گستاخِ رسولؐ: فتح کا فتوی یا فتح کا فتنہ

محمد انس فلاحی سنبھلی  

طارق فتح اور اس کے پروگرام ” فتح کا فتوی “ پر گفتگو کرنے سے قبل یہ بتانا ضروری ہے کہ اس فتنے پر لکھنا اور بولنا نیز اس فتنے کی سرکوبی کے لیے اپنی سی سعی کرنا کیوں کر ضروی ہے؟

 دو روز قبل ہم نے اس سے متعلق ایک whatsapp  گروپ  پر یونہی میسج کردیا۔تو بعض احباب کی طرف سے یہ بات سامنے آئی کہ ایسے لوگوں کو دانستہ نظر انداز کرنا چاہیے۔اس سے انہیں اہمیت ملتی ہے، اور یہ ان کی بلاوجہ کی شہرت کا سبب بنتا ہے۔

ان سے میرا سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے دانستہ نظر انداز کرنے سے ایسے لوگ پسِ پردہ  چلے جائیں گے؟ دوسری بات یہ کہ ایسے  لوگ جو غلط فہمیاں غیر مسلموں کے ذہنوں میں پیدا کرتے ہیں ۔اور جو کنفیوژن دین، شریعت اور اسلامی تاریخ کے حوالے سے  مسلم ذہنوں میں پیدا کرتے ہیں وہ تو علی حالہ باقی رہے گا ۔کبھی خاموشی کی ضرورت ہوتی ہے اور کبھی کبھی خاموشی جرم بن جاتی ہے،جس کا جرمانہ نسلوں کو دینا پڑتا ہے۔اگر فتح کے فتنے کی بروقت سرکوبی نہیں کی گئی تو یقین مانیے نسل ِنو میں اپنے دین اور اسلامی تاریخ کے حوالے سے شکوک و شبہات کا ایسا سلسلہ جنم لے گا۔جس کا خمیازہ پوری ملت کو بھگتنا پڑے گا۔بلاشبہ طارق فتح شہرت کا خواہش مند ہے اسی کے ساتھ ساتھ وہ ہندوستانی شہریت کا بھی طالب ہے۔ اس کے لیے اس نے یہ حربہ اپنا رکھا ہے،اور اس کام کے لیے اس نے میڈیا  کاسہارا لیا ہے۔

میڈیا موجودہ دور کی سب سے بڑی طاقت کا نام ہے۔اس پر طارق فتح جیسے لوگوں کی باتیں بہت جلد وائرل ہو جاتی ہیں ۔ جسے مسلم اور غیر مسلم سب ہی دیکھتے ہیں ۔ ایسے میں مسلمان کنفیوژن کا شکار ہوتے ہیں اور غیر مسلم، مسلمانوں کے تعلق سے مزید غلط فہمیوں کو پال لیتے ہیں ۔

غیرمسلموں کی غلط فہمیوں کے ازالے کے ساتھ اس وقت کی سب بڑی ضرورت یہ ہے کہ ہماری نسل ِنو میں کنفیوژن جن لوگوں کے ذریعہ پیدا ہورہا ہے۔ اور جس ذریعے سے پیدا ہورہا ہے ،اس کا ازالہ اسی محاذ پر آکر کیا جائے۔  آج ہماری نوجوان نسل  الحاد، سیکولرازم اور لبرل ازم کا شکار ہو رہی ہے۔وہ دین اور مذہب کو انسان کی پرائیویٹ زندگی کا حصہ تصور کرنے لگی ہے۔

موجودہ دور کتابوں کا نہیں ہے، بلکہ میڈیا کا ہے۔ہماری نسل ِنوکو تو دینی کتابوں سے خدا واسطے کا بیر ہے۔ وہ آپ کو سوشل میڈیا پر ہی ملے گی۔اسی لیے جس محاذ اور جس طریقے سے اسلام کے خلاف کام ہورہا ہے۔ وہی محاذ ہمیں بھی سنبھالنا ہوگا۔ اب یہ دور نہیں رہا کہ آپ انہیں ہفتہ واری پروگرام میں بلا کر یہ باتیں سمجھائیں ۔وہ تو میڈیا کی زبان سمجھتی ہے، میڈیا کے انداز سےسمجھتی ہے۔کیا یہ باتیں درست نہیں ہیں ؟ کیا اس کے باوجود بھی ہمیں طارق فتح جیسے لوگوں کو نظر انداز کرنا چاہیے؟

