ہجوم ِرنج وبلاہے تو خیر ےوں ہی سہی
الحاج تاج الدین اشعر
ہجوم ِرنج وبلاہے تو خیر یوں ہی سہی
یہی خدا کی رضا ہے تو خیر یوں ہی سہی
…
ہم امن دوست ہیں اپنی ڈگر نہ چھوڑیں گے
انہیں جو شوق ِ جفا ہے تو خیر یوں ہی سہی
…
گلاب جھلسے ہیں،روتی ہے رات کی رانی
یہی جو آب و ہوا ہے تو خیر یوں ہی سہی
…
میں دیکھتا ہوں دھواں اٹھ رہا ہے گلشن سے
وہ کہہ رہے ہیں گھٹا ہے تو خیر یوں ہی سہی
…
تری ہتھیلی ہمارے لہو سے ہے گل رنگ
اگر یہ رنگ حنا ہے تو خیر یوں ہی سہی
…
ہمیں بھی آج نبھانی ہے رسم ِابراہیم ؑ
وہ بت اسی پہ اڑا ہے تو خیر یوں ہی سہی
…
بلا سے کھینی پڑے موج ِخوں میں کشتی ِ جاں
یہ امتحان ِ وفا ہے تو خیر یوں ہی سہی
…
مجھے بھی ضد ہے جھکے گا نہ میرا سراشعر
اسے غرور ِانا ہے تو خیر یوں ہی سہی
تبصرے بند ہیں۔