سانحہ کربلا اور اس کا پیغام

محمد ارشد شریف

کربلا کا دل خراش واقعہ 10 محرم 61ھ بمطابق 10 اکتوبر 680ء  کو پیش آیا تھا۔ دشت نینوا (کربلا) میں نواسہ رسول ﷺ سیدنا حسین ؓ اور ان کے اہل خانہ پر بے پناہ ظلم کے پہاڑ توڑے گئے، یہاں تک کہ سیدنا حسینؓ کے لختِ جگر علی اصغر کے گلے میں تیر مار کر شہید کردیا گیاجو ابھی چھ ماہ کے شیرخوار بچے تھے۔ کیا سانحہ کربلا کو جنگ کہنا بجا ہوگا؟ ہرگز نہیں۔ ایک طرف پوری طرح مسلح، اسباب حرب سے آراستہ چار ہزار سے زیادہ کا یزیدی لشکر، دوسری جانب امام حسینؓ، اہل بیت اور چند دیگر ساتھیوں پر مشتمل چھوٹا سا قافلہ جن کی مجموعی تعداد خواتین اور بچوں سمیت  72 تھی۔ البتہ چند اور متلاشیان حق قافلہ حسین کے جاں نثاروں میں شامل ہوگئے، پھر بھی یہ تعداد ڈیڑھ سو نفوس سے متجاوز نہیں تھی۔ صاف ظاہر ہے کہ یہ لشکر کشی یزید کی ظالمانہ اور بزدلانہ کارروائی تھی۔ ابھی پیغمبر آخرالزماںؐ کی وفات کو پچاس برس ہی گزرے تھے کہ ان کے نواسے، اہل بیت اور دیگر مسافروں پر عرصہ حیات تنگ کردیا گیا۔ ساقی کوثرؐ کے اہل خانہ پر پینے کے پانی پر پہرے لگادیے گئے۔ تپتے صحرا میں اس مختصر سی جماعت  نے صبر و استقامت اور کامل ایمان کا وہ نمونہ پیش کیا جسے رہتی دنیا تک فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ امام حسینؓ اور ان کے ساتھیوں نے حق کی خاطر صحرائے کربلا کی بنجر زمین کو اپنے خون سے لالہ زار کردیا۔

قیام حسینؓ دراصل اسلام کے نام پر چلائے جارہے طاغوتی نظام کے خلاف جہاد تھا۔ خلافت راشدہ کے بعد ملوکیت نے اپنے پروبازو پھیلا لیے تھے۔ اصل مصیبت یہ آن پڑی تھی کہ حکومت اور دین کے درمیان خلیج گہری ہوتی جارہی تھی۔ دین کو مسجد کی چاردیواری میں محدود کرنے کی کوششیں شروع ہوگئی تھیں۔ خلافت کو ملوکیت میں بدل دیا گیا تھا۔ ان حالات میں اگر نمازیں ہوتی رہیں، حج و عمرہ کے فریضے انجام دیے جاتے رہے اور چند دیگر عبادات جاری رہیں تو انھیں اسلام کا مکمل غلبہ نہیں کہیں گے۔ رسول عربیﷺ کا سب سے بڑا مشن یہ تھا کہ انھوں نے بندوں کو بندوں کی غلامی سے نجات دلاکر ایک الہ واحد کی عبدیت میں دے دیا تھا۔ زمین پر نظام الہی قائم کرکے اقامت دین کا فریضہ ادا کیا تھا۔ مگر اب اس اسوۂ نبوی ؐ کو رسوا کیا جارہا تھا۔ حکمران و عمال اب قیصر و کسری سی شان و شوکت کے رسیا ہوتے جارہے تھے، اور یہ سب اسلام کے نام پر ہورہا تھا۔ خلفاے راشدین کے دور میں تین بڑے براعظم پرچم اسلام کے تلے آچکے تھے۔ آخری خلیفہ سیدنا حضرت حسنؓ سے فوج کشی کے ذریعے اقتدار چھین لیا گیا۔ حضرت حسنؓ محض امت کے انتشار اور خون خرابے سے بچنے کے لیے خلافت سے دست بردار ہوگئے، مگر چند اہم شرائط پر جنھیں بعد میں پامال کیا گیا۔ ایک سازش کے تحت سیدنا حضرت حسنؓ کو بھی زہر دے کر شہید کردیا گیا۔