طارق فتح : پیدائش سے کینڈا تک کا سفر

  طارق فتح 1949 میں کراچی(پاکستان)میں پیدا ہوا۔طبیعت میں شروع سے ہی لاابالی پن تھا۔ یہ ابتدا میں کمیونسٹ نظریات کا داعی بن کر ابھرا۔ اپنے ان ہی نظریات کی وجہ سے اسے دوبار جیل کی سلاخوں کی ہوا بھی کھانی پڑی ۔ اور اس کے جنرل ازم کا لائسنس بھی منسوخ کردیا گیا۔ اپنے دفاع کی خاطر اس نے مولانا سید ابوالاعلی مودودی ؒ کی پارٹی ”پاکستان قومی اتحاد “کی رکنیت حاصل کر لی ۔ اس کے ذریعے اس نے حکومت پر  یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی کہ وہ کمیونسٹ پارٹی کا رکن نہیں ہے ،بلکہ مولانا مودودی ؒ  کا بھکت ہے۔کیونکہ اس وقت صر ف پاکستان ہی نہیں بلکہ پورےعالم اسلام میں مولانا مودودی ؒ  کو اسلام کا سب سے بڑا داعی سمجھا اور ما نا جاتا تھا ۔ اس کے بعد اس نے سعودی عرب کا رخ کیا۔ یہاں اس نے دس سال بن لادن کمپنی میں ایڈواٹائزنگ مینیجر کے طور پر کام کیا. یہاں بھی  اس کی دال نہ گلی۔ اور اس نے اپنے نظریات کی پردہ پوشی میں ہی عافیت سمجھی۔

 سعودی عرب میں دس سال کام کرنے کے بعد اس نے1987 میں کینیڈا کے لیے رخت سفر باندھا۔یہاں اس نے N. D. P سوشلٹ پارٹی کی رکنیت حاصل کرلی۔ یہاں بھی  اس نے اپنی خاطر خواہ توجہ محسوس نہ ہونے کی بنا پر  اس کے بعد لبرل پارٹی کی رکنیت حاصل کرلی. الغرض یہ موقع بموقع نظریات بدلتا رہا، چہرے بدلتا اور پارٹیاں تبدیل کرتا رہا۔ جہاں جیسا موقع دیکھا ویسا   لبادہ اوڑھ لیا، یعنی چلو ادھر کو ہوا ہو جدھر کی۔

طارق فتح کی زندگی کا مقصد شروع ہی سے شہرت اور پیسہ رہا ہے۔ یہی وجہ رہی کہ جب اس نے مختلف پارٹیاں اور مختلف لبادے اوڑھنے کے بعد کوئی کامیابی محسوس نہ کی تو اس نے اسلام پر حملے کرنے شروع کردیے۔ اور بہت جلد ہی اپنی ذات کو توجہ کا مرکز بنانے میں کامیاب ہوگیا۔

