یہ اہل جنوں بتلائیں گے، کیا ہم نے دیا ہے عالم کو

رمیض احمد تقی

    ہندوستان کی جمہوری سیاست جن اصولوں پر استوار ہے، اس میں اقلیتوں اور اکثریتوں کے کیا حقوق ہیں اور کہاں تک ان کی بجا آوری ممکن ہوتی ہے، یا پھر اکثریت کے شور وغوغا میں اقلیتوں کی آواز دب کر رہ جاتی ہے، یہ ہماری جمہوری سیاست میں ایک عام سی بات ہے۔خاص کر جب سے بی جے پی کا سینٹر پر غلبہ و قبضہ ہوا ہے، آئے دن یہاں کے مسلمانوں، دلتوں اور دوسری اقلیتی برادریوں کے جذبات و احساسات کے ساتھ کھیلواڑ کیا جاتا ہے۔ان کوجسمانی وروحانی طور پر تکالیف پہنچائی جاتی ہیں ؛بلکہ ملک میں جب بھی عام انتخابات کا بگل بجتا ہے، تو ہمارے یہ سیاست داں ایسی اوچھی حرکتیں ضرورکرتے ہیں، جن سے اقلیتوں کے جذبات مجروح ہوں، اور بی جے پی انہی بنیادوں پر انتخابات لڑتی آئی ہے اور اس کی ہمیشہ یہ کوشش رہتی ہے کہ انتخابات سے قبل مسلمانوں، دلتوں اور عیسائیوں کے خلاف کوئی بیان جاری کرکے ہندوؤں کا ووٹ متحد کیا جائے، ورنہ تو درحقیقت بی جے پی اور اس کے فکری سرپرست آر ایس ایس کی نہ تو آزادی سے قبل اور نہ آزادی کے بعد ملک و ملت کے فلاح و بہبود میں کبھی کوئی دلچسپی رہی ہے۔ ان کا "پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو” والا ایجنڈا  بالکل واضح ہے؛اسی لیےاس بھگت آفرینندہ حکومت، بلکہ اس پارٹی میں ہر کسی کو یہ لگتا ہے کہ اگر وہ اپنے قول وعمل سے اس ملک کے عام اقلیتی طبقات کے جذبات کو مجروح کرتا ہے، تو وہ اس بھگتی پوجن پارٹی میں اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوسکتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک کا وزیر اعظم اور ملک کی سب سے بڑی ریاست اتر پردیش کا وزیر اعلیٰ دونوں کی اس سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں کہ وہ اپنی سیاست کو مسلمانوں اور دلتوں کے جسمانی و روحانی خون سے رنگین کیا ہے، اور آج ان کو ان کا احسان ماننا چاہیے کہ وہ ان کے خلاف دشنام طرازیاں کرکے ہی اس مقام تک پہنچے ہیں، ورنہ تو اس جہان رنگ وبو میں وہ اپنی کسی شناخت کے بغیر کب کے پرلوک سدھار چکے ہوتے۔

اِس پارٹی میں ان کے علاوہ اور بھی زہریلی زبان رکھتے ہیں، جن کی ہفوات و ژاژخائیوں پر مشتمل نفرت آمیز بیانات آئے دن آزاد ہندوستان میں سننے کو ملتے ہیں۔ یہ ہماری منحوس سیاست کی مجبوری کہیے یا پھر اس کی منافقت، کہ اس کے روزِاول ہی سے اکثریت کا اعتماد پانے کے لیے ہمارے فریبی سیاست دانوں نے ہمیشہ اقلیتوں کے جذبات کو مجروح کیا ہے۔ خاص کر بی جے پی، جس کے وجود ہی میں کڑواہٹ ہے، ہمیشہ اپنی کڑواہٹوں اور بدمعاشیوں سے ملک کی اقلیتوں کو پریشان کیا ہے۔