حد تو اس دن ہوگئی جب برسرِ اقتدار حضرت امیر معاویہؓ کے بیٹے یزید کی پیشگی بیعت لی جانے لگی، جبکہ حضرت حسنؓ سے طے شدہ شرائط میں ایک شرط یہ بھی تھی کہ کسی کو حکومت کا وارث نہیں بنایا جائے گا۔ امیر معاویہؓ   نے بیس برس حکومت کی، اور اپنی حکومت کے دسویں سال ہی یزید کو ولیعہد نامزد کردیا۔ باقاعدہ بیعت لینی شروع کردی گئی۔ حالات سے مجبور ہوکر حق پرست اصحاب بھی خاموش تھے۔ مگر سیدنا امام حسینؓ اور دیگر چند حضرات نے بیعت سے انکار کردیا۔ بیس برس کی حکمرانی کے بعد حضرت امیر معاویہؓ کا انتقال ہوگیا۔ ان کے بعد یزید تخت نشین ہوا۔ تجدید بیعت کا عمل شروع ہوا۔ مدینہ کی سمت نمائندہ بھیجا گیا کہ امام حسینؓ اور دیگر انکار کرنے والوں سے بیعت لی جائے۔ ساتھ ہی حکم دیا گیا کہ مخالفت کرنے والوں کو قتل کردیا جائے۔ خصوصاً امام حسینؓ کے تعلق سے سخت ترین احکامات دیے گئے۔ مگر بقول شاعر ؎

نہ ڈگمگائے  کبھی ہم وفا کے رستے میں
چراغ ہم نے جلائے وفا کے رستے میں

حضرت حسینؓ اہل و عیال اور چند جاں نثاروں کے ہمراہ مدینہ سے مکہ تشریف لائے تاکہ حرم کعبہ کے سائے میں رہنے والے اہل حق کے ساتھ مل کر حکمت عملی تیار کی جائے۔ ہرچند کہ عمومی طور پر تو یزید کی نام نہاد خلافت نے امت میں اضطراب اور بیچینی پیدا کردی تھی لیکن اس ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے والے معدودے چند افراد ہی تھے۔

شہر کوفہ سیدنا حضرت علیؓ کے دور خلافت میں  دارالخلافہ رہا تھا۔ یہ عراق کا مشہور شہر تھا اور عسکری نقطہ نظر بڑی اہمیت کا حامل تھا جہاں حضرت علیؓ کے شیدائی خاصی تعداد میں تھے۔ اکثریت یزید کی تخت نشینی کے خلاف تھی اور حضرت حسینؓ کو بحیثیت خلیفہ مسند خلافت پر متمکن دیکھنا چاہتی تھی۔ لہذا کوفہ سے خواص و عوام کے بے شمار خطوط سیدنا حسینؓ کو موصول ہونا شروع ہوئے۔ وہ لوگ امام کو کوفہ میں مدعو کررہے تھے تاکہ ان کے ہاتھ پر خلافت کی بیعت لیں۔

امام حسینؓ نے اپنے چچا زاد بھائی مسلم بن عقیلؓ کو حالات کا جائزہ لینے اور بیعت کی غرض سے کوفہ روانہ فرمادیا۔ حضرت مسلم بن عقیلؓ جب کوفہ پہنچے تو ابتدا میں حالات نہایت سازگار تھے۔ کم و بیش اٹھارہ ہزار افراد سفیرِ حسین حضرت مسلم بن عقیلؓ کے ہمراہ کمر بستہ ہوئے اور قصر کوفہ کا محاصرہ کرلیا۔

