یہ جہاں آسماں جھکا ہوا ہے
محبوب دلکش اعظمی
یہ جہاں آسماں جھکا ہوا ہے
کیا زمیں میں وہیں گڑا ہوا ہے
…
معجزہ یوں بھی رونما ہوا ہے
پیدا دریا میں راستہ ہوا ہے
…
آرہی ہے کراہ نے کی صدا
کوئی ملبہ تلے دبا ہوا ہے
…
پی رہا ہے وہ پھونک پھونک کے چھاچھ
کیا کرے دودھ کا جلا ہوا ہے
…
اس کو ہر گز مٹا نہیں سکتا
تیری قسمت میں جو لکھا ہوا ہے
…
آرہی ہے مدد مدد کی صدا
کوئی شاید کہیں پھنسا ہوا ہے
…
میں نے سمجھا جسے بھلا دلکش
میرے حق میں وہی برا ہوا ہے
تبصرے بند ہیں۔