ہر ایک ٹہنی کو تلوار کر کے آیا ہوں

مجاہد ہادؔی ایلولوی

ہر ایک ٹہنی کو تلوار کر کے آیا ہوں
کہ سب کو صاحبِ کردار کر کے آیا ہوں

نہیں ہے کچھ بھی محبت کو چھوڑ کر دل میں
میں اپنے یار کو نادار کر کے آیا ہوں

کریں گے پیار مجھے دیکھ لینا دشمن بھی
میں حسنِ خُلق سے لاچار کر کے آیا ہوں

لڑوں گا حق کے لئے میں بھی آخری دم تک
کفن کو اپنے میں دستار کر کے آیا ہوں

ہر ایک بات کا اب وزن گھٹ ہی جائے گا
"میں اس کی بات کا انکار کر کے آیا ہوں”

جہاں سے چاہو تم آ سکتے ہوں مرے دل تک
ہر ایک رستہ میں ہموار کر کے آیا ہوں

علاج کر نہ سکوں گے مریضِ عشق کا تم
نظر سے اپنی میں بیمار کر کے آیا ہوں

خدایا نظرِ کرم کرلے اب تو مجھ پر بھی
میں کھوٹے سکّوں کو دینار کر کے آیا ہوں

پناہ گاہ تو ہادؔی کو مل ہی جائے گی
میں سارے دشت کو گلزار کر کے آیا ہوں

تبصرے بند ہیں۔