بصرہ جو عراق کا دوسرا اہم شہر تھا اور کوفہ کے قریب ہی واقع تھا، وہاں حضرت حسین نے حضرت سلیمان کو سفیر بناکر بھیجا۔ مگر وہاں یزید کا ظالم گورنر عبید بن زیاد حاکم تھا۔ لوگ چاہتے ہوئے بھی حضرت سلیمان کا ساتھ نہ دے پائے، سوائے  چند ایک کے۔ حضرت سلیمان گرفتار ہوئے اور شہید کردیے گئے۔ البتہ کوفہ کو بزرگ گورنر نرم دل تھا۔ حالات مخالف ہوتے دیکھ کر یزید نے کوفہ کے گورنر کو معزول کرکے بصرہ کے حاکم ابن زیاد کو کوفہ کی اضافی گورنری سونپ دی تاکہ قیام حسین کو ناکام بنایا جاسکے۔

 ابن زیاد جب کوفہ پہنچا تو وہاں سفیر حسین کی آمد کے چرچے تھے۔ آخر وہی مرحلہ پیش آیا جس کا ذکر پہلے کیا جاچکا ہے کہ مسلم بن عقیلؓ کی قیات میں تقریباً اٹھارہ ہزارکی جماعت نے کوفہ کے شاہی محل کو گھیر لیا۔ ابن زیاد، دیگر اہل کار اور سپاہی محل کی چار دیواری میں قید ہوکر رہ گئے۔ ابن زیاد مکر و فریب میں مہارت رکھتا تھا۔ عین وقت پر ایک ایسی چال چلی جو کام کرگئی۔ اس نے شاہی خزانے کی چمک دمک کا سہارا لیا۔ اس نے قیام میں شریک لوگوں کے اہل و عیال کو ورغلانا شروع کیا، خصوصاً خواتین کو مال و متاع اور انعام کا لالچ دیا۔ ان خواتین نے اپنے شوہروں، بھائیوں، بیٹوں اور دیگر رشتہ داروں کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کردیا۔ آخر اس شیطانی چال نے قیام کی کمر توڑ دی۔

اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ حضرت مسلم بن عقیلؓ کے ساتھ ایک مختصر سے جماعت رہ گئی۔ حضرت مسلم کے لیے ایک تشویش کی بات اور تھی کہ ابتداءً کوفہ کے حالات سازگار دیکھ کر وہ حضرت حسین کو خط لکھ کر تشریف آوری کی دعوت دے چکے تھے۔ مگر بدلے ہوئے حالات دیکھ کر وہ چاہتے تھے کہ سیدنا امام حسینؓ کو کسی طرح کوفہ کی تازہ صورت حال سے آگاہ کیا جائے اور آنے سے روکا جائے۔ اسی اثنا میں انھیں ابن زیاد کے سپاہیوں نے  گھیر لیا۔ حضرت مسلمؓ نے پامردی سے مقابلہ کیا۔ دشمن نے جب یہ دیکھا کہ یہ بہادر اس وقت تک قابو میں نہ آئے گا جب تک تلوار اس کے ہاتھ میں ہے، تو ایک سردار نے انھیں جان کی امان دے کر تسلیم ہوجانے کو کہا۔ عرب میں کسی کو امان دے کر اس کی پاس داری کرنا ایک قدیم روایت تھی۔ لہذا سفیر ِحسین حضرت مسلمؓ نے اس پر بھروسہ کرتے ہوئے سپر ڈال دی۔ مگر مکاروں نے وعدہ خلافی کی اور ابن زیاد کے حکم سے اس جانباز کو قصر کوفہ کی بلندی سے گراکر شہید کردیا گیا۔

ادھر امام حسینؓ مکہ سے اہل بیت کے ہم راہ کوفہ کی جانب روانہ ہوگئے۔ راستے میں آپ کو حضرت مسلم بن عقیلؓ کی شہادت اور اہل کوفہ کی عہد شکنی کی خبر ملی، لیکن آپ نے سفر جاری رکھا۔