ہندوستان میں آمد

طارق فتح کینڈین شہری ہے۔ یہاں اس کی آمد ایک بڑے خاص مقصد کے لیے ہوئی ہے۔ یقین مانیے جو کام گذشتہ بیس تیس سالوں میں RSS ، بجرنگ دل اور شیو سینا جیسی فاشسٹ تنظیمیں اور یوگی آدتیہ ناتھ، پروین توگڑیا، راماکانت یادو اور مومن بھاگوت جیسے مسلم دشمن نہیں کر پارہے تھے۔وہ کام یہ شخص اکیلا بڑے شاطرانہ اور بڑے مکارانہ انداز میں اور بڑے ہی کم وقت میں کرنے میں کامیاب ہو رہا ہے۔ یعنی غیر مسلوں بھائیوں میں مسلم دشمنی کی صرف چنگاریاں ہی نہیں بلکہ شعلے بھڑکانا اور انہیں اسلام اور مسلمانوں کے تعلق سے خوفزدہ کرنا۔ اس  کا مقصد اسلاموفوبیا پھیلانا ہے۔جس کے لیے اسے مذکورہ بالا لوگوں نے درآمد کیا ہے۔اس کا ہر پروگرام، ہر انٹرویو اور ہر آرٹیکل اس کی گواہی دے رہا ہے۔اس کے ذریعے ہندو مسلم فساد کرانے کی کوشش کی جارہی ہے۔اور غیر مسلموں میں اسلام دشمنی پیدا کرنے کے لیے یہ مسلم سلاطین کی من گھڑت تاریخ پیش کرتا ہے۔جس کے ذریعے یہ بتانے کی کوشش کرتا ہے کہ یہ سب مسلم بادشاہ ہندوؤں کے مخالف تھے۔انہوں نے ان کے مندروں کو توڑ کر مسجدیں بنائیں ۔ اور غیر مسلم عورتوں کو اپنی رکھیل بناکے رکھا تھا۔

طارق فتح کے عقائد و نظریات

  طارق فتح کی حقیقت سے ابھی تک بہت کم لوگ واقف ہوئے ہیں ۔جو لوگ جانتے بھی ہیں تو وہ اسے”زی نیوز“کے پروگرام ” فتح کا فتوی“کی وجہ سے جانتے ہیں ۔ وہ اسے زیادہ سے زیادہ مولوی وملا کا مخالف سمجھتے ہیں ۔ ان کا ماننا ہے کہ طارق فتح مسلمان تو ہے، البتہ وہ ملا کے اسلام کی بجائے اللہ کے اسلام کو مانتا ہے۔

  ”زی نیوز“ کے پروگرام میں  اس کے جو نظریات سامنے آرہے ہیں . وہ کسی بھی درجے میں قابل ذکر نہیں ہیں ۔ اور نہ ہی ان میں علمی اعتبار سے کوئی وزن پایا جاتا ہے۔ اس کے اصل عقائد و نظریات کا خلاصہ ڈاکٹر یاسر ندیم الواجدی صاحب نے سرجیکل اسٹرائک کی آٹھویں قسط میں دلائل وشواہد کے ساتھ بیان کیا ہے۔ اس کے جو پروگرام انڈیا آنے سے قبل کینڈا میں ہو چکے ہیں ۔ وہ اس کی نقاب کشائی ہی نہیں بلکہ اسے ننگا کر دیتے  ہیں ۔جس میں اس نے اللہ، قرآن اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی  شان میں کنایۃ نہیں صراحتاً  گستاخی کی ہے۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی شان میں بہت سے معلونوں اور خبیثوں نے گستاخی کی ہے۔جس کا انہیں خمیازہ بھی بھگتنا پڑا ہے۔لیکن اس بدبخت  نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی شان میں گستاخی کرتے ہوئے جو الفاظ استعمال کیے ہیں ۔انہیں لکھنے کے لیے ہمارے قلم میں اتنی جرأت نہیں کہ انہیں لکھ سکیں ۔اس کے کیے یاسر ندیم الواجدی صاحب کی ویڈیوز دیکھ سکتے ہیں ۔جس میں اس نے معراج کے واقعہ کا مذاق اڑایا ہے۔اسی طرح وہ ایک پروگرام میں قرآن اور سورہ فاتحہ کا مذاق اڑاتے ہوئے کہتا ہے کہ ”جس قرآن اور جس سورہ فاتحہ کا آغاز ہی یہود و نصاری پر لعنت وملامت سے ہوا ہو ،اس پر پابندی لگانی چاہیے“۔

 الغرض طارق فتح جو” زی نیوز“ میں نظر آرہا ہے،وہ کچھ نہیں ہے۔ ”زی نیوز“کے پروگرام شروع ہونے سے قبل اس کی جو تقاریر کینڈا میں یہودی مجلسوں اور نشستوں میں ہوئی ہیں ۔وہ بہت خطرناک اور زہریلی ہیں ۔جس میں اس کی اسلام دشمنی، دین سے بیزاری اور اس کے الحادی نظریات سامنے آئے ہیں ۔

