ہاں میں عمر فاروقؓ ہوں!

نازش ہما قاسمی

ہاں میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ہوں، جی! دوسرا خلیفۃ المسلمین عمر بن خطاب میرا لقب فاروق ہے ۔ میری پیدائش ۵۸۶؍۵۹۰ عیسوی میں مکہ مکرمہ میں ہوئی۔ میرا نسب نامہ عمر بن خطاب بن نفیل بن عبد العزّٰی بن ریاح بن عبد اللہ بن قرط بن زراح بن عدی بن کعب بن لوی بن فہربن مالک۔یہاں جاکر حضور اقدس ﷺ کے آباء واجداد سے میرا نسب نامہ مل جاتاہے۔ میں مراد رسول اللہ ﷺ ہوں۔ جی مراد رسولﷺ کیوں کہ حضور اقدس ﷺ نے میرے ایمان کےلیے اللہ سے دعا کی تھی اور اللہ نے اپنے حبیب کے صدقے مجھے ایمان کی عظیم دولت سے نوازا۔ مجھے حضور ﷺ کے سسر ہونے کا شرف حاصل ہے۔ میں اسلام لانے سے قبل اسلام کا بہت بڑا دشمن تھا؛ لیکن اسلام لانے کے بعد میں نے اسلام کے لیے پوری زندگی وقف کردی اور انتہائی سادگی سے زندگی گزاری۔۲۲ لاکھ مربع میل تک میرے عہد میں اسلامی حکومت پھیل گئی تھی۔ میرا عدل وانصاف بہت مشہور ہے۔ میں عشرہ مبشرہ میں سے ہوں، وہ دس صحابہ جنہیں دنیا میں ہی جنت کی بشارت دے دی گئی تھی۔میں وہی عمر بن خطاب ہوں جس نے ایمان لانے کے بعد علی الاعلان کعبۃ اللہ میں نماز پڑھنے کے لیے راہیں ہموار کیں اور وہاں نماز پڑھی گئی۔ اس سے قبل دار ارقم میں چھپ چھپا کر نماز پڑھی جاتی تھی۔ میں وہی جری وبہادر اور غیرت مند عمر بن خطاب ہوں جس نے علی الاعلان مکہ سے مدینہ کی طرف ان الفاظ ’’” تم میں سے اگر کوئی شخص یہ چاہتا ہو کہ اس کی بیوی بیوہ ہو جائے اس کے بچے يتيم ہوجائیں تو وہ مکہ سے باہر آکر میرا راستہ روک کر دیکھ لے”‘‘ بولتے ہوئے ہجرت کی تھی۔

ہاں میں وہی عمر بن خطاب ہوں جس کے عہد حکومت میں جانور بھی ظلم سے باز رہتے تھے۔ دریائوں نے جس کی آواز پر لبیک کہا ۔ منبر رسول سے بہت دور میدانِ جہاد میں جس کی آواز سنی گئی۔ جسے دیکھ کر شیطان اپنی راہ بدل لیتا تھا۔ جس کے بارے میں حضور اقدس ﷺ نے کہا کہ ’اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر ہوتے‘۔ جس کے بارے میں آپﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ ’آسمان کا ہر فرشتہ عمر کی عزت کرتا ہے اور زمین کا ہر شیطان عمر کے خوف سے لرزتا ہے‘۔ میں وہی عمر بن خطاب ؓ ہوں جس نے ہجری تقویم کی بناء ڈالی۔ جس نے محکمہ فوج، پولیس، ڈاک، بیت المال، محاصل، جیل، زراعت، آبپاشی اور تعلیم کے محکمہ جات خطہءِ عرب میں قائم کیا۔ مجھ سے پیشتر یہ محکمے موجود نہ تھے۔ہاں میں وہی عمر ہوں جس نے بیت المال کے شعبہ کو فعال کیا، مکاتب و مدارس کا قیام اور اساتذہ کی تنخواہیں مقرر کیں۔ جس نے اسلامی مملکت کو صوبوں اور ضلعوں میں تقسیم کیا، عشرہ خراج کا نظام نافذ کیا ۔جس نے مردم شماری کی بنیاد ڈالی، محکمہ عدالت اور قاضیوں کے لئے خطیر تنخواہیں متعین کیں۔جس نے جیل خانہ وضع کیا اورجلاوطنی کی سزا متعارف کروائی۔جس نے زراعت کے فروغ کے لئے نہریں کھدوائیں، نہری اور زرعی نظام کو جدید تقاضوں کے مطابق ترتیب دیا ، جس نے حرمین شریفین کی توسیع، باجماعت نماز تراویح، فجر کی اذان میں الصلوٰۃ خیر من النوم کا اضافہ کروایا۔ جس کے دور حکومت میں صرف مسلمان ہی نہیں غیر مسلم بھی خوش وخرم اور آزادی کی زندگی گزار رہے تھے۔ میں نے حربی تاجروں کو تجارت کی اجازت دی ، مفلوک الحال یہودیوں اور عیسائیوں کے لئے وظائف مقرر کیے۔ مکہ اور مدینہ کے درمیان مسافروں کے آرام کے لئے سرائیں اور چوکیوں کا قیام کیا۔ ہاں میں وہی عمر بن خطاب ہوں جس نے دریا ئے نیل کو یہ خط ’’بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔۔۔یہ خط اللہ کے بندے عمر بن خطاب(رضی اللہ تعالٰی عنہ) کی طرف سے مصر کے دریائے نیل کے نام ہے۔۔ اگر تو اپنے اختیار سے جاری ہے تو بےشک جاری نہ ہو؛ لیکن اگر تو اللہ کے حکم و اختیارسے جاری ہوتا ہے تو پھر میں اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ تجھ کو جاری کردے۔۔۔‘‘ لکھا اور دریا ئےنیل نے بات مان لی جب سے آج تک خشک نہیں ہوئی ، اس سے قبل مصری دریائے نیل کے جاری رہنے کےلیے خشک سالی سے بچنے کےلیے ہر سال ایک حسین وجمیل لڑکی کو دریا کی نذر کردیتے تھے۔

