قرآن مجید کی عائلی تعلیمات (آخری قسط)

بسم اللہ الرحمن الرحیم

ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی

طلاق کا مسئلہ
اسلام پر اعتراضات کرنے والے مسئلہ طلاق کو بہت بھیانک بنا کر پیش کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ طلاق کے ذریعہ مرد کے ہاتھ میں عورت کو ستانے اور دھمکانے کا ایک ہتھیار تھما دیا گیا ہے۔ مسلمانوں میں اسلام کی تعلیمات سے ناواقفیت اور جہالت عام ہونے کی وجہ سے طلاق کا جس بے دردی سے استعمال کیا جاتا ہے اس سے بھی اسلام مخالفین کو شہ ملتی ہے۔ قرآن مجید میں طلاق کے بارے میں جو احکام بیان کیے گئے ہیںان کا مطالعہ کیا جائے تو بہت آسانی سے اس کی معقولیت سمجھ میں آجاتی ہے۔
قرآن نے مردوں کو حکم دیا ہے کہ وہ اپنی بیویوں کے ساتھ اچھا سلوک کریں۔ اگر وہ انھیں ناپسند ہوں تب بھی ان سے اعراض کا رویہ مناسب نہیں، اس لیے کہ اس کا عین امکان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بہت کچھ خیر ان سے وابستہ کر رکھا ہو۔ قرآن کہتا ہے:
وَعَاشِرُوہُنَّ بِالْمَعْرُوفِ فَإِن کَرِہْتُمُوہُنَّ فَعَسَی أَن تَکْرَہُواْ شَیْْئاً وَیَجْعَلَ اللّہُ فِیْہِ خَیْْراً کَثِیْراً(النساء:19)
’’ان کے ساتھ بھلے طریقہ سے زندگی بسر کرو۔ اگر وہ تمھیں نا پسند ہوں تو ہو سکتا ہے کہ ایک چیز تمھیں پسند نہ ہو، مگر اللہ نے اس میں بہت کچھ بھلائی رکھ دی ہو‘‘۔
قرآن مردوں کو تلقین کرتا ہے کہ اگر بیویوں کی جانب سے سرکشی کا مظاہرہ ہو تو بھی وہ فوراً انھیں اپنی زندگیوں سے علیٰحدہ نہ کریں، بلکہ انھیں سمجھائیں بجھائیں، بستروں میں رہتے ہوئے ان سے لاتعلقی کا اظہار کریں، تاکہ انھیں نفسیاتی طور پر تنبیہ ہو، اس سے بھی وہ اگر سرکشی سے باز نہ آئیں تو انھیں بہ طور تادیب ہلکی ضرب لگائیں۔ (النساء:34) اگر ان کے اختلافات بہت زیادہ بڑھ گئے ہوںاور زوجین اپنے طور پر انھیں حل کرنے پر قادر نہ ہوں تو دونوں کی طرف سے ایک ایک حکم مقرر ہوں اور وہ اختلافات کو دور کرنے اور موافقت پیدا کرنے کی کوشش کریں (النساء: 35) لیکن اگر طلاق کی نوبت آہی جائے تو مرد ایک طلاق دے کر چھوڑ دے۔ عدت گزارنے کے بعد عورت آزاد ہو جائے گی۔ دورانِ عدّت بھی مرد کو واپس لینے کا اختیار ہوگا اور عدت گزارنے کے بعد بھی اگر وہ رجوع کرنا چاہیں تو نکاح کے ذریعہ پھر زوجین کی حیثیت سے رہ سکتے ہیں۔ دوسری مرتبہ طلاق دینے پر بھی واپسی کا حق باقی رہتا ہے، لیکن اگر تیسری مرتبہ طلاق دے دی جائے تو عورت ہمیشہ کے لیے حرام ہو جاتی ہے۔ (النساء:230)
اسلام نے طلاق کا حق مردوں کو دیا ہے۔ اس کی بہت سی حکمتیں ہیں۔ اسلامی شریعت میں نکاح کے ہر مرحلے میں مرد کو خرچ برداشت کرنا پڑتا ہے۔ مہر وہ ادا کرتا ہے، نکاح کے مصارف وہ برداشت کرتا ہے،ولیمہ وہ کرتا ہے، نان و نفقہ کی ذمہ داری وہ اٹھاتا ہے، اسی بنا پر طلاق کا حق بھی شریعت نے مرد کو دیا ہے، لیکن اگر کسی وجہ سے عورت اپنے شوہر کے ساتھ زندگی نہ گزارنا چاہے تو خلع کے ذریعہ اسے بھی علیٰحدگی کا حق حاصل ہے۔
