یہ سال بھی آخر بیت گیا…!

شیخ فاطمہ بشیر

مہینے پھر وہی ہوں گے

سنا ہے سال بدلے گا

پرندے پھر وہی ہوں گے

شکاری جال بدلے گا

سنا ہے سال بدلے گا

گناہوں کے دلدل میں ڈوبی 31 دسمبر کی تاریک شب، جب ظاہری طور پر ہر سو روشنی بکھری ہیں لیکن باطنی طور پر معصیت کے شکنجے میں جکڑے بوڑھے، بچّے، مرد و خواتین، نوجوان لڑکے لڑکیاں۔ ایسی سیاہ رات جس میں شاید ہی کوئی گناہ بچتا ہو، جو نہ کیا جاتا ہو۔ فحاشی کے اڈے، شراب کے جام، رقص و سرور کی محفلیں، بےحیائی و بے شرمی، عزتوں کی پامالی، وقت کی بربادی، بے مقصد سڑکوں پر موٹر سائیکل بھگاتے آوارہ پھرتے نوجوان، اپنے آپ کو یکسر فراموش کیے نئے سال کا جشن مناتے افراد۔ اور اِن ہی کے نقشِ قدم پر چلتے اُمتِ مسلمہ کے نوجوانان، جو اپنی تہذیب بھول کر مکمل طور پر غیروں کے اطوار اختیار کر چکے ہیں۔ اِس بات سے بےخبر کہ نئے سال کا طلوعِ آفتاب کیا سوغات لے آئے؟ کن خوشیوں کی نوید دے جائے؟ یا کہیں ہماری زندگی کا آخری سورج نہ ثابت ہو۔ ماضی پر نگاہ دوڑائے تو ایسے کئی لوگ نظر آئیں گے جنہوں نے اسی طرح دھینگا مستی سے سال 2018 کا آغاز کیا تھا لیکن آج اُن کی جگہیں خالی ہوچکی ہیں اور وہ اس دنیا میں موجود نہیں۔ کئی ایسے لوگ ہیں جو جشن کے دوران ہی حادثات کا شکار ہوگئے۔ اِس حقیقت کو فراموش کرنا حماقت ہے کہ موت برحق ہے اور زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں۔ اسی بات کی عکاسی شاعر کچھ یوں کرتا ہے؎

گلشن میں یہ پھولوں کا تبسم کب تک

بلبل کے یہ نغمے، یہ ترنم کب تک

دو روزہ ہے یہ جشنِ بہاراں اے دوست

  یہ کون بتائیے کہ ہیں ہم تم کب تک

لقد كان لكم في رسول اللّه أسوة حسنة (سورۃ الاحزاب : 21)

(درحقیقت تمہارے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ مبارکہ میں نہایت بہترین نمونہ ہے۔)

جہاں دینِ اسلام ایک نظامِ حیات ہے وہیں رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ اُس پر عمل کا نام ہے۔ تاریخ کے اوراق پلٹے اور 1400 سال قبل کا منظر نگاہوں میں تازہ کریں تو نظر آتا ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنے محبوب ترین مقام اور جائے پیدائش مکہ مکرمہ کو چھوڑ کر، تپتے صحرا کا طویل سفر طے کیے، مدینہ کے سرسبز و شاداب اور ٹھنڈے مقام پر پہنچتے ہیں، جہاں پہلی اسلامی ریاست "مدینہ” کا باقاعدہ قیام عمل میں آتا ہے۔ نیا اسلامی معاشرہ تشکیل دیا جاتا ہے، یوں ہجری سال کا آغاز ہوتا ہے۔ اِس ہجرت کے بعد تقریباً 10 مرتبہ یہ دن رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں آتا ہے لیکن کبھی نئے ہجری سال کی خوشیاں نہیں منائی جاتی اور نہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی سیرت سے اس کا کوئی تذکرہ ملتا ہے۔

مفہومِ حدیث ہے: "جو شخص کسی اور اُمّت کے ساتھ مشابہت اختیار کرے وہ ہم میں سے نہیں۔” (سنن ترمذی) دوسری جگہ فرمایا:

