ہندوستانی تہذیب کا علمبردار- اعظم کریوی

جہاں گیر حسن مصباحی
اعظم کریوی جس عہد سے تعلق رکھتے ہیں وہ اردو افسانہ نگاری کا دوسرا دور تسلیم کیا جاتاہے۔ اس عہد میں حقیقت نگاری اور دیہات نگاری کو فروغ حاصل رہاہے۔ چنانچہ پریم چند، مہاشہ سدرشن، علی عباس حسینی، اعظم کریوی وغیرہ نے ایک غالب رجحان کے طورپر حقیقت نگاری اور دیہات نگاری کو فروغ دینے کی کوشش کی۔ اِن فکشن نگاروں نے اردوافسانے کو اِس کامیابی کے ساتھ عوام وخواص کے سامنے پیش کیاکہ اول دور کے مقبول ومحبوب افسانہ نگاروں (راشدالخیری، نیازفتح پوری، سلطان حیدرجوش، سجادحیدر یلدرم)کے افسانے کولوگ بھولنے لگے، اورحقیقت نگاری و دیہات نگاری کی لطیف خوشبو سے اپنے دل ودماغ کومعطرکرنے لگے۔
اعظم کریوی کی افسانہ نگاری کی بات کی جائے تو وہ ایک ایسےافسانہ نگار کی حیثیت سے سامنے آتے ہیں جو ازاول تاآخر ہندوستان کی مشترکہ تہذیب کی پاسبانی ونگہبانی کرتے رہےاور مغربی تہذیب وتمدن کوقبول کرنے میں بے اطمینانی کا اظہار کیا۔ ان کے افسانے عام فہم اورسادہ ہوتے ہیں، لیکن اُن کامشاہدہ کافی گہرا ہے جس کے باعث وہ جو کچھ بھی پیش کرتے نہیں ہیں اُس کی ہوبہو تصویر نگاہوں میں بس جاتی ہے۔ اُن کے کردار عام طورپر دیہاتی ہوتے ہیں اور جس کردارکی زبان سے جوبھی مکالمہ ادا کراتے ہیں وہ فطری معلوم ہوتاہے۔ مثال کے طورپر ایک تعلیم یافتہ انسان دوسرے تعلیم یافتہ انسان سے مخاطب ہوتاہے تو وہ ’’ حجلۂ عروسی، دستِ غیب، ننگ اسلام، مشّاطہ، ہم زلف، یارانِ طریقت‘‘ جیسے بھاری بھرکم الفاظ پر مشتمل جملوں کا استعمال کرتاہے، لیکن جب ایک دیہاتی محو گفتگو ہوتا ہے تو اُس کا لہجہ یکسر بدل جاتا ہے، اور وہ ’’معافی‘‘ کی جگہ ’’مافی‘‘، ’’ حضور‘‘ کی جگہ ’’ حجور‘‘، ’’جاتے ہیں ‘‘ کی جگہ ’’جات ہیں ‘‘لیکن‘‘کی جگہ ’’مُدا‘‘، ’’خراب‘‘کی جگہ ’’کھراب‘‘جیسے شبدوں پر مشتمل جملوں کا استعمال کرتاہے ہیں۔ غرض کہ اعظم کریوی ہندوستانی دیہات کی بے لوث اور سادہ زندگی کی سچی تصویر پیش کرتے ہیں۔ ساغر نظامی کے بقول:
’’وہ راجہ، رانی، بادشاہوں اورشہزادوں کا ثناخواں نہیں ہے۔ وہ ہندوستانی دیہات اورگاؤں کی زندگی کا نمائندہ ہے، ا س کی تصویریں ہندی اور اُن تصویروں کا رنگ خالص آفاقی ہے۔ وہ ہندوستانی گاؤں کی پاک اور بھینی زندگی اورغریبوں کے بے لوث معاشرت اور اس سادہ معاشرت میں جان ڈالنے والی سچی محبت کا مصورہے۔ ‘‘
