کیوں؟

عاتکہ ماہین

(سینیئر ریسرچ فیلو،علی گڑھ مسلم یونیورسٹی)

تمہیں کانٹوں سے الفت ہے

مجھے پھولوں سے رغبت ہے

تو پھر کیوں کر؟

ہماری زندگی

پرلطف ہونی ہے

تمہیں مچھلی پکڑنا اس قدر محبوب لگتا ہے

میری خواہش یہ رہتی ہے

انھیں آزاد رہنے دو

تمہیں اصرار یہ ہے کہ

میں اس ساری خدائی کو

تمہاری آنکھ سے دیکھوں

مگر تم ہی بتاؤ

جب میرے اعضأ سلامت ہیں

تو پھر بیساکھیوں سے کیوں؟

مجھے کوئی تعلق ہو

میں کیوں محتاج ہو جاؤں؟

پتّھر کی موت

یہاں آؤ

ادھر کو، اس طرف کو

غور سے دیکھو

جہاں تک دیکھ سکتے ہو

اسی دیوار کے اس پار

بڑا سا ایک پتّھر ہے

ازل سے سخت و جامد ہے

کئی فرہاد آئے اور گئے آشفتہ سر ہو کر

ذرا سی سنگ میں جنبش ہوئی ہو

کہیں پر تو کوئی ہلکا نشاں ہو

ہزاروں سال سے بارش برستی ہی رہی اس پر

کئی طوفاں بھی گزرے ہیں اسی کے گرد سے ہوکر

جمود لازوال سنگ کو کس نے تراشا ہے؟

کہیں ایسا نہ ہو

آہستگی سے یہ پگھل جائے

فنا کی گود میں خود کو چھپا لے

اور

خموشی پنکھ پھیلائے

درودیوار پر رقصاں

لہو کی بوندٹپکائے۔

تبصرے بند ہیں۔