یہ قصہ بھی پرانا ہو گیا ہے

فوزیہ رباب

یہ قصہ بھی پرانا ہو گیا ہے

تمہیں دیکھے زمانہ ہو گیا ہے

تمہاری ذات کی جدت میں آ کر

مرا چہرا پرانا ہو گیا ہے

بچھڑنا ہے تو جاؤ چھوڑ جاؤ

اگر ملنا ملانا ہو گیا ہے!

ابھی محجوب ہے وہ ماہ رُو پر

یہ دل جس پر دِوانہ ہو گیا ہے

میں جانے کس صدی میں رہ گئی ہوں

مجھے بیتے زمانہ ہو گیا ہے

تری آنکھوں کے موسم کہہ رہے ہیں

سماں دل کا سہانہ ہو گیا ہے

سو اب اس زندگی میں کیا بچا ہے

تجھے پانا، گنوانا، ہو گیا ہے!

تجھے میں نے بسا رکھا ہے اس میں

مرا دل صوفیانہ ہو گیا ہے

وہ ہر جائی ہے لیکن پھر بھی اس کا

مرے دل میں ٹھکانا ہو گیا ہے

تمہیں سوچا تمہیں ہی لکھ دیا ہے

یونہی پڑھنا پڑھانا ہو گیا ہے

تو کیا سنجیدگی سے پیش آؤں؟

تو کیا ہنسنا ہنسانا ہو گیا ہے؟

خدایا خیر ہو دل کی گلی میں

کسی کا آنا جانا ہو گیا ہے

تو کیا اب سرخرو سمجھوں میں خود کو؟

ترا گر آزمانا ہو گیا ہے!

نئی آنکھوں سے تجھ کو ڈھونڈنے سے

مرا آنسو پرانا ہو گیا ہے

نہیں تم پر کہا جو شعر اس میں

تخیل عامیانہ ہو گیا ہے

اکیلے عمر ساری کٹ رہی ہے

تمہارے بن، زمانہ ہو گیا ہے

تمہیں اب یاد کرنا ہے لگن سے

مکمل بھول جانا ہو گیا ہے

میں کچھ دن دور کیا تم سے رہی ہوں

رویہ دشمنانہ ہو گیا ہے

ڈھلی ہے شام اب تو لوٹ آؤ

مرا گھر بھی سجانا ہو گیا ہے

پلٹ آؤ میں پھر سے ہار مانوں

تمہیں جیتے زمانہ ہو گیا ہے

ابھی چہرہ نیا لایا کہیں سے

ابھی صدیوں پرانا ہو گیا ہے

تری باتیں سبھی سے کرتے کرتے

یہ لہجہ دلبرانہ ہو گیا ہے

میں اس کہ ذات میں یوں کھو گئی ہوں

تعلق عارفانہ ہو گیا ہے

مری سانسیں ابھی تک چل رہی ہیں

خطا تجھ سے نشانہ ہو گیا ہے

رباب اب روٹھتے اور پھر مناتے

اسے بھی اک زمانہ ہو گیا ہے

تبصرے بند ہیں۔