(پیش لفظ’’شیخ وبرہمن‘‘، سگماپریس، اسلام آباد، پاکستان، 2009ء)
اعظم کریوی کی پیدائش سنہ 1898/1899ء کو اُن کے آبائی وطن ’’کُرئی‘‘ضلع الہ آباد(موجودہ ضلع کوشامبی)میں ہوئی۔ اعظم کریوی کا بچپن گاؤں کی سادہ فضاؤں میں گنگاکنارے سیپ اور موتی چنتے ہوئے گزرا۔ ابتدائی تعلیم گھرپر حاصل کی اور اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے مختلف شہروں کارُخ کیا۔ مثلاً ’’الہ آباد، سہارن پور، علی گڑھ وغیرہ، اورتقریباً1917-18 میں فوج کے ایک شعبے میں بحیثیت کلرک ملازمت اختیارکرلی۔ ملازمت کا یہ سلسلہ تیس سال(1949تک)کی مدت پر محیط ہے۔ ملازمت کے سلسلے میں جن مقامات پرتبادلہ ہوا وہ یہ ہیں : سہارن پور، میرٹھ، الہ آباد، کوئٹہ، (تقسیم کے بعد)کراچی وغیرہ۔ اس کے بعد بھی چارپانچ سال (تقریباً1953 ) تک پرائیویٹ سیکٹر میں ملازمت کرتے رہے۔
اعظم کریوی کی چارشادیاں ہوئیں جن سے آٹھ لڑکے اور اُنیس لڑکیاں تولد ہوئیں۔ اُن کا بچپناتو بہت ہی عیش و عشرت میں گذرا، مگر آخری زندگی نہایت ہی کسمپرسی کے عالم میں بسر ہوئی، اور ایک دن ایک وحشت ناک حملے میں سنہ 1955 کواِس دنیا سے رخصت ہوگئے۔
اعظم کریوی کی ادبی زندگی کا آغاز شاعری کی صورت میں ہوا۔ لیکن بہت جلد شاعری چھوٹ گئی اور افسانہ نگاری کی طرف مائل ہوگئے۔ اُن کا اولین افسانہ سنہ1921میں ’’پریم کی انگوٹھی‘‘کے نام ماہنامہ’’طوفان‘‘ الہ آبادمیں شائع ہوا، جس کی بدولت افسانہ نگاری کی دنیامیں اچھی خاصی شہرت ملی۔
اس کے بعد 1925ء سے 1935ء تک دس سالہ مدت کے درمیان اعظم کریوی نے مختلف طبع زاد اور غیرطبع زاد افسانے لکھے۔ یہاں تک کہ 1945ء آتے آتے سات افسانوی(مثلاًشیخ وبرہمن، پریم کی چوڑیاں 1942ء، دکھ سکھ 1943ء، انقلاب، کنول1944، روپ سنگھاراورہندوستانی افسانے 1945ءمیں )مجموعے منظرعام پرآئےاورمقبول خاص وعام ہوئے۔ اسی بیچ دوتحقیقی وتنقیدی کتابیں (ہندی شاعری 1931ء اور دیہاتی گیت1939ء) شائع ہوئیں۔ یہ تمام کتابوں کو ایک بارپھرسے اعظم کریوی کے بیٹے خالداعظم نے سگماپریس، اسلام آباد، پاکستان سے 2009ء میں شائع کردیا ہے۔ اِن کےعلاوہ اعظم کریوی نےمختلف مقالات و مضامین بھی تحریر لکھے جو وقتاً فوقتاً اخبارات و رسائل کی زینت بنتے رہے۔ مثلاً ’’جعفربرمکی کا قتل ( زمانہ، اگست1922ء)بھاشاکی شاعری(زمانہ دسمبر1928ء)مصورغم کی افسانہ نگاری (عصمت دہلی جولائی 1936ء)۔