ابن زیاد تک امام حسینؓ کے کوفہ کی جانب پیش رفت کی مسلسل خبریں پہنچ رہی تھیں۔ اسے یقین تھا کہ اگر حسینؓ کوفہ پہنچ گئے تو حکومت بنو امیہ کی جڑیں تک ہل جائیں گی۔ جب سفیر حسینؓ کا ساتھ دینے کے لیے اٹھارہ ہزار افراد اٹھ سکتے ہیں تو بذات خود حسینؓ کی آمد پر کیا قیامت نہ برپا ہوگی۔ اس خدشے کے پیش نظر اس نے ایک لشکر ترتیب دے کر حضرت حسینؓ کی سمت روانہ کیا جس کا کمانڈر عمر ابن سعد کو بنایا۔ ابن سعد  کو لالچ دیا گیا کہ اگر مقصد میں کامیاب ہوئے تو من چاہے علاقے کی امارت دی جائے گی۔ شمر بن ذی الجوشن  نامی ایک ظالم سپہ سالار ابن سعد کے ساتھ بھیجا گیا۔ شمر اور اس جیسے دنیا طلب افراد پر مشتمل تقریباً چایر ہزار کا مسلح لشکر کوفہ سے حضرت حسینؓ کی سمت تیزی سے بڑھا۔

کوفہ کے بیشتر افراد جنھوں نے حضرت امام حسینؓ کو خطوط بھیج کر بیعت کے لیے مدعو کیا تھا ان میں سے زہادہ تر افراد برسر اقتدار ظالموں کے ڈرانے دھمکانے سے خاموش ہوگئے تھے۔ ستم ظریفی دیکھیے کہ ان میں سے کئی ایمان فروش ایسے بھی تھے جنھوں نے انعام ع اکرام کے لالچ میں امام حسینؓ کے خلاف یزیدی لشکر میں شمولیت اختیار کرلی تھی۔

مکہ سے کوفہ کے لیے امام حسینؓ نے 8 ذی الحجہ سن 60ھ بمطابق 10ستمبر 680ء کو سفر شروع کیا۔ آپؓ کے چچا ابن عباسؓ اور بھائی محمد حنفیہ نے آپؓ کو رخصت کیا اور ساتھ ہی راہ کے متوقع خطرات سے متنبہ بھی کیا۔ محمد حنفیہ نے اس موقع پر کہا ’’اہل مکہ اور عازمین حج آپ کے  عین حج کے موقع پر اور 10 ذی الحجہ سے صرف دو روز قبل مکہ چھوڑنے پر حیران ہیں۔‘‘ امام حسینؓ نے جو باتیں جواب میں ارشاد فرمائیں وہ اہل حق کے لیے روشنی کا مینار ہیں۔ آپ کے الفاظ تھے: ’’میں امت کو پھر سے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی طرف واپس لانا چاہتا ہوں۔ میں اپنے نانا کے دین کا بھولا ہوا سبق یاد دلانا چاہتا ہوں۔‘‘ اصل میں یہی سب سے بڑا المیہ تھا کہ دین کی اصل روح کو بتدریج مجروح کیا جارہا تھا۔

ادھر حضرت حسینؓ مکہ سے کوفہ کی طرف روانہ ہوئے، اور ادھر ابن الوقتوں کا ایک شقی لشکراہل حق کا راستہ روکنے کے لیے آگے بڑھا۔

کوفہ سے تقریباً 75 کلومیٹر کے فاصلے پر ایک مقام ہے جسے دشت نینوا یا کربلا کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہی وہ تاریخی مقام ہے جہاں نواسۂ رسول اور دیگر اہل حق حضرات نے راہِ وفا میں اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے۔ یہی وہ سرزمین ہے جہاں علی مرتضیؓ و فاطمۃ الزہرا کے لخت جگر حسینؓ نے تجدید احیاے دین اور محض رضاے رب کائنات کی خاطر خود کو قربان کردیا۔