گری راج سنگھ اُسی فتنہ گر اور کرشمہ ساز پارٹی بی جے پی کا رکن، مرکزی وزیر مملکت اور مودی کا قریبی دوست ہے۔ اس کاشماران ہی بد طنیت، ضمیر فروش اور بدقماش سیاسی لوگوں میں ہوتا ہے، جس کا ماننا ہے کہ مسلمانوں کو گالی دے کر اور اسلامی تاریخی مقامات کے خلاف بیان بازی کر کے وہ اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوسکتا ہے، اس لیے وہ اپنے روز ِسیاست ہی سے مسلمانوں کے خلاف اپنی زبان گندی کرنے میں پیش پیش رہا ہے۔ دیوبند کے اپنے حالیہ بیان میں اس نے اس تحریکی سرزمین پر امن و امان کے خوبصورت تاج محل دارالعلوم دیوبند کو تشدد و دہشت گردی کا ٹھکانہ بتایا اور اپنے فکری و نظریاتی آقاؤں کی راہ پر چلتے ہوئے ملک کو غلامی سے رستگاری دلانے والی عظیم درس گاہ اور اس کے طالب علموں کو دہشت پسند گردانا۔ گری راج سنگھ کے بارے میں کچھ لکھنا اور بولنا، میرا ماننا ہے کہ اس کی بدبودار شخصیت اوراس کی گندی فکر کو فروغ دینا ہے؛ اس لیے کہ اس کی جہالت و بدمعاشی اوراس کی تاریخ کم فہمی جگ ظاہر ہے؛کیوں کہ جب اسے دیوبند کی تاریخ، تحریک ِ آزادی ِہند میں اس کے سپوتوں کے کارنامے اور خدمات کا علم ہی نہیں، تو اس کی نادانی پر کیا تبصرہ کرنا۔ بہت ممکن ہے کہ گری راج اور وکاس تیاری جیسے گندی سیاسی فکر رکھنے والے سیاست دانوں کو دارالعلوم دیوبند کی خدمات اور جنگِ آزادی میں اس کی قربانیوں کا علم نہ ہو، یا وہ اس سے تغافل برتنے کی کوشش کررہے ہوں، تو ان کی معلومات کے لیے یہ عرض کرتا چلوں کہ 1956 کی دہائیوں میں مرکزی حکومت کی جانب سے شائع کردہ ایک کتابچہ جس کا عنوان تھا’’ ہندوستان میں مسلمانوں کے تعلیمی ادارے‘‘ اس میں دارالعلوم دیوبند کا تعارف ان الفاظ میں کرایاگیا ہے: ’’ہندوستان میں ایک ایسی یونیورسٹی بھی ہےجو اپنی خصوصیات کی وجہ سے بے مثال اور منفرد ہے۔ دہلی سے کوئی سو میل کے فاصلے پر دیوبند کے خوبصورت شہر میں اسلامی تعلیم کی یہ ممتاز درس گاہ واقع ہے۔ یہ ادارہ عباسیوں کے عہد کے بغداد کی پُرانی یونیورسٹی کی یاد دلاتا ہے، کیوں کہ یہ طرزِ تعمیر کے لحاظ سے لے کر معمولات تک میں اُسی کی طرح پر ہے۔اس کا شمار دنیا کے مشہور اسلامی اداروں میں ہوتا ہے۔ابتدا میں یہ ادارہ ایک چھوٹے سے مکتب کی حیثیت سے شروع ہوا تھا، پھر آگے چل کر مولانا محمود الحسن، جو بعد میں شیخ الھند کے نام سے مشہور ہوکر بڑے مرتبہ کو پہنچے، کی کوششوں سے آگے بڑھا۔وہ بڑے باہمت اور غیر ملکی حکومت کے کٹر دشمن تھے۔انھوں نے انڈین نیشنل کانگریس کی حمایت کی، جس کے سبب انھیں زندگی کا بقیہ حصہ جیل اور جلا وطنی میں گذارنا پڑا۔‘‘ (تاریخ دارالعلوم دیوبند، جلد اول صفحہ 390)

نیزاس کی عظمت ِشان کا اندازہ وزارتِ خارجہ ہند اور آل انڈیا ریڈیو اسٹیشن کی اس رپورٹ سے بھی ہوتا ہے کہ جب ان کو اپنی نشریات کے سلسلے میں دارالعلوم کی تاریخ اوراُس وقت کے ملکی حالات کا بیرونی دنیا اور بالخصوص مشرقِ وسطیٰ کے ممالک میں تعارف پیش کرنے کا خیال آیا، تو بالترتیب دونوں اداروں کے اہم اہم ذمہ داروں نے دارالعلوم دیوبند کی زیارت کی، پھر اپنی مطلوبہ معلومات حاصل کرنے کے بعد اپنے اپنے پلیٹ فارم سے دارالعلوم کا عالمی تعارفی خاکہ نشر کیا، حتی کہ آل انڈیا ریڈیو اسٹیشن کے ڈپٹی ڈائریکٹربرائے مشرقِ وسطی ایم اے این نے جاتے جاتے دارالعلوم دیوبند کو اپنے ان الفاظ میں خراجِ عقیدت پیش کیا:” یہاں پر سادہ زندگی اور بلند عزائم کی روح اپنے حقیقی معنی میں ملتی ہے۔‘‘

