یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے؟

عاتکہ ماہین

اس نے جب نیم وا دریچے سے

جھانکنے کی ذرا سی کوشش کی

سنگ ریزے برس پڑے آکر

سرخ پانی میں ڈوبتا چہرہ

زرد سورج غروب ہو جیسے

اس پہ دو چند یہ دھو ئیں کا ستم

جس کے لپٹوں میں گھر کے کوئی وجود

راہ ہستی سے نیستی کی طرف

ہو گیا گامزن خموشی سے

مسئلہ حل نہ ہو سکا پھر بھی

یہ دھواں سا کہاں سے اٹھّا تھا؟

تبصرے بند ہیں۔