ایک تخمینے کے مطابق اعظم کریوی کے افسانوں کی تعداد130 ؍تک پہنچتی ہے جن میں 90؍ افسانے تدوین کے مرحلے سے گذر چکے ہیں اور باقی کے بارے میں میں حتمی طورپر کچھ کہنا مشکل ہے۔
اعظم کریوی کاعہد سیاسی اعتبارسے سامراجیت، سماجی ومذہبی اعتبار سے قدیم معتقدات اورافسانوی اعتبار سے حقیقت پسندی، اصلاح پسندی اورتشکیلی روایت کاعہدتھا، چنانچہ اعظم کریوی کے افسانوں میں بھی ان تمام باتوں کی واضح بازگشت سنائی دیتی ہے۔ ’’شیخ وبرہمن، پریم کی لیلا، آزادی، وکیل کاکارنامہ، 2000کا ہندوستان، بڑاآدمی، بڑے بول کا سرنیچا، پاروتی، چندرکلا، کنول، سہیلی، قربانی وغیرہ افسانے سیاسی وسماجی بکھراؤ، قدمات پسندی اور بدلتےادبی رجحانات کے مثالی نمونے ہیں۔ یہ اقتباسات ملاحظہ ہو:
1۔ ’’ بملا:…اگر تم پرانی تاریخیں پڑھوتو تمھیں معلوم ہوگاکہ پرانے زمانے میں سیتا، ساوتری، رادھا ایسی بزرگ دیویاں باہر گھومنا کچھ بُرا نہیں سمجھتی تھیں۔ کملا:یہ سچ ہے لیکن میں نے کسی تاریخ میں نہیں پڑھاکہ وہ تھیٹروں، ناچ گھروں میں جاتی تھیں۔ اپنے مردوں کے سوا کسی غیر کے ساتھ سیرکرتی تھیں۔ ‘‘
(افسانہ’’آزادی‘‘سے)
2۔ ’’پتاجی! میں کوئی پاپ نہیں کررہی ہوں، پچھلے زمانے میں سوئمبرکی رسم جاری تھی جس کا منشایہی تھاکہ لڑکی اپنی مرضی کے مطابق بَرتلاش کرے، اگر کلجگ میں یہ رسم نہیں رہی ہے تو ہماری غلطی ہے؟ اگر کوئی لڑکی اپنا پتی بنانے کے لیے کسی کو خود منتخب کرتی ہے تویہ کوئی پاپ نہیں ہے۔ ‘‘
(افسانہ’’پریم کی لیلا‘‘سے)
حقیقت پسندی اوردیہات نگاری منشی پریم چندکے یہاں بھی ہےاوراعظم کریوی کے یہاں بھی، لیکن دونوں میں واضح فرق یہ ہے کہ جس حقیقت پسندی کومنشی پریم چندنے فروغ دیاہے اُس میں اعظم کریوی نے رقت پسندی کا زاویہ شامل کردیاہے، نیز منشی پریم چند کے کردار قوت عمل سے متحرک نظر آتے ہیں جب کہ اعظم کریوی کے کردارقسمت پرصابروشاکر ہیں۔ اگر رومان پسندی کی بات کی جائے تواس سلسلے میں اعظم کریوی، منشی پریم چند سےفائق نظرآتے ہیں۔ رومان پسندی کی یہ مثالیں ملاحظہ ہو:
