ہجوم ِرنج وبلاہے تو خیر ےوں ہی سہی

الحاج تاج الدین اشعر

ہجوم ِرنج وبلاہے تو خیر یوں ہی سہی

یہی خدا کی رضا ہے تو خیر یوں ہی سہی

ہم امن دوست ہیں اپنی ڈگر نہ چھوڑیں گے

انہیں جو شوق ِ جفا ہے تو خیر یوں ہی سہی

گلاب جھلسے ہیں،روتی ہے رات کی رانی

یہی جو آب و ہوا ہے تو خیر یوں ہی سہی

میں دیکھتا ہوں دھواں اٹھ رہا ہے گلشن سے

وہ کہہ رہے ہیں گھٹا ہے تو خیر یوں ہی سہی

تری ہتھیلی ہمارے لہو سے ہے گل رنگ

اگر یہ رنگ حنا ہے تو خیر یوں ہی سہی

ہمیں بھی آج نبھانی ہے رسم ِابراہیم ؑ

وہ بت اسی پہ اڑا ہے تو خیر یوں ہی سہی

بلا سے کھینی پڑے موج ِخوں میں کشتی ِ جاں

یہ امتحان ِ وفا ہے تو خیر یوں ہی سہی

مجھے بھی ضد ہے جھکے گا نہ میرا سراشعر

اسے غرور ِانا ہے تو خیر یوں ہی سہی

تبصرے بند ہیں۔