گزر رہے ہیں شب و روز کس زمانے میں

احمد علی برقیؔ اعظمی

گزررہے ہیں شب و روز کس زمانے میں

مرا ہی نام نہیں ہے مرے فسانے میں

تھا عمر بھر کا مری ماحصل یہ خانۂ دل

لگی نہ دیر اسے بجلیاں گرانے میں

جسے وہ کہتے ہیں اب خرمنِ حیات اپنا

ہے میرا خونِ جگر اس کے دانے دانے میں

بھگت رہا ہوںسزا جرمِ بے گناہی کی

ہے روح جسم کے محصور قید خانے میں

کروں تو کیسے کروں عرضِ مدعا اس سے

لگا ہے اپنی ہی وہ داستاں سنانے میں

وہ جانتا ہے بخوبی کیا ہو جس نے عشق

جو لطف ملتا ہے کھو کر کسی کو پانے میں

ہوں آج سینہ سپر اس کے سامنے میں بھی

لگا ہے تیرِ نظر اپنا آزمانے میں

شعار اپنا تو تھا باہمی رواداری

’’یہ کون بانٹ رہا ہے مجھے زمانے میں‘‘

جسے پسند ہے فتنہ گری و ویرانی

ملے گا چین اسے بستیاں جلانے میں

غریبِ شہر کی جاں پر بنی ہے غربت سے

امیر شہر ہے مشغول مسکرانے میں

ہے تیری خاک میں شامل خمیر اعظم گڈہ

اثر اسی کا ہے برقیؔ ترے ترانے میں

تبصرے بند ہیں۔