من تشبہ بقوم فهو منهم۔ (سنن ابوداؤد)۔

 "جو شخص جس قوم کی مشابہت اختیار کرتا ہے وہ اُنہی میں سے ہے۔”

لغوی اعتبار سے التشبہ، مشابہت سے ماخوذ ہے یعنی مماثلت، نقل، تقلید، پیروی وغیرہ جس سے مراد وہ چیزیں جو آپس میں ملتی جلتی ہوں۔ کفار کے عقائد و عبادات، احکام و عادات، طور و اطوار،عیدیں اور تہوار جو اُن کی پہچان ہیں، اُن میں مشابہت جائز نہیں۔ اِن احادیث کی روشنی میں اُمتِ مسلمہ کے حال و احوال پر نظر دوڑائے۔ آج ہم نے اوروں کی دیکھا دیکھی اُن چیزوں کو اپنی زندگی کا لازمی جز بنالیا جو دینی و دنیاوی دونوں لحاظ سے ہماری تباہی و بربادی کا مؤجب ہیں۔ سالگرہ، ویلنٹائن ڈے، انیورسری اور شادی بیاہ کی دیگر واہیات رسومات ہم میں آگئیں، اسی طرح نیا عیسوی سال جوش و خروش سے منانے کی عادت بھی ہم میں سرایت کرگئی۔ 31 دسمبر کی شب اور یکم جنوری کے آغاز سے قبل ہونے والے تماشے کا مشاہدہ کیجئے۔ "نیو ایئر سیلیبریشن” کے نام پر مبارکبادی، آتش بازیاں، رنگارنگ تقاریب، مشاعرے، حرام کاموں پر پیسوں کا ضیاع، شراب و کباب کی مجلسیں، قتل و غارت گری، زنا کاری و بدکاری، مذہبی و اخلاقی اقدار کا قتل، حدود کی پامالی، عریانیت و حیوانیت کا گندا مظاہرہ، اسراف و فضول خرچی، نعمتِ خداوندی کی ناقدری جن میں مسلمان غیروں کی صفوں میں شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ دراصل سال کا اختتام اشارہ ہے کہ کتابِ حیات کا ایک ورق پلٹ گیا، زندگی کا ایک سال کم ہوگیا، دیوارِ حیات سے ایک اینٹ گر کر زمیں بوس ہوگئی اور قبر کے گڑھے سے ہم قریب تر ہوگئے۔

سال 2018 رخصت ہوگیا۔ دن رات کے بدلنے میں عقلمندوں کے لئے واضح نشانیاں ہیں۔ ہر آنے والا سال نئی اُمیدیں اور توقعات لے کر آتا ہے۔ عزائم کو پھر سے جوان کرتا ہے۔ جو کام ادھورے رہ گئے اُنہیں مکمل کرنے کا عہد ہوتا ہے۔ قوموں کو موقع فراہم کرتا ہے کہ گذشتہ غلطیوں اور خطاؤں سے سبق سیکھ کر آنے والے سال کے لئے بہترین منصوبہ بندی کرے۔ لیکن صد افسوس کہ ہم مغربی تہذیب و تمدن کی اندھی تقلید کا اِس قدر شکار ہوگئے کہ وقتی خوشی کی خاطر ہر چمکتی چیز کو سونا سمجھ کر اُس کے پیچھے سرپٹ بھاگے جارہے ہیں۔