 طارق فتح ہرگز ہرگز بھی مسلمان نہیں ہے۔ بلکہ وہ عرصہ قبل ہی رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی شان میں گستاخی کرکے مرتد ہوچکا ہے۔ وہ اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرتا ہے تاکہ اس پر سیکولر مسلمان جمع رہے ہیں اور اس کی ہمنوائی کرتے رہیں ۔ وہ بہت شاطرانہ دماغ کا حامل ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگاسکتے ہیں ۔اس نے یہودیوں کے ایک پروگرام میں تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ”سلمان رشدی اور تسلیمہ نصرین نے بیوقوفی کی کہ انہوں اپنے اوپر سے اسلام کا لبادہ اتار دیا تھا،اس لیے وہ ناکام رہے“۔ یعنی اس کی نظر میں یہ ہے کہ آپ اسلام کا لبادہ اوڑھ کر اسلام پر جتنے چاہیں حملے کریں آپ کو اپنی  ہمنوائی کرنے والوں کی ایک قابل ذکر تعداد سیکولر مسلمانوں کی مل ہی جائے گی۔ جیسا کہ اس کے ساتھ بھی ہو رہا ہے۔

 اس وقت کی سب سے بڑی دینی ذمہ داری یہ ہے کہ اس گستاخِ رسولؐ کی حقیقت لوگوں کے سامنے واضح کی جائے۔ اور انہیں اس کے خلاف اٹھ کھڑا ہونے کے لیے ابھارا جائے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  سے محبت اور ہمارے ایمان کا تقاضا ہے کہ جو شخص آپؐ پر ایک حرف بھی خلاف لکھے یا بولے اس کے خلاف پوری مستعدی کے ساتھ اٹھ کر اسے کیفرکردار تک پہنچانے کے لیے ہر ممکن کو شش کی جائے۔

   کی محمدؐ سے   وفا  تو نے  تو  ہم  تیرے ہیں

  یہ    جہاں  چیز  ہے کیا  لوح و قلم تیرے ہیں

”زی نیوز“کے پروگرام کا جائزہ

 طارق فتح کا جو پروگرام ماہ جنوری سے ”زی نیوز“ پر نشر ہورہا ہے ۔ جس کی اب تک 9 قسطیں منظر عام پر آچکی ہیں ۔اس کے تمام پروگرام دیکھ لیجیے۔ہر ایپی سوڈ میں وہی باتیں نظرآئے گیں ۔ جو اس سے قبل کے پروگرام میں ہوچکی ہیں ۔ پروگرام کا آغاز توایک نئے عنوان کے ساتھ ہوتا ہے ۔ لیکن چالس منٹ کے ایک ہی اپی سوڈ میں دس سے بیس موضوعات چھڑ جاتے ہیں ۔ ایسا اس صورت میں ہوتا ہے،جب پروگرام مسئلے کے حل کے لیے نہیں بلکہ مسئلے پیدا کرنے کے لیے کیا جا رہا ہو۔

 پروگرام میں شامل ہونے کے لیے اسی کے ذہن کے حامل لوگوں کو بلا یا جاتا ہے،جو اسی کی زبان بولتے ہیں ۔ غیر جانبداری دکھانے کے لیے چند نام نہاد علماء کو بھی شامل کر لیا جاتا ہے ۔ جو کسی بھی لحاظ اور کسی بھی زاویہ سے اہل علم کی صف میں شامل ہونے کے قابل ہونا تو دور انہیں اہل علم میں شمار کرنا بھی علم اور اہل علم کی توہین ہی ہوگی۔

