ہے اُس کے دستِ ناز میں تیر و کمان پھر

ڈاکٹر احمد علی برقیؔ اعظمی

ہے اُس کے دستِ ناز میں تیر و کمان پھر

آشوبِ روزگار میں ہے میری جان پھر

۔

ہے آج میرا نذرِ حوادث مکان پھر

سر پر نہیں ہے میرے کوئی سائبان پھر

۔

حالات سے ہے مشرقِ وسطٰی کے آشکار

صیہونیت کی زد میں ہے امن و امان پھر

۔

اُ س کے لئے وسیلٔہ مشقِ ستم ہوں میں

لیتا ہے میرے صبر کا وہ امتحان پھر

۔

آنکھوں میں مِثلِ خار کھٹکتا ہوں اُس کی میں

دامن پہ خوں کا میرے ہے اُس کے نشان پھر

۔

بُغض و عناد، ظلم و ستم اُس کا ہے شعار

مانندِ تیغ چلتی ہے اُس کی زبان پھر

۔

ازروئے مصلحت میں ہوں خاموش اس لئے

سر پر کہیں اُٹھا نہ لے وہ آسمان پھر

۔

وہ پھر کرے گا ریشہ دوانی مرے خلاف

اِس بات کا مجھے نہ تھا وہم و گمان پھر

۔

تیار کررہا ہے مری فردِ جُرم وہ

گمراہ کن وہ دیتا ہے برقیؔ بیان پھر

1 تبصرہ
  1. راشد عالم راشد کہتے ہیں

    بہت عمدہ غزل ماشاء اللہ
    آرزوۓ مصلحت میں ہوں خاموش اس لئے
    سر پہ اٹھا نہ لے وہ کہیں آسمان پھر

تبصرے بند ہیں۔