تاریخ بتاتی ہے کہ 1 جنوری 1600 میں پہلی مرتبہ اسکاٹ لینڈ میں نئے عیسوی سال کا جشن منایا گیا۔ پھر عصرِ حاضر میں یہ ایک اہم تقریب کے طور پر پوری دنیا میں جدید مغربی تہذیب کے مطابق 31 دسمبر رات 12 بجے یہ جشن منایا جانے لگا۔ اور پھر عیسائی تہذیب کی اسی نقّالی نے ہم سے شرم و حیا کی چادر چھین لی۔ نتیجتاً اُن ہی کے انداز میں طرح طرح کے خرافات کی بجاآوری میں ہم فخر محسوس کرنے لگے۔ شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے۔ جو آدمی کو گمراہ کرنے کے لئے اُن طریقوں سے اُسے بہکاتا ہے اور ایسے معصوم راستوں سے آتا ہے جہاں سے آدمی کا گمان بھی نہ ہو۔ نازک مقامات سے حملہ آور ہوتا ہے۔ تباہی  بربادی میں ترقّی و خوشحالی کا راز بتاتا ہے۔ تخریبی اعمال کو تعمیر کے روپ میں پیش کرتا ہے۔ لیکن آج شیطان ہمارا جگری دوست بن چکا ہے۔ وہیں ایسے لوگ جو دنیا حاصل کرنے اور اسکی کامیابی کے لیے تگ ودو کرتے ہیں، اُنکے لیے اِس فانی دنیا کی حقیقت قرآن نے یوں بیان کیں، "دنیا کی زندگی تو بس کھیل و تماشا ہے اور آخرت کا گھر بہتر ہے اُن کے لیے جو تقویٰ رکھتے ہیں” (سورۃ الانعام : 32)۔ دنیا کی زندگی کی مثال یوں بتائی گئی، "اور انکو دنیا کی زندگی کی مثال سناؤ۔ جیسے کہ پانی، جس کو ہم نے آسمان سے اتارا۔ پھر اس سے زمین کی نباتات خوب گھنی ہوگئیں، پھر وہ ریزہ ریزہ ہوگئیں، جس کو ہوائیں اڑاتی پھرتی ہیں۔”(سورہ الکہف : 45)۔ اِس دنیاوی زندگی کو سب کچھ سمجھنے والوں کے روزِ قیامت کے حالات کا نقشہ اللہ ربّ العزت نے سورۃ الانعام میں اسطرح کھینچا ہے، "کہتے ہیں زندگی تو بس ہماری دنیا کی زندگی ہے اور پھر ہم اٹھائے جانے والے نہیں۔ اور اگر تم اس وقت دیکھتے جب کہ وہ اپنے رب کے سامنے کھڑے کیے جائیں گے، وہ ان سے پوچھے گا: کیا یہ حقیقت نہیں ہے؟ وہ جواب دیں گے ہاں، ہمارے رب کی قسم، یہ حقیقت ہے۔ خدا فرمائے گا: اچھا تو عذاب چکھو اس انکار کے بدلے جو تم کرتے تھے۔” (سورہ الانعام : 29 – 30)۔ یہی حال دنیا کی رونقوں کا ہے جو آدمی کو اپنی طرف کھینچتی ہیں۔ مگر یہ تمام رونقیں انتہائی عارضی ہیں، جو امتحان کی ایک مقررہ مدت تک باقی رہنے والی ہیں۔ اصلاً دنیا ایک امتحان ہے جس کا نتیجہ آخرت میں معلوم ہو گا۔ اور زمین کی یہ دلفریبیاں آزمائشوں کی ایک کڑی ہے تاکہ لوگوں کو جانچیں کہ ان میں سے کون اچھے عمل کرنے والا ہے۔ "اور ہم نے آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہے کھیل کے طور پر نہیں بنایا۔ انکو ہم نے حق کے ساتھ بنایا ہے۔ لیکن ان کے اکثر لوگ نہیں جانتے۔” (سورہ الدخان : 38 -39)۔