’’ تحصیلی کے پاس ہی ایک باغیچہ تھا۔ قریباً چار بجے سہ پہر کا وقت ہوگا، میں مالی کی جھونپڑی میں چپ چاپ بیٹھا قدرت کی گلکاری کا نظارہ کررہا تھا کہ پیچھے سے کنول پکوان کی تھالی لے کر آگئی…میں نے مڑکر دیکھا، جس طرح تالاب میں کنول کالہرانا بہت خوب صورت معلوم ہوتا ہےاسی طرح میری کنول کی خوب صورتی ہنسی کی لہروں میں جگمگارہی تھی۔ اس دن سے پہلے میں نے کبھی اظہارمحبت نہ کیا تھا، مجھے کبھی اس کی جرأت نہ ہوئی تھی لیکن آج میں نے اپنے دل پر قابو نہ رکھ سکا، میں نے صبح کو کنول کے نوشگفتہ پھول توڑے تھے۔ وہ لاکھ’’ہاں !ہاں !‘‘کرتی رہی مگر میں نے آگے بڑھ کر یہ پھول اُس کے جوڑے میں لگادیےاورجس طرح ایک پجاری، مورتی کے سامنے ڈنڈوت کرتا ہےمیں نے بھی ہاتھ جوڑ کر کہا:’’دیوی جی! پرنام‘‘
پہلے تو اُس نےتیوری چڑھائی، پھر یکبارگی اُس کے چہرے پر متانت آگئی۔ اس نے زبان سے تو ایک لفظ بھی نہ کہالیکن نیچی نگاہوں اورحیاسے سرخ رخساروں نے میرے دل پر ایسا اثر کیاکہ میں نے آگے بڑھ کر اُس کی بلائیں لے لیں۔ وہ بھی بے خودی کے عالم میں میرا ہاتھ تھام کر بیٹھ گئی۔ دونوں کے منھ سے ایک بات نہ نکلی۔ مولسری کی شاخوں کےکان میں ہوا کے جھونکوں نے سرگوشیاں کیں شام تک بیٹھےہم وہی سنتے رہے، پکوان کھانے کا کسی کو ہوش ہی نہ رہا۔ ‘‘
(افسانہ’’کنول‘‘سے)
یوں دیہات کی عام زندگی اوراُس کی تمام ترخصوصیات کو اعظم کریوی بڑی مہارت کے ساتھ پیش کرتے ہیں، اوروہ بے لاگ اور غیرشخصی خارجیت جوپریم چند کا خاص فن ہے اعظم کریوی میں بھی کافی پائی جاتی ہے۔
اعظم کریوی ہمیشہ گنگاجمنی اورمشترکہ تہذیب کے امین وپاسدار رہے ہیں اورہندوستان کی عوامی زبان کا محافظ و نگراں بھی۔ وہ گنگا جمنی تہذیب جو ہندوستان کی شناخت رہی ہے اُس کو اپنے افسانوں میں پیش کرکے اوروہ مشترکہ زبان جس کے اندر ہندوستانی مٹی کی خوشبو بسی ہوئی ہےاُسےاپنےافسانوی کرداروں میں میں حلول کر کےاُس کوزندہ وجاوید بنادیا ہے۔
اعظم کریوی بھی پریم چندکی طرح حقیقت پسند افسانہ نگارتھے، لیکن انھوں نے اس حقیقت پسندی میں رقت پسندی کا زاویہ شامل کرکے خود کو اُن سے الگ تھلگ کرلیا ہے۔ افسانوی تعمیرو تشکیل کے لحاظ بھی اعظم کریوی کھرے اُترتے ہیں۔ اس تعلق سے ’’پریم کی لیلااور’’بڑے بول کا سرنیچا‘‘قابل تعریف ہے۔
منشی پریم چند اوراُن کے تمام مقلدین نے دیہی علاقوں، وہاں کی فضااور ماحول اور کرداروں کواپنے افسانوں میں پیش کیاہے لیکن اس پیش کش کے سلسلے میں اعظم کریوی کا انداز خصوصیت کے ساتھ بڑاہی پُرتاثیر اورپُرلطف ہے۔ بقول وقارعظیم:
’’پریم چند نے ساری زندگی دیہات کی زندگی پر افسانے لکھے، پھر بھی دیہات کی رنگین زندگی کی ساری باتیں نہ کہہ سکے۔ اس کمی کو علی عباس حسینی اوراعظم کریوی نے پوراکرنے کی کوشش کی…اعظم کریوی کے افسانوں میں دکھ بھری زندگی کے رومانوں کی کہانی ہے جو اس کے ذرے ذرے میں بکھرے پڑے ہیں۔ ‘‘