کربلا میں اہل حق کے اس چھوٹے سے قافلے پر ڈھائے گئے مظالم رونگٹے کھڑے کردینے والے ہیں۔ اگرچہ یزیدی لشکر بھی ان افراد پر مشتمل تھا جو مدعیان اسلام تھے، مگر یہ کیسا اسلام کا دعوی تھا کہ اس پیغمبر اسلامؐ اور انؐ کے اہل بیت پر پانی روک دیا جن کے نام کا کلمہ وہ پڑھتے تھے؟ چھ ماہ کے ننھے علی اصغر پر تیر چلانے والے حرملہ کے ایمان کے بارے میں کیا کہا جاسکتا ہے۔ امام حسینؓ کی جماعت کے جن بہادروں نے ظالموں سے مقابلہ کیا تو حتی الوسع اجتناب کے بعد۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ انھیں جان کا خوف تھا، بلکہ اتمام حجت قائم کرنا مقصدتھا اور یہ اسلام کی اہم تعلیم ہے کہ جہاں تک ہوسکے خون ریزی سے بچا جائے۔ اگر کسی کو جان پیرای ہوتی تو، واضح رہے کہ سیدنا امام حسینؓ نے اپنے ساتھیوں کو واپس لوٹ جانے کا ہر ممکن موقع دیا تھا۔ مگر شمع توحید کے پروانے تو مر مٹنے کے لیے تیار آئے تھے۔ شوقِ شہادت ان کے سینوں میں جوش مار رہا تھا۔ یزیدی لشکر کے کمانڈر ابن سعد سے ایک پر ایک کا مقابلہ طے ہوا تھا۔ لیکن جب انھوں نے دیکھا کہ حسینی لاشکر کے جانباز تمناے شہادت میں مخالفین کے کشتوں کے پشتے لگا رہے ہیں تو ایک مجاہد پر کئی کئی لوگ ٹوٹ پڑے۔ تیروں اور نیزوں کی بوچھاڑ اور زخموں سے چھلنی داعیان حق۔ یزیدی لشکر کی یہ کیسی بہادری تھی کہ نماز پڑھتے ہوئے افراد پر بھی تیر برسائے گئے، شہدا کے سر قلم کیے گئے، جسموں کو گھوڑوں سے روندا گیا۔ بچوں اور خواتین کو گرفتار کیا گیا۔

سیدنا امام حسینؓ کا پورا جسم تیروں، تلواروں اور نیزوں سے زخموں تھا، مگر کوئی بھی ان کے نزدیک نہ آپایا۔ انھوں نے جام شہادت اس وقت نوش کیا جب وہ نماز میں سجدے کی حالت میں تھے۔

سانحہ کربلا کی تفصیلات تاریخ کی کتابوں میں محفوظ ہیں۔ یہ واقعہ 10 محرم 61ھکو پیش آیا۔ 10 محرم کو یوم عاشورہ کہا جاتا ہے۔ اس دن کی پہلے سے ہی بڑی اہمیت تھی، اور اسی دن شہادتِ حسینؓ کا واقعہ رونما قدرت الہی کی حکمت سے خالی نہیں۔

10 محرم یوم عاشورہ ایک بے حد سخت دن تھا۔ یہ وہ غیر معمولی دن تھا جب لوگوں کو اختیار دیا گیا کہ وہ یا تو شیطان سے بھی گئے گزرے ٹھہریں یا پھر فرشتوں سے بھی اعلی مقام پالیں۔ سب کو انسان یا حیوان بننے کا اختیارتھا۔ میدان کربلا انسانیت کی فتح و شکست کا میدان تھا۔ عاشورہ کے دن امام حسینؓ نے حریت کا عَلَم بلند کیا، جن کے پاس جہالت کا عذر باقی تھا ان پر حجت تمام کردی، مگر کربلا میں ایسے دنیا پرست ظالموں اور حریص بدبختوں کو گھیر کر جمع کردیا گیا جو کلمہ حق سننے کو بھی تیار نہیں تھے۔ ان ظالموں نے اس روز انسانیت کو گھوڑوں کے کھروں تلے پامال کردیا اور ثابت کردیا کہ یہ لوگ انسان کی شکل میں حیوان ہیں۔ یزیدی لشکر نے ایسی حرکتیں کیں جو اس سے پہلے کبھی نہ ہوئی ہوں گی۔ لہذا ان کا دفاع کرنا انسانیت کے ساتھ ناانصافی ہوگی۔

کچھ مورخین سانحہ کربلا کے لیے یزید کو قصور وار نہیں گردانتے ہیں۔ لہذا ضروری ہے کہ ہم کربلا اور چند دیگر واقعات کی افسوس ناک تفصیلات بھی جان لیں۔ حقیقت یہی ہے کہ کسی بھی صورت میں یزید اور اس کے لالچی گماشتوں کو کلین چٹ دینا قرین عقل و انصاف نہ ہوگا۔

