ہم عمرِ رائیگاں کی تھکن یوں اُتارتے

ادریس آزاد

 ہم عمر ِرائیگاں کی تھکن یوں اُتارتے
پیڑوں کے ساتھ رشتۂ غَم اُستوارتے

تم وہ حَسِین ہو کہ قسم سے تمہارا نام
ہم بت شکن نہ ہوتے تو ہم بھی پکارتے

چوری میں ہاتھ کٹ گئےورنہ غزل سرا
منظر نکالتے، کوئی پیکر سنوارتے

اے کاش ہم ہمالیہ ہوجا تے اور تُم
ہم میں سے اپنی جھیل کا دریا گزارتے

ہم سادگی میں کل سے نکل آئے آج میں
کب تک جمال یاس کے پیکر مزارتے

اب آگئی تھی بات تمہارے جمال پر
بازی نہ جیت سکتےتھےگر ہم نہ ہارتے

کتنے پھلوں کا بوجھ اُٹھاناہے اب کی بار
ہم بھی درخت ہوتے تو پتھر شمارتے

دربار ِ مشک بار کی خلعت اُتار دی
اُس پیکر ِ دروغ کو کب تک نکھارتے

تبصرے بند ہیں۔