم ہو کہ میں نے جو کام کیا ہے وہ اچھا ہے یا برا؟ آپؐ نے فرمایا: ’’جب تیرے پڑوسی یہ کہتے ہوئے سنے جائیں کہ تم نے فلاں کام اچھا کیا ہے تو سمجھ لو کہ واقعی اچھا تھا اور اگر وہ یوں کہیں کہ تم نے برائی کا ارتکاب کیا تو پھر یقین کر لو کہ تم نے برا کام کیا‘‘۔
*حضرت معاذ بن جبلؓ فرماتے ہیں کہ ’’لوگوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! ایک پڑوسی کے حقوق دوسرے پڑوسی پر کیا ہیں؟‘‘ آپؐ نے ارشاد فرمایا کہ ’’اگر وہ قرض مانگے تو مدد کرے، اگر بیمار ہو تو مزاج پرسی کرے، اگر محتاج ہو تو اس پر بخشش کرے اور اگر فقیر ہوجائے تو اس کو دلاسا دے اور اگر کوئی اچھی چیز اس کو ملے تو مبارکباد دے۔ اگر کوئی مصیبت اس کو پیش آئے تو تعزیت کرے اور جب مرجائے تو اس کے جنازے کے ساتھ جائے۔ مکان کی تعمیر اتنی اونچی کرے کہ اس کی ہوا رک جائے اور اس کو تکلیف مت دو اپنی ہانڈی کی خوشبو سے، مگر ہاں چمچہ بھر دو اس کیلئے اس میں سے اور اگر میوہ خریدو تو اس کو ہدیہ دو اور اگر نہ دو تو گھر میں میوہ پوشیدہ لے جاؤ اور تمہارا بچہ وہ پھل لیکر باہر نہ نکلے تاکہ رنجیدہ نہ ہو اس سے پڑوسی کا بچہ‘‘ (طبرانی، تبلیغ دین، امام غزالی)۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت سے پتہ چلتا ہے کہ آپؐ کا ان سب باتوں پر عمل رہا۔ آپؐ اپنے پڑوسیوں کے کام آتے تھے۔ ان کا بار اٹھاتے، ان کا قرض دیتے، بیماری میں عیادت کرتے اور ہر وقت ان کے حقوق کا خیال رکھتے نیز کوشش فرماتے تھے کہ اپنی ذات سے پڑوسیوں کو کوئی تکلیف نہ پہنچ جائے۔ اس سلسلے میں آپؐ نے یہاں تک فرما دیا ہے کہ ’’وہ جنت میں نہ جائے گا جس کی شرارتوں سے اس کے پڑوسی امن میں نہیں‘‘ (بخاری)۔
* جس کا پڑوسی اس کی بدزبانی یا شرارت سے پریشان ہو، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اس کی نمازیں اور زکوٰۃ بھی نا مقبول ہیں، چنانچہ احمدؒ نے حضرت ابوہریرہؓ سے روایت کی ہے کہ ایک شخص نے کہا: ’’یا رسولؐ اللہ! فلاں عورت کی کثرتِ نماز، روزہ اور خیرات کا بہت تذکرہ ہوتا ہے مگر وہ اپنی زبان سے اپنے پڑوسیوں کو ایذا دیتی ہے‘‘۔ آپؐ نے فرمایا: ’’وہ جہنمی ہے‘‘۔ اس نے پھر عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اور فلاں عورت کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ نماز اور روزہ اور خیرات میں بہت کم ہے لیکن اپنے پڑوسیوں کو اپنی زبان سے ایذا نہیں پہنچاتی‘‘۔ آپؐ نے فرمایا: ’’وہ جنتی ہے‘‘ (مشکوٰۃ)۔
* صحیحین میں حضرت عائشہؓ اور ابن عمرؓ سے مروی ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’حضرت جبریلؑ مجھے پڑوسی کے حق کے بارے میں برابر تاکید کرتے رہے، یہاں تک کہ میرا خیال ہوا کہ یہ اس کو وارث قرار دیں گے‘‘ (بخاری و مسلم)۔
* اور ایک بار آپؐ نے مسلمان عورتوں کو مخاطب کرکے فرمایا: ’’اے مسلمان عورتو! کوئی پڑوسن اپنی پڑوسن کو ہدیہ دینے کو حقیر نہ سمجھے اگر چہ وہ بکری کی ایک کھر ہی کیوں نہ ہو‘‘ (بخاری و مسلم)۔