جو لوگ آل بنو امیہ کی حکمرانی اور یزیدی کارروائی کا دفاع کرتے ہیں ان سے صرف تین سوالوں کے جواب درکار ہیں۔

1۔ عبید ا بن زیاد جیسے سنگ دل اور ظالم شخص کو کوفہ کی اضافی امارت سونپنے والا کون تھا۔ کیا ابن زیاد کی اتنی جسارت تھی کہ اپنی مرضی اور اپنی سطح پر کربلا میں اہل بیت رسولؐ پر مظالم کے پہاڑ توڑنے کے لیے لشکر روانہ کرتا؟

2۔ سانحہ کربلا کے بعد شہر نبیﷺ مدینہ منورہ  کے تقدس کو پامال کرنے والے کون لوگ تھے؟

واضح رہے کہ جب اہل مدینہ کو شہادت حسینؓ اور ان کے اہل خانہ سے بدسلوکی کے بارے میں پتہ چلا تو انھوں نے یزید کی بیعت توڑ کر اپنے احتجاج کا ظہار کیا۔ مگر یزیدی لشکر نے مدینہ منورہ پر چڑھائی کی اور تین روز تک معصوم لوگوں کا خون بہایا۔ مسجد نبویؐ میں گھوڑے باندھے گئے۔ تین دن تک مسجد بنوی میں نماز نہ ہوسکی۔ اخلاقی اقدار کو پس پشت ڈال کر انتہائی شرم ناک حرکتیں کی گئیں۔

3۔ مکہ معظمہ پر فوج کشی کرکے حرم کعبہ میں آتش زنی کرنے والے کون لوگ تھے؟

اس کارروائی میں غلاف کعبہ میں آگ لگ گئی۔ تاریخ کی کتابوں میں لکھا ہے کہ اس آتش زنی میں وہ سینگ بھی خاک ہوگئے جو سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے نصب کیے تھے۔ یہ سینگ اس مینڈھے کے تھے جسے سیدنا حضرت اسمعیل علیہ السلام کی جگہ ذبح کیا گیا تھا، اور تقریباً ساڑھے تین ہزار برس سے خانہ کعبہ میں رکھے ہوئے تھے۔

یہ تینوں ہولناک اور انسانیت سوز واقعات یزید کے دور میں پیش آئے۔ کیا اب بھی یزید کی طرف داری کرنا حق بجانب ہوگا؟

ایک اور اہم بات جس کی طرف کم توجہ دی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ قیام حسینؓ یا شہادت حسینؓ کو محض یزید یا عہد یزید تک محدود کرنا مناسب نہیں ہے۔ یزید جس کے متعلق تاریخ میں آتا ہے کہ اس کی شخصیت کسی بھی لحاظ سے خلافت کے لائق نہیں تھی۔ اخلاقی طور پر وہ بہت بدنام تھا۔  لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگر وہ متقی، پرہزگار اور مثالی کردار کا حامل بھی ہوتا تب بھی اہل حق کا اولین فرض ہوتا کہ وہ خلافت کی بحالی اور ملوکیت کے ازالے کے لیے اٹھتے۔

نبی کریم ﷺ کی پیش گوئی تھی کہ پیغمبر کی وفات کے کے بعد خلافت راشدہ تیس برس تک قائم رہے گی اس کے بعد کاٹ کھانے والی ملوکیت شروع ہوجائے گی۔ ابوبکرؓ، عمرؓ، عثمانؓ اور علیؓ کی خلافت کے بعد حضرت حسنؓ نے چھ ماہ خلافت کی ذمہ داری انجام دی۔ لہذا چاروں خلفاے راشدین کے ادوار میں اگر حضرت حسنؓ کے چھ ماہ شامل کریں تب حدیث رسولؐ کے مطابق تیس برس کی مدت مکمل ہوتی ہے۔ اس کے بعد اسلامی اقدار کو پامال کرکے خلافت کو بادشاہت میں بدل دیا گیا۔ لہذا اب یہ لازمی ہوگیا تھا کہ کوئی عظیم ہستی اٹھے اور اقامت دین کے اصل پیغام سے لوگوں کو آگاہ کرانے کے لیے اپنی قربانی پیش کرے۔ یہ عظیم کام نواسہ رسولؐ سیدنا حسینؓ نے انجام دیا۔ ہرچند کہ شہادت حسین کے بعد بھی خلافت قائم نہ ہوسکی لیکن حسینؓ نے اپنے لہو سے رہتی دنیا تک کے لوگوں کے لیے احتجاجی پیغام درج کردیا کہ یہ وہ حکومت نہیں جو رسول خدا نے قائم کی تھی۔

