کھوئے ہوئے پَلوں کی کوئی بات بھی تو ہو

خان حسنین عاقب

کھوئے ہوئے پَلوں کی کوئی بات بھی تو ہو
وہ مِل گیا ہے ، اس سے ملاقات بھی تو ہو

برباد میں ہُوا تو یہ بولا امیرِ شہر
کافی نہیں ہے اتنا ، فنا ذات بھی تو ہو

دنیا کی مجھ پہ لاکھ نوازش سہی مگر
میری ترقیوں میں ترا ہاتھ بھی تو ہو

مِلتی ہیں گورِیاں تو سرِ راہ بھی مگر
پنگھٹ ہو، گاگری ہو، وہ دیہات بھی تو ہو

ہارے تو لازما اسے کوئی پناہ دے
ہم سے لڑے جو اس کی یہ اوقات بھی تو ہو

کٹتی ہے شب وصال کی پلکیں جھپکتے ہیں
جس کی صبح نہ ہو، کبھی وہ رات بھی تو ہو

لفظوں کے ہیر پھیر سے بنتی نہیں غزل
شعروں میں تھوڑی گرمئ جذبات بھی تو ہو

تبصرے بند ہیں۔