ہر چند کہ انصاف کا خواہاں بھی وہی ہے

عرفان وحید

ہر چند کہ انصاف کا خواہاں بھی وہی ہے

قاتل بھی وہی اور نگہباں بھی وہی ہے

بربادیٔ گلشن کا جو سامان بنا تھا

بربادیٔ گلشن پہ پشیماں بھی وہی ہے

ہے نسبت ِنومیدیٔ تاریکیٔ شب جو

اک مژدۂ امید ِفروزاں بھی وہی ہے

پانی میں تلاطم بھی اسی چاند کے باعث

اور اپنی ادا دیکھ کے حیراں بھی وہی ہے

تطہیرِ سیاست کا بھی دعویٰ ہے اُسی کو

تنقیدِ حکومت سے گریزاں بھی وہی ہے

مشکل ہے مفر وحشتِ تنہائی سے عرفان

جو قریہ ہے آباد، بیاباں بھی وہی ہے

تبصرے بند ہیں۔