آج بھی کرہ ارض حکومت الہیہ کے لیے ترس رہا ہے۔ نام نہاد مسلم حکومتیں ضرور موجود ہیں مگر اسلامی حکومت اپنی اصل روح کے ساتھ کہیں نہیں ہے۔

امام حسینؓ کی جملہ جدو جہد اور قربانی کا مقصد بندوں کی گردن سے بندوں کی من مانی حکومت کا قلادہ اتار کر قرآن کریم اور اسوہ رسولؐ کے عین مطابق نظام کو رائج کرنا تھا۔ تمام انبیا و مرسلین علیہماالسلام اور حسنینؓ کے پیارے نانا جناب مصطفی ختمی مرتبت ﷺ کا نصب العین یہی تھا۔ نبی کریمؐ نے دور جہالت کی تمام برائیوں اور خباثتوں کو ختم کرکے ایک عادلانہ نظام قائم کیا تھا جس میں کسی عرب کو کسی عجمی پر، گورے کو کالے پر، امیر کو غریب پر کوئی فوقیت حاصل نہیں تھی۔ مگر بنو امیہ کے دور میں  عہد جہالت کے اندھیرے پھر سے پیر پسارنے لگے تھے۔

اب تو صورت حال ہی بھیانک ہوچکی ہے۔ علامہ اقبال نے عربوں کی اسی ذہنیت پر افسوس کرتے ہوئے کہا تھا کہ گذشتہ تیرہ صدیوں سے عرب حکمرانوں نے اسلام کو اپنی ذاتی ملکیت سمجھ رکھا ہے۔ عربوں کی اسلام پر اس سامراجیت نے اسلام اور مسلمان دونوں کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔

علامہ اقبال کی دلی خواہش تھی کہ اس کرہ ارض کہ کسی ایک خطے پر اسلامی نظام قائم کرکے ایک مثالی نمونہ پیش کیاجائے تاکہ لوگوں پر اسلام کی حقانیت اور اس کے ثمرات واضح ہوسکیں۔

شہادت حسین نہ صرف امت مسلمہ بلکہ تمام بنی نوع انسان کے لیے بہترین مثالی نمونہ ہے کہ باطل اور طاغوتی نظام کے سامنے سر کٹایا تو جاسکتا ہے، مگر خم نہیں کیا جاسکتا۔

سب سے بڑا درس جو ہمارے لیے واقعہ کربلا میں مضمر ہے وہ یہ ہے کہ اقامت دین کے لیے تن من دھن سے کمربستہ ہونا اور طاغوتی و ابلیسی نظام کے خلاف سینہ سپر ہونا ہمارا اولین فرض ہے۔ سیدنا امام حسینؓ نے اس راہ میں اپنا سب کچھ قربان کردیا اور شہادت کا عظیم الشان مقام پاکرہمیشہ کے لیے جاوداں ہوگئے، لیکن ان کی شہادت کو محض سالانہ چند مخصوص ایام  کے لیے محدود کرنا، اسلامی تعلیمات کو بالاے طاق رکھ کر خود کو اذیت دینا، کسی تہوار کی طرز پر منانا، نہایت افسوس ناک ہے۔ سانحہ کربلا پر جتنا رنج و غم کیا جائے اتنا کم ہے، مگر غم کیا جاتا ہے، منایا نہیں جاتا۔

آئیے ہم تمام تفرقات اور گروہی تعصبات کو مٹاکر اور متحد ہوکر شہادت حسینؓ کے پیغام کو دنیا کے ہر کونے تک پہنچادیں۔ کیونکہ حسینؓ وہ مایہ ناز ہستی ہیں جن سے راہ وفا کو اعتبار ملا ہے۔

تبصرے بند ہیں۔