یوم اساتذہ

قمر فلاحی

دین اسلام میں استاد کا بڑا مقام و مرتبہ ہے کیوں کہ سیدنا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے بڑا مقام استاد کو عطا کیا ہے، آپ صلی اللہ نے فرمایا "خیرکم من تعلم القرآن و علمہ "، تم میں بہتر وہ ہے جو قرآن سیکھے اور قرآن سکھائے، اس حدیث کے مطابق طلبہ اور اساتذہ دونوں ہی کائنات کی بہترین جماعت میں سے ہیں۔ مگر یہاں یہ بات جان لینے کی ہے کہ یہ منصب قرآن سے متعلق علوم کے اساتذہ و طلب کو حاصل ہے، اور ظاہر ہے کہ قرآن مجید میں دنیا کے سارے علوم ہیں لہذا سارے علوم کے حاصل کرنے والے اس اعتبار سے اس منصب کے اہل ہوئے بشرطیکہ ان کے علوم انسانیت کی حق میں سود مند ہوں۔

بزگوں کے اقوال میں استاد کو ” روحانی باپ ” کہا گیا ہے اس قول میں ایک ذمہ داری چھپی ہوئ ہے کہ جس طرح والدین کا کام بچوں کو آگے بڑھانا ہوتا ہے اساتذہ کا بھی یہی کام ہونا چاہیے۔

ہندوستان میں 5/ستمبر کو یوم اساتذہ کے طور پہ منایا جاتا ہے، اسے منانے میں کسی طرح کی شرعی قباحت نہیں ہے، بلکہ اسے بہت ہی اہتمام سے منانے کی ضرورت ہے تاکہ طلبہ اور اساتذہ اپنی ذمہ داریوں کا سبق تازہ کریں۔

یوم اساتذہ کی تاریخ

ڈاکٹر سروپلی رادھاکرشننDr.Sarvepalli Radhakrishnan  بچوں سے بہت قریب رہا کرتے تھے،ایک دن طلبہ نے یہ درخواست کی کہ وہ انہیں اجازت دیں کہ وے انکی یوم ولادت Birthday منائیں انہوں نے کہاکہ انہیں فخر ہوگا اگر بچے ان کی پیدائش کے دن کو اساتذہ کی تعظیم کے طور پہ منائیں اسی دن سے ہندوستان میں  5/ ستمبر یوم اساتذہ کے طور پہ منایا جانے لگا۔ عالمی یوم اساتذہ 5 / اکتوبر کو منایا جاتاہے جو 1994 سے جاری ہے۔ UNESCOنے اس رسم کی ایجاد کی۔ اس کے علاوہ بہت سارے ممالک ہیں جو مختلف تاریخوں میں یوم اساتذہ منایا کرتے ہیں۔

یہاں مسلم اداروں کے لئے ایک مشورہ ہے کہ وہ یوم اساتذہ کو کسی نبوی تاریخ سے جوڑ لیں تو زیادہ بہتر ہے کیوں کہ ہماری نظرمیں معلم الکتاب سیدنا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی معلم انسانیت بھی ہیں اس اعتبار سے ابتداء وحی کا دن یا اور کوئ دن جو مناسب لگے اس دن کو یوم اساتذہ کے طور پہ منانا مناسب رہے گا۔

سال رواں کے پہلے دن کو بھی یوم اساتذہ کے طور پہ منایا جاسکتاہے۔

شرعی ممانعت

بعض کم فہم اور تنگ نظر علماء اسے بدعت کی نظر سے دیکھتے ہیں، یہ ان کی کم علمی یا دین کے اصولوں سے لاعلمی کی وجہ سے ہے۔ بدعت کی ایک جامع اور عام فہم تعریف ہے اگر اسے مان لیا جائے تو اس قضیہ کو سمجھنے میں آسانی ہوگی۔

بدعت کہتے ہیں ” ہر وہ عمل جو ثواب کی نیت سے کیا جائے اور اس کی اصل دین میں نہ ہوتو وہ عمل بدعت کہلاتا ہے ” اس اعتبار سے اگر دیکھا جائے تو کوئ بھی شخص اس دن کو ثواب کی نیت سے نہیں مناتاہے لہذا اس کے بدعت ہونے کا سوال ہی نہیں ہوتا۔

یوم اساتذہ کے اہتمام کا طریقہ 

غیرمناسب طریقہ:

