ہم عمرِ رائیگاں کی تھکن یوں اُتارتے
ادریس آزاد
ہم عمر ِرائیگاں کی تھکن یوں اُتارتے
پیڑوں کے ساتھ رشتۂ غَم اُستوارتے
…
تم وہ حَسِین ہو کہ قسم سے تمہارا نام
ہم بت شکن نہ ہوتے تو ہم بھی پکارتے
…
چوری میں ہاتھ کٹ گئےورنہ غزل سرا
منظر نکالتے، کوئی پیکر سنوارتے
…
اے کاش ہم ہمالیہ ہوجا تے اور تُم
ہم میں سے اپنی جھیل کا دریا گزارتے
…
ہم سادگی میں کل سے نکل آئے آج میں
کب تک جمال یاس کے پیکر مزارتے
…
اب آگئی تھی بات تمہارے جمال پر
بازی نہ جیت سکتےتھےگر ہم نہ ہارتے
…
کتنے پھلوں کا بوجھ اُٹھاناہے اب کی بار
ہم بھی درخت ہوتے تو پتھر شمارتے
…
دربار ِ مشک بار کی خلعت اُتار دی
اُس پیکر ِ دروغ کو کب تک نکھارتے
تبصرے بند ہیں۔