(نیاافسانہ، ص:19تا20، ناشر: ایجوکیشنل بک ہاؤس علی گڑھ، 1977)
زبان و بیان بھی افسانہ نگاری کا اہم جزوہےاور اُس کے لیے یہ ضروری امرہے کہ وہ بالکل فطری ہو، ایک ایک لفظ سے حقیقت و اصلیت کی بو آتی ہو، تاکہ کوئی اُسے عام انسانی زندگی سے دوراور غیرممکن نہ سمجھے۔ اس لحاظ بھی اعظم کریوی اپنی منفردشناخت رکھتے ہیں۔
اس تعلق سےپروفیسروقارعظیم لکھتے ہیں :
’’ڈاکٹر اعظم کریوی کے افسانوں کی جان ان کی زبان ہے۔ اردو کو اس وقت جس خدمت کی ضرورت ہے وہ افسانہ نگاروں میں اعظم کریوی سے زیادہ کوئی اورانجام نہیں دیتا۔ پریم چند، سدرشن اور حسینی سب دیہات کی زندگی کے نقشے کھینچتے ہیں۔ ہندوستان والوں کی گفتگوئیں اورمکالمے دکھاتے ہیں لیکن زبان کسی کے یہاں اتنی فطری نہیں جتنی اعظم کریوی کے افسانوں میں ہے۔
وہ فارسی اورہندی کے صرف ایسے الفاظ ایک جگہ استعمال کرتے ہیں جواَنمل، بے جوڑ نہ معلوم ہوں۔ ہندی اور فارسی لفظوں کاانتخاب اوران کا استعمال اس قدر موزوں ہوتا ہے کہ کسی طرح اُنھیں ایک دوسرے سے الگ معلوم نہیں کیاجاسکتا۔ اس لحاظ سے ان کے افسانے سارے افسانوں پرسبقت لے گئے ہیں۔ ‘‘
(ہمارے افسانے اورہمارے افسانہ نگار، ص:138، اسرارکریمی پریس، الہ آباد، 1935ء)
ان باتوں کے علاوہ اعظم کریوی اپنے افسانوں میں موجودہ سماج ومعاشرے کی ابتری اورکسمپرسی بڑی دردمندی کے ساتھ پیش کرتے ہیں جس کی وجہ سے غریبوں کی سسکتی زندگی، بے جوڑ شادیاں، بیوہ کی درگت، سیاسی افراتفری، استحصال وجذبات سے کھیلواڑ، اونچ نیچ اورخودساختہ سماجی قوانین کی تباہ کاریاں واضح طورپر نگاہوں میں رچ بس جاتی ہے۔
اعظم کریوی کے افسانوں میں بہت سے افسانے ایسے ہیں جو کسی نہ کسی زبان سے ماخوذ، ترجمہ یا متأثر ضرور ہیں۔ مثال کے طورپر مجموعہ ’’ہندوستانی افسانے‘‘میں ’’ملاح کی لڑکی، پریتما، مصور، بڑاآدمی‘‘یہ چاروں افسانے ماخوذہیں، جب کہ ’’مرلا‘‘نامی افسانہ ترجمہ ہے۔
اسی طرح ’’ دھوپ چھاؤں، وکیل کاکارنامہ، بابو، سنگ دل، کایاپلٹ، کرنی کا پھل، ناگن، چمپاکی گڑیاوغیرہ ایسے افسانے ہیں جو مختلف زبانوں سے ترجمہ کیے گئے ہیں۔ اس طرح کے اور بھی بہت سے مترجَم افسانے ہیں جو اعظم کریوی کے مختلف زبانوں پر عبورو دسترس کی غمازی کرتے ہیں۔

تبصرے بند ہیں۔