غلاموں کے ساتھ سلوک: امیرو غریب، غلام آقا، کالے گورے کا امتیاز دنیا میں ہمیشہ چلتا رہا ہے۔ بڑے لوگ چھوٹوں کو اپنے پاس بٹھانا کسر شان سمجھتے رہے ہیں لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دربار میں امیر غریب، دولت مند و فاقہ کش، شامی، حبشی سب برابر تھے۔ سب کے ساتھ یکساں برتاؤ ہوتا تھا۔ آپؐ کی بارگاہ میں ایک طرف ابو بکرؓ و عثمانؓ جیسے امراء موجود تھے تو دوسری طرف اسی شان اور حیثیت سے ابوہریرہؓ و ابوذرؓ جیسے مفلس اور بلالؓ و سلمانؓ جیسے غلام بھی موجود تھے۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ آپؐ نے مالداروں کو غرباء پر ترجیح دی؛ بلکہ آپؐ غرباء کو زیادہ پسند فرماتے تھے، انھیں اپنے پاس بٹھاتے تھے۔ حضرت بلالؓ کو اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک فرماتے تھے اور یہ بھی فرمایا کہ ’’غلاموں کو کوئی شخص ’میرا غلام‘ یا ’میری لونڈی‘ نہ کہے بلکہ میرا بچہ یا میری بچی کہے اور غلام بھی اپنے مالک کو خداوند نہ کہیں بلکہ آقا کہیں‘‘۔
* ابن سعدؓ کی روایت ہے کہ فرمایا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’غلام تمہارے بھائی ہیں، جو خود کھاؤ وہی ان کو کھلاؤ جو خود پہنو وہ انھیں پہناؤ‘‘ (بخاری)
اسلام سے پہلے غلاموں کے ساتھ لوگ حیوانات سے بدتر سلوک کرتے تھے۔ انھیں نہ تو ٹھیک سے کھانا دیتے تھے اور نہ کپڑا پہناتے تھے، اس لئے آپؐ نے مسلمانوں کو تاکیداً غلاموں سے بہتر سلوک کرنے کیلئے کہا۔
* حضرت ابوہریرہؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’لونڈی اور غلام تمہارے بھائی ہیں، انھیں اللہ نے تمہارے تصرف میں دے رکھا ہے تو جس بھائی کو اللہ تعالیٰ نے تم میں سے کسی کے قبضہ و تصرف میں دے رکھا ہو تو اس کو چاہئے کہ اسے وہی کھلائے جو خود کھاتا ہے اور اسے وہی پہنائے جو وہ خود پہنتا ہے اور اس پر کام کا اتنا بوجھ نہ ڈالے جو اس کی طاقت سے باہر ہو، اور اگر اس پر کسی ایسے کام کا بوجھ ڈالے جو اس کی طاقت سے باہر ہو اور وہ اسے کر نہ پا رہا ہو تو اس کام میں اس کی مدد کرے‘‘ (بخاری و مسلم)۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ ’’جب تم میں سے کسی کا خادم کھانا پکائے پھر اسے اس کے پاس لائے تو چونکہ اس نے کھانا پکانے میں گرمی اور دھویں کی مصیبت برداشت کی اس لئے مالک کو چاہئے کہ اسے ساتھ بٹھاکر کھلائے اور اگر کھانا تھوڑا ہو تو ایک لقمہ یا دو لقمہ اس میں سے اس کے ہاتھ میں رکھ دے‘‘ (مسلم : ابوہریرہؓ)۔
* حضرت ابوذرؓ نے ایک مرتبہ اپنے غلام کو برا بھلا کہا۔ غلام نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے جاکر شکایت کی۔ آپؐ نے حضرت ابوذر کو زجر فرمایا اور کہا کہ تم میں اب تک جہالت باقی ہے۔ یہ غلام تمہارے بھائی ہیں، خدا نے تم کو ان پر فضیلت عطا کی ہے۔ جو تم خود کھاؤ وہ انھیں کھلاؤ، جو خود پہنو وہ انھیں پہناؤ، ان کو اتنا کام نہ دو جو وہ نہ کرسکیں اور اگر اتنا کام دو تو خود بھی ان کی اعانت کرو‘‘ (ترغیب و ترہیب)۔
* ایک شخص خدمت نبویؐ میں آیا اور عرض کیا کہ یا رسولؐ اللہ! میں غلاموں کا قصور کتنی مرتبہ معاف کروں؟ آپؐ نے فرمایا: ’’ستر بار‘‘۔
*ایک دفعہ ابن مسعودؓ انصاری اپنے غلام کو مار رہے تھے۔ پیچھے سے آواز آئی ’’ابو مسعود! تم کو جس قدر اپنے غلام پر اختیار ہے خدا کو اس سے زیادہ تم پر اختیار ہے‘‘۔ حضرت مسعود نے پلٹ کر دیکھا تو حضورؐ تھے۔ عرض کیا: ’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں نے لوجہ اللہ غلام آزاد کیا‘‘۔ فرمایا: ’’اگر تم ایسا نہ کرتے تو آتش دوزخ تم کو چھو لیتی‘‘ (ابو داؤد)۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی غلاموں پر اتنی شفقت فرماتے اور ان کا اتنا خیال کرتے تھے کہ مرض الموت میں سب سے آخری وصیت فرمائی کہ ’’غلاموں کے معاملے میں اللہ سے ڈرا کرو‘‘ (متفق علیہ)۔ (جاری)

تبصرے بند ہیں۔