 میڈیا کو بھی مسلمانوں کی نمائندگی کرنے کے لیے چند ہی لوگ نظر آتے ہیں ۔کوئی بھی موقع ہو اور کیسا ہی مسئلہ ہو ۔ان کی نظرِ انتخاب ان ہی پر جا ٹکتی ہے ۔ اور جو اسلام اور مسلمانوں کی صحیح ترجمانی کرنے کے اہل ہوتے ہیں ۔میڈیا بھی انہیں دانستہ نظر انداز کرتا ہے ،اور وہ بھی میڈیا سے دوری بنائے رکھنے میں ہی اپنی عافیت محسوس کرتے ہیں ۔جس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ میڈیا اسلام کی جو تصویر دکھانا اور پیش کرنا چاہا رہا ہے۔ اس میں وہ بڑی حد تک کامیاب بھی ہو رہا ہے۔

 طارق فتح کا علمی مقام کیا ہے ؟ اور طارق فتح پروگرام میں جن مسلم مسائل پر گفتگو کرتا ہے۔ کیا وہ واقعی ایسے مسئلے ہیں جن پر پہلی بار آواز اٹھائی جارہی ہے ؟ اس کی وضاحت کے لیے بہت زیادہ تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں ہے۔

  اس کے پروگرام میں اب تک جن موضوعات پر بحت ہوئی ہے ۔ وہ یہ ہیں نقاب، برقع َ، طلاق ثلاثہ ، تعدد ازدواج، خواتین کے حقوق اور آزادی ،مسلم ووٹ بینک اور جہا د یہی چند موضوعات ہیں ، جن کا ہر ایپی سوڈ میں گھوم پھر کر کے ذکر کیا جاتا ہے ۔ طارق فتح انہیں اس انداز میں پیش کرتا ہے کہ جیسے کہ آج تک مسلمانوں کے یہی مسئلے ہیں ،جن کی وجہ سے وہ زوال اورپستی کا شکار ہیں ۔ طارق فتح پردہ، نقاب اور طلاق پر ایسی ایسی باتیں پیش کرتا ہے۔جن میں علمی دلائل کا ذکر تو دور اس کی ذہنی پستی اورکم علمی پر ماتم کرنے کو جی مچل جاتا ہے۔

  طارق فتح یہ بات بڑی شد و مد سے بیان کرتا ہے کہ قرآن میں پردے کا کہیں بھی کوئی ذکر نہیں ہے۔بلکہ صرف مردوں کو نگاہیں نیچی کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ یہ اس کی لاعلمی کی دلیل ہے۔ چہرے کے پردے کے سلسلے میں قرآن وسنت میں بے شمار دلائل موجود ہیں ۔ جن کا ذکر طولِ بحث کا باعث ہوگا۔

طارق فتح نے اپنے شو کا نام ”فتح کا فتوی “رکھ کر فتوی جیسے مقدس لفظ کو بدنام ہی نہیں کیا ہے۔بلکہ وہ اس کے ذریعے اسلام کے مسلمہ شرعی اصولوں کی توہین بڑی خوبی سے کرنے میں کامیاب بھی ہو رہا ہے۔ اس کا ہر ایپی سوڈ اسلام، مسلمان اور مسلم سلاطین کی توہین پر مبنی ہوتا ہے.۔وہ ہر پروگرام میں اپنے  شرکاء سے مشترکہ سوال کرتا ہے۔ سوال اس انداز میں کرتا ہے، جس سے وہ سامنے والے کی رائے ہی طلب نہیں کرتا بلکہ اس کے تعلق سے اس کا اپنا نقطہ نظر کیا ہے، وہ بھی پوچھ بیٹھتا ہے۔ وہ  پینلسٹ کو الجھانے کا کام بھی بڑی خوبی سے کرتا ہے۔پینلسٹ سے ایک سوال کرتا ہے، پینلسٹ ابھی جواب دے ہی رہا ہوتا ہے کہ وہ دوسرا پھر تیسرا سوال چھیڑ دیتا ہے۔ الغرض وہ پینلسٹ کو الجھائے رکھتا ہے۔ لیکن وہ اپنے ہمنواؤں اور ہم خیالوں کو اپنی بات پیش کرنے کا بڑا تفصیلی موقع دیتا ہے اور اپنے مخالفین کو اشتعال انگیز سوالات میں الجھائے رکھتا ہے۔

