بس پھول تھے دامن میں کوئی خار نہیں تھا

سرفراز حسین فراز

 بس پھول تھے دامن میں کوئی خار نہیں تھا

جب دل یہ تیرے عشق میں سر شار نہیں تھا

  مجھ کو تو کبھی پیار سے انکار نہیں تھا

تیری ہی نظر میں کہیں اقرار نہیں تھا

ایک تیرے سوا جانِ جہاں دل یہ ہمارا

 دنیا میں کسی شے کا طلبگار نہیں تھا

 تھے تم ہی خفا مجھ سے،حقیقت ہے یہی بس

 بر ھم میں کبھی تم سے اے سرکار نہیں تھا

دوڑے چلے آتے تھے اشارے پہ مرے تم

ہونٹوں پہ تمہارے کبھی انکار نہیں تھا

دل یوں ہی مرا توڑ کے شاید وہ گئے ہیں

 میں ان کی طرح دوستوں زردار نہیں تھا

 پتھر کبھی آئے نہیں آنگن میں ہمارے

 آنگن میں شجر کوئی، جو پھل دار نہیں تھا

انصاف عدالت میں اسے ملتا ہی کیسے؟

 مقتول کا منصف ہی طرفدار نہیں تھا

تبصرے بند ہیں۔