موت ایک اٹل حقیقت ہے جس سے کسی کو انکار نہیں کیوں کہ کل نفس ذائقۃ الموت۔ وقت کی ریشمی ڈور ہاتھوں سے پھسلتی جارہی ہے۔ موت کی تیاری کا وقت نکلا جارہا ہے۔ حدیث کا مفہوم ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک زمانہ آپس میں بہت قریب نہ ہوجائے (یعنی شب و روز کی گردش بہت تیز نہ ہوجائے) چنانچہ سال مہینے کے برابر، مہینہ ہفتے کے برابر، ہفتہ دنوں کے برابر اور دن گھنٹوں کے برابر ہوجائے گا اور گھنٹے کا دورانیہ بس اتنا ہی رہ جائے گا کہ جتنی دیر میں آگ کا شعلہ یکدم بھڑک کر بجھ جاتا ہے۔” (ترمذی : 2332)۔ حال کو ماضی بنتے دے نہیں لگتی۔ 2019 بھی اسی تیزی سے گزر جائے گا جس نے کبھی پلٹ کر نہیں آنا۔ ہر بشر کی موت اس کا پیچھا کر رہی ہے۔ "اے انسان تو کشاں کشاں اپنے رب کی طرف جارہا ہے۔” (سورہ انشقاق : 6)۔ یہ زندگی موج مستی کے لیے نہیں دی گئی۔ بلکہ اس کی حقیقت سورہ الذاریات میں بیان کی گئی، "اور ہم نے جن و انس کو نہیں پیدا کیا تاکہ وہ ہماری عبادت کرے۔” (سورہ الذاریات : 56)۔

اسی روز و شب میں الجھ کر نہ رہ جا

کہ تیرے زماں و مکاں اور بھی ہیں

وقت کی نزاکت اور مومن کی نگاہِ بصیرت کا تقاضہ ہے کہ اس گزرتے سال میں اپنا تزکیہ اور محاسبہ کیا جائے۔ اپنی ذات کو احتساب کے کٹہرے میں کھڑا رکھ کر ذمہ داریوں اور حقوق کی ادائیگی سے متعلق سال بھر کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے۔ ان کمزوریوں کو دور کرنے اور اچھائیوں کو پروان چڑھانے کی سعی وجہد کی جائے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم دنیا کے وقتی مزے کے لئے آخرت گنوا بیٹھے۔ "کہو، کیا میں تم کو بتادوں کہ اپنے اعمال کے اعتبار سے سب سے زیادہ گھاٹے میں کون لوگ ہیں۔ وہ لوگ جن کی کوشش دنیا کی زندگی میں اکارت ہو گی اور وہ سمجھتے رہے کہ وہ بہت اچھا کام کر رہے ہیں۔” (سورہ الکہف : 103 – 104)۔ لا یعنی افعال اور اعمال کے ارتکاب سے قبل، قبر کی کال کوٹھری اور میدان حشر میں ربِّ کائنات اور قہار و غفار کے سامنے کھڑا ہونے کا تصور کرے۔ پوری سنجیدگی کے ساتھ اپنی زندگی اور وقت کو منظّم کرکے نعمتوں کا درست استعمال کرے، جو دُنیاوی کامیابی کے ساتھ اخروی سرفرازی کی بھی ضامن ہے۔ احتساب کے ان لمحات میں جائزہ لیں کہ کیا ہم روزِ قیامت اپنا نامہ اعمال اپنے ہاتھوں میں لینے کے لئے تیار ہیں؟ جب "ہر گروہ زانو کے بل گرے ہوئے اپنے نامہ اعمال کی طرف بلایا جائے گا” (سورہ الجاثیہ : 28)۔ یاد رہے قرآن کہتا ہے: "اور ہم نے ہر انسان کے اعمال کا نوشتہ اس کی گردن میں لٹکا دیا ہے، اور ہم اس کے لئے قیامت کے دن (یہ) نامہ اعمال نکالیں گے جسے وہ (اپنے سامنے) کھلا ہوا پائے گا، (اس سے کہا جائے گا:) اپنی کتابِ اعمال پڑھ لے، آج تو اپنا حساب جانچنے کے لئے خود ہی کافی ہے۔” (سورۃ الاسراء : 13 – 14)۔ اور پھر انسان کے تاثرات بیان کرتے ہوئے قرآن کہتا ہے: "ہائے ہلاکت! اس اعمال نامہ کو کیا ہوا ہے اس نے نہ کوئی چھوٹی (بات) چھوڑی ہے اور نہ کوئی بڑی (بات)، مگر اس میں (ہر ہر بات) کو شمار کر لیا ہے اور وہ جو کچھ کرتے رہے تھے اپنے سامنے حاضر پائیں گے۔” (سورہ الکہف : 49)۔ انسان جو بوۓ گا وہی کاٹے گا، یہ دھمکی نہیں بلکہ اللہ ربّ العزت کا وعدہ اور حقیقت ہے کہ اس دن ذرّہ بھر نیکی اور بدی نکال لائی جائے گی اور کسی پر کچھ ظلم نہ ہوگا۔ پھر "جن کا نامہ اعمال داہنے ہاتھ میں دیا جائے گا، اس سے آسان حساب لیا جائے گا اور وہ اپنے لوگوں کے پاس خوش خوش آئے گا۔” (سورہ انشقاق : 7 – 9) وہیں ناکام ہونے والوں کا حال بیان کرتے ہوئے کہا، "اور جس کا اعمال نامہ اس کی پیٹھ کے پیچھے سے دیا جائے گا، وہ موت کو پکارے گا اور جہنم میں داخل ہوگا۔” (سورہ انشقاق : 10 -12)۔ جن نفوس سے اللہ خوش ہوگا ان سے کہا جائے گا، "اے نفسِ مطمئنہ! چل اپنے رب کی طرف، تو اس سے راضی، وہ تجھ سے راضی۔ شامل ہو میرے بندوں میں اور داخل ہو میری جنت میں۔” (سورہ الفجر : 27 – 30)