ہاں میں وہی عمر بن خطاب ہوں جس نے بیت المقدس کو فتح کیا۔ ہاں میں فاتح قبلہ اول ہوں ۔ جب میں بیت المقدس کی چابی لینے کےلیے ارض فلسطین کے سفر پر روانہ ہوا تو اپنے غلام کے ساتھ تھا ، دو مسافر !ایک اونٹنی ۔ کبھی میں اس اونٹنی پر بیٹھتا تو غلام پیدل نکیل پکڑ کر چلتا اور کبھی غلام بیٹھتا تو میں نکیل پکڑ کر چلتا ۔ 14 پیوند میں ملبوس ہوکر میں اس حال میں ارض فلسطین پہنچا کہ غلام اونٹنی پر سوار تھا اور میں نکیل پکڑ کر چل رہا تھا، کیونکہ اونٹنی پر سوار ہونے کی باری غلام ہی کی تھی، غلام نے بہت اصرار بھی کیا کہ آپ سوار ہوجائیں لیکن میں نے معاہدے کی رو سے غلام کو ہی سوار کیا اور تاریخ کی آنکھوں نے دیکھا کہ غلام سواری پر سوار ہے اور خلیفۃ المسلمین اونٹنی کی نکیل پکڑ کر پیدل چل رہا ہے. پادریوں کو گمان تھا کہ عمر خلیفۃ المسلمین ہیں تو لائو لشکر کے ساتھ آئیں گے؛ لیکن انہیں شدید دھچکا لگا کہ میں پھٹے پرانے اور میلے کچیلے کپڑوں میں سفر کی صعوبتیں جھیل کر پراگندہ بال وہاں پہنچا ، انہیں یہ یقین نہیں ہورہا تھا کہ جس نے روم وفارس کے غرور کو خاک میں ملایا، کیا وہ ایسا ہوسکتا ہے؟

جب میں مسجد اقصیٰ کے قریب پہنچا تو پادریوں نے اپنی مقدس کتاب میں لکھی پیشین گوئیوں اور میرے حلیے کو دیکھ کر مسجد کے دروازے کھول دئیے اور میں حضرت دائود کی محراب کی جانب بڑھا اور آیت سجدہ تلاوت کی اور بارگاہ ایزدی میں سجدہ ریز ہوگیا۔ ہاں میں وہی عمر بن خطاب ہوں جس کے عدل وانصاف، حق گوئی وبے باکی، جرأت وبہادری اور سادگی کی گواہی غیر مسلم بھی دینے پر مجبور ہوئے۔ جن کے بارے میں مہاتما گاندھی نے کہا تھا ’’اگر تم عالمی وقار چاہتے ہو تو صدیق و عمر کا نمونہ اختیار کرو جن کے قدموں میں دنیا کے خزانے ڈالے گئے مگر اس کے باوجود نہ ان کے پیوند لگے کپڑے چھوٹے، نہ جوکی روٹی اور نہ زیتون کا تیل چھوٹا۔‘‘ ہاں وہی عمر بن خطاب ہوں جن کے بارے میں مشہور مورخ گین نے لکھا ’’پہلے چار خلفاء کے اطوار یکساں صاف اور ضرب المثل تھے۔ یہی لوگ محمد (صلی اﷲ علیہ وسلم) کے ابتدائی کام میں شریک تھے۔ اوّل ہی اوّل تبدیلی مذہب کرنے سے ان کی سچائی ثابت ہوتی ہے اور دنیا کو فتح کر لینے سے ان کی لیاقت کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ محمد(صلی اﷲ علیہ وسلم) کے پیروکاروں ں نے اس کے بچاؤ میں اپنی جانیں خطرے میں ڈال کر دشمنوں پر اس کو غالب کردیا۔‘‘

ہاں میں وہی خلیفۃ المسلمین ہوں جس پر منبر رسولﷺ پر ۲۷؍ ذی الحجہ کو نماز فجر کے دوران ایک غلام ابولولو مجوسی نے زہر میں بجھے ہوئے خنجر سے حملہ کردیا جس سے میں شدید زخمی ہوگیا اور تین دن بعد شدید زخموں کی تاب نہ لاکر یکم محرم الحرام ۲۳؍ہجری کو شہادت کے عظیم رتبے پر فائز ہوگیا۔ اور پہلوئے مبارک میں دفن ہوگیا۔

تبصرے بند ہیں۔