یوم اساتذہ اکثر کانونٹ اداروں میں منایا جاتا ہے، اور اسی نام پہ بچوں کا استحصال  exploitationبھی ہوتاہے، بچوں کو ابھارا جاتاہے وہ اپنے اساتذہ کو مہنگی مہنگی گفٹ دیں، یا بچے ایک دوسرے کو دیکھ کر ایسا کرتے ہیں اس میں کم صلاحیت والے گارجین کی پریشانی بڑھ جاتی ہے اور اساتذہ کے پاس اتنے گفٹ جمع ہوجاتے ہیں کہ پھر وہ بچوں کے خلوص کے بجائے مہنگے اور سستے گفٹ کا مشاہدہ کرنے لگتے ہیں اور اس طرح فطری طورپہ وہ بچے نظروں سے اتر جاتے ہیں جن کے گفٹ کم قیمت ہوں، اور دوسری طرف جن بچوں نے گفٹ نہیں تیار کیا ہوتاہے وہ بچے اس دن کیلئے اپنی نظروں میں مجرم ہوتے ہیں۔

جو بچے اپنے اساتذہ کو قیمتی گفٹ دیتے ہیں وہ محض قیمتی گفٹ کی وجہ اپنے اساتذہ کی نظر میں مقبول ہوجاتے ہیں اور فطری طور پہ اساتذہ انکی رعایت کرتے ہیں جو کہ دوسرے بچوں پہ ظلم ہوجاتا ہے اور بذات خود اس بچے کیلئے بھی نقصان دہ ہوتا ہے۔

اہتمام کا یہ طریقہ کسی بھی اعتبار سے درست نہیں ہے۔

اہتمام کا مناسب طریقہ :

چونکہ یہ دن یوم اساتذہ کے طور پہ منایا جاتاہے لہذا اس دن اساتذہ کو مکمل گھنٹی لینی چاہیے اور چھٹی کے بعد ایک پروگرام کا انعقاد کیا جانا چاہیئے جس میں طلبہ اور اساتذہ کے فرائض اور حقوق پہ تفصیلی گفتگو ہو۔اس میں جانبین کے فرائض اور حقوق پہ معتدل گفتگو ہونی چاہیے۔ اور فرائض و حقوق کے علاوہ آداب پہ بھی گفتگوں ہونی چاہیے جسے مباحات کے طور پہ بیان کیا جانا چاہیے جسمیں کے ذریعہ اساتذہ کی خدمت پہ زور دیا جانا چاہیے۔

یوم اساتذہ عہد و پیمان کا دن ہے اسے تازہ کرنا ضروری ہے اور اسے نبھانا بھی ضروری ہے، اور بغیر تذکیر کے اسے نبھایا نہیں جاسکتا اور اگر تذکیر کیلئے ایک دن متعین کیا جائے تویہ نعم البدعۃ کے زمرے میں داخل ہوگا۔

اس دن اساتذہ اور طلبہ کو اپنی حصولیابی کا جائزہ لینا چاہیے کہ ہم نے عام اساتذہ اور طلبہ کے مقابلہ میں  کیا کچھ نیا حاصل کیا ہے، کوئ نئ تحقیق، تدریس کا کوئ سہل طریقہ، نصاب میں کوئی نقص وغیرہ۔ یا ہم رویتی بنے رہے ؟

ھدیہ و تحفہ اسلامی روایات میں سے ہے، صحابہ کرام سیدنا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی تحقفہ دیا کرتے تھے، ایک مشہور حدیث ہے کہ ایک صحابی رض نے یمنی چادر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پیش کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے قبول فرمایا اور اسی وقت ایک صحابی رض نے اسے آپ ص سے مانگ لیا تو آپ نے اسے عطا فرما دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس حدیث سے تحفہ لینے اور دینے کی سنت کا پتہ چلتا ہے۔

اساتذہ جس مقام پہ فائز ہیں اور بچوں کو سنوارنے میں جتنی کم محنتانہ پہ اپنا قیمتی وقت لگاتے ہیں ان خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے اگر اساتذہ کو کچھ تحفے بچوں کے ہاتھ بھجوایا جائے تو یہ مناسب بھی ہے اور اخلاقیات سے پُر بھی۔

اہتمام کا احسن طریقہ

انتظامیہ کو چاہیے کہ باہمی تعاون کیلئے کسی جگہ پہ باکس رکھ دے اور بچوں کو ابھارا جائے کہ یوم اساتذہ کی تقریب کیلئے جن سے جو بن پڑے تعاون کریں اس طرح کسی بھی طالب علم کو دوسرے کسی طالب علم کے معیار کا پتہ نہیں چل سکے گا اور ایک بڑی رقم جمع ہوجائیگی، اب ان رقومات میں مینجمنٹ اپنا حصہ بھی شامل کردے اور اجتماعی طور پہ تمام اساتذہ کیلئے تعلیمی گفٹ جیسے ڈکشنری،ڈائری، پن وغیرہ تیار کرکے بچوں کے سامنے اساتذہ کو عنایت کردے۔

اور اسی دن یوم طلبہ بھی منا لیا جائے student of the year کا اعلان ہو، ان کی خصوصیات گنوائ جائے اور انہیں انعامات سے نوازا جائے یہ ایک جدت ہوگی اور اس میں اعتدال بھی آجائے گا۔

تبصرے بند ہیں۔