اب یہ ہمارے ہاتھ میں ہیں کہ جو قیمتی اور انمول ساعتیں ہمارے قبضے میں باقی ہیں، انہیں غفلت و نافرمانی میں گزار کر جہنم کا ایندھن بن جائے، یا تقویٰ، فرمانبرداری، رضائے الہٰی، اُمت کی فلاح وبہبود کے لیے محنت کر کے اُن دائمی جنتوں کے وارث بن جائیں جو ہمارا حقیقی مسکن ہے۔ خوابوں کی دنیا مزید اضافے کے ساتھ، ابدی نعمتوں سے مالامال، ہر قسم کے خوف سے خالی، جس کی تصویر کشی قرآن نے اس طرح کیں: "خدا سے ڈرنے والے امن کی جگہ میں ہوں گے، باغوں اور چشموں میں۔ باریک اور دبیز ریشم کا لباس پہنے، آمنے سامنے بیٹھے ہوں گے۔ یہ بات اسی طرح ہے۔ اور ہم بڑی بڑی آنکھوں والی حوریں ان سے بیاہ دیں گے۔ نہایت اطمینان سے ھر قسم کے میوے وہ اس میں طلب کریں گے۔ وہ وہاں موت کو نہ چکھیں گے، مگر وہ موت جو پہلے آ چکی۔ اور اللہ نے ان کو جہنم کے عذاب سے بچا لیا۔” (سورۃ الدخان : 51 – 56) اور ان مسندوں اور قیام گاہوں کی عکاسی یوں کیں، "نعم الثواب وہ حسنت مرتفقا (کیسا اچھا بدلہ ہے اور کیسی حسین آرام گاہ)” (سورۃ الکہف : 31)۔

 اے ربّ العالمین! اپنی خاص رحمت سے ہمیں معافی، ہدایت، رضا، رحمت، کامیابی اور عزت عطا کر جس کے بعد کوئی گناہ، گمراہی، ناراضگی، عذاب، ناکامی اور ذلت نہ ہو۔ تیرے عتاب سے محفوظ فرما۔ اور اس نئے سال کو ہمارے لئے رحمتوں، برکتوں، مسرتوں اور شادمانیوں والا سال بنا دے۔ اسلامی صفوں میں اتحاد کی فضا قائم فرما اور باطل طاقتوں کے مقابلے ہمیں بنیان مرصوص بنا دے۔ داہنے ہاتھ میں نامہ اعمال میں ملے اور یا ایتھا النفس المطمئنۃ کی قطار میں ہم بھی شامل ہو۔ وہاں کی شان و عزت ہمارا بھی مقدر بنے۔ اور جنت کی سرخروئی ہمیں بھی حاصل ہو۔

  پھر نیا سال، نئی صبح، نئی اُمیدیں

  اے خدا خیر کی خبروں کے اجالے رکھنا

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