 طارق فتح اسلام پر گفتگو کرنے کا ہرگز ہرگز بھی اہل نہیں ہے۔ اس کی دین کے حوالے سے معلومات اتنی بھی نہیں جتنی مدرسے کے ایک ادنی طالب علم کی ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دین کے حوالے سے ایسی ایسی باتیں بیان کرتا ہے جو سراسر اسلام مخالف ہوتی ہیں ۔ جس سے اسلام کی غلط ترجمانی ہورہی ہے۔ اس لیے اس کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کے ساتھ ساتھ ان غلط فہمیوں کے ازالے کی بھی شدید ضرورت ہے۔جو وہ مسلم اور غیر مسلموں کے ذہنوں میں پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

طارق فتح کے زی نیوز کے پروگرام ” فتح کافتوی“ میں جس انداز سے بحث و مباحثہ ہوتا ہے۔ اسے دیکھ کر چورا ہے پر ہونے والے فقیروں کا جھگڑا یاد آتا ہے ۔ ڈبیٹ کے اصولوں کی اس کے پروگرام ذرا بھی جھلک دکھائی نہیں دیتی ہے ۔ ڈبیٹ کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ ایک پیلنسٹ جب تک اپنی بات پوری نہ کر لے دوسرا پیلنسٹ خاموش رہے ۔ اس کی گفتگو کے بعد جو اعتراض پیش کرنا ہو وہ خوش اسلوبی اور سلیقے سے پیش کرے۔ لیکن اس کے پروگرام میں ہر پینلسٹ اپنی ہی بات پیش کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔نیز دوسرے کی بات کو علمی انداز میں رد کرنے کی بجائے اس کی کردار کشی پر اتر آتا ہے ۔ پروگرام میں ایک دوسرے پر الزام تراشی اس انداز سے ہوتی ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ اہل علم کا گروہ نہ ہو، بلکہ جہلا کی ایک سر پھری جماعت ہو جو ایک دوسرے کو نوچ کھانے کے لیے جمع ہوئی ہو ۔الغرض یہ پروگرام علمی اعتبار سے قابل ذکر ہے، اور نہ ہی اس میں شامل ہونے والے اس قابل ہوتے ہیں کہ مسلم مسائل پر گفتگو کر سکیں ۔

 اس کے پروگرام کا مقصد صرف اور صرف مسلمانوں میں تشکیک پیدا کرنا ہے۔ اور غیر مسلموں کو اسلام کے حوالے سے مزید متنفر کرنا ہے ۔ یہ پروگرام ملک کی سالمیت کے لیے بڑاخطرہ بنتا جارہا ہے ۔ بعید نہیں کہ یہ پروگرام ہندو ومسلم فساد کا مقدمہ ثابت ہو۔

 جس طرح ہر انسان کا کوئی نہ کوئی تکیہ کلام ہوتا ہے ۔جسے وہ غیر ارادی طور پر اپنے ہر جملے یا اپنی ہرگفتگو میں ضرور بولتا ہے ۔ اسی طرح طارق فتح کا تکیہ کلام ہے۔گفتگو کسی بھی موضوع پر ہو وہ ابدالی، غزالی، غزنوی، غوری ،محمد بن قاسم اور اورنگ زیب کا ذکر کیے بغیر نہیں رہ سکتا ہے ۔ نیز سامنے والے پر نشتر چبھونے کے لیے ہمیشہ یہ بھی بولنا ضروری سمجھتا ہے کہ ”اب دارا شکوہ کی گردن نہیں کٹے گی اور نگ زیب مرگیا ہے“۔ اس سے وہ اپنے سلسلے میں دارا شکوہ کی اور اپنے حریف کے سلسلے میں اورنگ زیب کی تصویر ظاہر کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔خدا کا شکر ہے اب یہ گستاخ رسولؐ ملک چھوڑ چکا ہے ۔ بعید نہیں کہ وہ دوبارہ آجائے ۔ لیکن اس کے سلسلے میں ابھی قانونی کاروائی جاری رکھنے کی ضرورت ہے ۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