 23 ربیع الثانی 1396 ھ میں صدرجمہوریۂ ہند جناب فخرالدین علی احمد صاحب کا دورۂ دیوبند ہوا۔ اس وقت ان کے قافلے میں اترپردیش کے وزیر اعلیٰ کے علاوہ چند مرکزی اور صوبائی وزرا اور دیگر سرکاری اعلیٰ حکام بھی شامل تھے۔ دارالعلوم دیوبند نے صدر محترم کے اعزاز میں ایک استقبالیہ پروگرام منعقد کیا، جس میں مولانا حامد الانصاری غازی رکن مجلس شوریٰ دارالعلوم دیوبند نے صدرِ محترم کا خیر مقدم کرتے ہوئے اپنی استقبالیہ تقریر میں کہا: ’’یہ دارالعلوم عالموں، فاضلوں، عارفوں اور جنگ آزادی کے سورما سپاہیوں کا مرکز ہے۔ یہ 1857 کے شہیدوں، ریشمی خطوط کی تحریک کے جان بازوں کی سرزمین ہے۔یہ ادارہ جنگ آزادی کا قلعہ ہے۔مجاہدین آزادی کا تاریخی مرکز اور علوم و فنون کا سب سے بڑا ایشیائی ادارہ ہے۔” پھر انھوں نے دارالعلوم کی تاریخ، جنگ آزادی میں اس کی ملی و سیاسی خدمات پر ایک تاریخی خطبہ دیا۔ اس تقریب کے اختتام پر صدرِ محترم نے بھی اپنے صدارتی خطاب میں اکابرِ دارالعلوم کو ان کی علمی اور سیاسی خدمات پر خراج تحسین پیش کیا اور کہا:’’ یہ وہ عظیم رہنما تھے جنہوں نے اپنے امتیازی کردار کے ساتھ جنگ آزادی کے ہر مرحلے میں سوسال تک ملک اور قوم کی خدمت انجام دی ہے۔انھوں نے اپنی عظیم خدمات کا کوئی حق طلب نہیں کیا، بلکہ محض اپنا فرض سمجھ کر مسلمانوں کے تاریخی وقار میں اضافہ کیا ہے۔‘‘ (تاریخ دارالعلوم دیوبند)
صدر جمہوریہ ہند کے اس دورہ دیوبند سے تین سال قبل تقریباً 1393 ھ کے اواخر میں میں اترپردیش کے گورنر جناب اکبر علی خان صاحب کا بھی دارالعلوم دیوبند جانا ہوا تھا۔ موصوف محترم نے بھی اس گلستان ِشہدائے آزادی اور اکابر ِدارالعلوم دیوبند کی قربانیوں اور ان کی عظمت ِ شان کا قصیدہ پڑھا، اور ان کی خدمات و کارنامے کو ان الفاظ میں یاد کیا: ” یہ اکابر دارالعلوم دیوبند ہی تھے، جنھوں نے کروڑوں انسانوں کے دلوں میں آزادی کی تڑپ اور جنگِ آزادی میں حصہ لینے کے لیے زبردست جذبات پیدا کیے۔ ہندو مسلم اتفاق، انسانیت کی اعلیٰ قدروں کی حفاظت اور رحمۃ للعالمین ﷺ کے اسوۂ حسنہ اور تعلیمات مقدسہ کی ترویج واشاعت کی، اوریہاں ایک ایسا چراغ روشن کیاجس سے پورے ملک کا گوشہ گوشہ منور ہوگیا۔علم ود انش کا یہ گہوارا اسلامی تعلیمات کا بین الاقوامی مرکز، جنگ آزادی کا مضبوط قلعہ، یک جہتی کا مرکز اور ہندوستان جیسے ملک کی عظمتوں کا امین ہے۔” (تاریخ دارالعلوم دیوبند، جلد اول، صفحہ 18)

