یہی دل رفتگی، دل کی لگی ہے

افتخار راغبؔ

یہی دل رفتگی، دل کی لگی ہے

بلا کا لطف بھی ہے درد بھی ہے

تو کیا اے دل محبت کے لغت میں

نہیں اور ہاں کا مطلب ایک ہی ہے

فلک پر قلب کے اک بدرِ بے داغ

دیارِ فکر میں تابندگی ہے

عیاں پیکر بہ پیکر عکس بر عکس

محبت روشنی ہی روشنی ہے

 کہو جو کہہ رہا ہے دل تمھارا

سنو کیا دل کی دھڑکن کہہ رہی ہے

تری خاموش آنکھیں بولتی ہیں

ترے بے باک لب پر خامشی ہے

دریدہ جسم ہے اب آدمیت

پریشاں آدمی سے آدمی ہے

ہَوا ہے وہ، کہاں کچھ اُس کو پروا

ہَوا سے میری کیا وابستگی ہے

مری آنکھیں چمکتی ہی رہیں گی

حسیں لب پر ترے جب تک ہنسی ہے

نہیں ہے دشمنی میری کسی سے

کہو کس سے تمھاری دوستی ہے

کہاں جاؤں میں پیاسا ہنس راغبؔ

وہ ہے تالاب، میری زندگی ہے

تبصرے بند ہیں۔