گزر رہے ہیں شب و روز کس زمانے میں
احمد علی برقیؔ اعظمی
گزررہے ہیں شب و روز کس زمانے میں
مرا ہی نام نہیں ہے مرے فسانے میں
…
تھا عمر بھر کا مری ماحصل یہ خانۂ دل
لگی نہ دیر اسے بجلیاں گرانے میں
…
جسے وہ کہتے ہیں اب خرمنِ حیات اپنا
ہے میرا خونِ جگر اس کے دانے دانے میں
…
بھگت رہا ہوںسزا جرمِ بے گناہی کی
ہے روح جسم کے محصور قید خانے میں
…
کروں تو کیسے کروں عرضِ مدعا اس سے
لگا ہے اپنی ہی وہ داستاں سنانے میں
…
وہ جانتا ہے بخوبی کیا ہو جس نے عشق
جو لطف ملتا ہے کھو کر کسی کو پانے میں
…
ہوں آج سینہ سپر اس کے سامنے میں بھی
لگا ہے تیرِ نظر اپنا آزمانے میں
…
شعار اپنا تو تھا باہمی رواداری
’’یہ کون بانٹ رہا ہے مجھے زمانے میں‘‘
…
جسے پسند ہے فتنہ گری و ویرانی
ملے گا چین اسے بستیاں جلانے میں
…
غریبِ شہر کی جاں پر بنی ہے غربت سے
امیر شہر ہے مشغول مسکرانے میں
…
ہے تیری خاک میں شامل خمیر اعظم گڈہ
اثر اسی کا ہے برقیؔ ترے ترانے میں
تبصرے بند ہیں۔