 جماد الاولیٰ 1381 میں مرکزی حکومت کے وزیر ثقافت و سائنسی تحقیقات پروفیسر ہمایوں کبیر اور 23 مارچ 1965 کواتر پردیش کے گورنرجناب وشواناتھ داس صاحب، نیز مختلف تاریخ و مناسبت سے ملک اور بیرون ملک کی اہم اور با اثر شخصیات نےبھی موقع بہ موقع دارالعلوم دیوبند کی زیارت کی، اس کی قربانیوں کو یاد کیا، اس کی قابل قدر ملی و سماجی اور تعلیمی خدمات کو سراہا اور اس کے اکابر کی عظمتوں کے نام کا ترانہ گایا۔

درحقیقت دارالعلوم نے دیوبند کی جس سرزمین پر علم و حکمت کا چشمہ جاری کیا تھا، اس نے کسی ایک گاؤں، کسی ایک مکتبہ فکر و مذہب کو سیراب و آباد نہیں کیا، بلکہ اس کے انواروبرکات سے پوری دینا یکساں مستفید ہوئی۔ متعدد فکر وجماعت اور ملک کے لوگوں نے یہاں آکراس کےکتب خانے کے علمی ذخائر اور اس کے بے شمار نوادرات و مخطوطات سے فائدہ اٹھایا۔ ہندوستان کے مختلف حصوں سے آنے والوں کے علاوہ یورپ اور امریکہ کے ریسرچ اسکالر بھی اپنے تحقیقی کام کی تکمیل کے لیے کتب خانہ دارالعلوم سے استفادہ کرنا ضروری سمجھا، چنانچہ لندن یونیورسٹی سے پروفیسر ہارڈی، امریکہ سے مسز گیلی گراھم، جرمنی سے مس کیریں ڈیٹ میرا اور کیلی فورنیا سے مسز مٹکاف اپنے تحقیقی مقالات کی تیاری کے سلسلے میں دیوبند آئیں اور کتب خانہ دارالعلوم سے استفادہ کیا۔(تاریخ دارالعلوم دیوبند)

  جہاں تک ملک کی مزید با اثر سیاسی و سماجی شخصیات کا دارالعلوم کے تئیں ان کے احساسات و جذبات کی بات ہے، توبابائے قوم گاندھی جی سے لے کر ملک کے پہلے وزیر اعلیٰ جوال لعل نہرو اور پہلے وزیر تعلیم مولانا ابولکلام آزاد تک سبھوں نے اس کی عظمتِ شان کا کلمہ پڑھا، اور اس کے اکابر کی قابل قدر خدمات و کارنامے کا اپنی آنکھوں میں سرمہ لگایا، مگر صد افسوس کہ آج کچھ ناہنجار، بدبخت، علم سےپیدل، ملک و ملت کی تاریخ سے ناواقف بیوقوفوں کو اس روشن ماہتاب میں کوئی داغ نظرآیا۔ان احمقوں کو اتنا بھی نہیں معلوم کہ جس سرزمین پر تحریک ِ آزادیِ ہند کی کئی فصلیں سرسبزو شاداب ہوئیں، وہ کیسے ان کے خوشے کو جلانے کی ہمت کررہے ہیں۔ دارالعلوم دیوبند کی فصیلوں کو دھکہ دینے والے بیوقوفوں ! تمہاری کیا بساط کہ تم اس کی ایک اینٹ بھی ہلا سکو، جب انگریز بہادروں کی ہمت نہیں ہوئی، تو تم کس کھیت کی مولی ہو، تمہاری نسلیں تباہ و برباد ہوجائیں گی تب بھی تمہارا یہ خواب کبھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہوسکتا۔ اگر تم یہ سمجھتے ہو، کہ دیوبند صرف ان چہار دیواریوں میں گھرا ایک مکان کا نام ہے، تو یہ تمہاری بدترین جہالت ہے، کیونکہ دیوبند صرف ایک جگہ کا نام نہیں ہے، بلکہ دیوبند ایک فکرکا نام ہے، ایک تحریک اور انقلاب کا نام ہے، جو دبائے تو جاسکتے ہیں، ختم نہیں کیے جا سکتے۔

تبصرے بند ہیں۔