طلاق ایک ناگزیر سماجی ضرورت ہے۔ اسی وجہ سے دوسرے مذاہب میں اس کو تسلیم کیا گیا ہے۔ حتی کہ جن مذاہب میں اس کی گنجائش نہیں تھی اب ان میں بھی اسے قانونی شکل دے دی گئی ہے۔
قتل ِجنین کی اجازت نہیں
نکاح کے نتیجے میں زوجین کو قدرت کی طرف سے اولاد کا تحفہ ملتا ہے۔ اسلام نے زوجین کو پابند کیا ہے کہ وہ اپنی اولاد کی پرورش اور تعلیم و تربیت کاا ہتمام کریں اور اس معاملہ میں لڑکوں اور لڑکیوں کے درمیان کوئی تفریق روا نہ رکھیں۔ عہد نبوی میں لڑکیوں کو زندہ درگور کرنے کی رسم جاری تھی۔ قرآن نے بہت سخت الفاظ میں قتل ِ اولاد سے روکا اور اس کی مذمت کی:
وَلاَ تَقْتُلُواْ أَوْلادَکُمْ خَشْیَۃَ إِمْلاقٍ نَّحْنُ نَرْزُقُہُمْ وَإِیَّاکُم إنَّ قَتْلَہُمْ کَانَ خِطْء اً کَبِیْرا(الاسراء:31)
’’اپنی اولاد کو افلاس کے اندیشے سے قتل نہ کرو ، ہم انھیں بھی رزق دیں گے اور تمھیں بھی ، درحقیقت ان کا قتل ایک بڑی خطا ہے‘‘۔
وَإِذَا الْمَوْؤُودَۃُ سُئِلَتْ ۔بِأَیِّ ذَنبٍ قُتِلَتْ(التکویر: 9-8)
’اور جب زندہ گاڑی ہوئی لڑکی سے پوچھا جائے گا کہ وہ کس قصور میں ماری گئی ؟‘‘۔
میدانِ طب میں جدید ترقیات کے نتیجے میں ایسی مشینیں ایجاد کر لی گئیں ہیںکہ رحم ِمادر میں جنین کی جنس کا پتہ لگا لیا جاتا ہے اور لڑکی ہو تو اس کاا سقاط کرا دیا جاتا ہے۔ اس بنا پر لڑکیوں کی تعداد لڑکوں کے مقابلہ میں برابر کم ہو رہی ہے۔ ہندوستان میں ہر دس سال پر مردم شماری کرائی جاتی ہے۔ اس کے مطابق ایک ہزار لڑکوں کے مقابلہ میں لڑکیوں کی تعداد نوسو(900) سے کچھ ہی زیادہ رہتی ہے۔ اس تفاوت نے ملک کے سنجیدہ طبقے کو بہت متفکر کر دیا ہے اور اس کے ازالے کے لیے مختلف تدابیر اختیار کی جارہی ہیں، لیکن کام یابی نہیں مل پا رہی ہے۔قرآن کی اس تعلیم پر عمل کے نتیجہ میں مسلمان اس عمل ِبد سے محفوظ ہیں۔ دوسرے طبقات بھی اس سے فائدہ اٹھائیں تو ملک سے اس برائی کا بہت آسانی سے خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔
والدین اور رشتہ داروں کے ساتھ حسن ِسلوک
خاندان کا اہم جز والدین ہوتے ہیں۔وہ اپنے بچوں کی پرورش و پر داخت کرتے ہیں، انھیں مکروہاتِ زمانہ سے بچاتے اور دنیا میں زندگی گزارنے کا سلیقہ سکھاتے ہیں اور جب وہ بڑے ہوتے ہیںتو ان کے لیے رشتہ تلاش کرکے انھیں ازدواجی مسرتوں سے ہم کنار کرتے ہیں۔ لیکن دیکھا یہ گیا ہے کہ اولاد اپنے والدین کے ان احسانات پر ان کا شکر گزار بننے کے بجائے انھیں بوجھ اوراپنی مسرتوں میں رکاوٹ سمجھنے لگتی ہے۔ اس کے نتیجے میں والدین اپنے گھر میں ہی اجنبی بن جاتے ہیں یا پھر یا تو وہ گھٹ گھٹ کر اپنی بقیہ زندگی گزارتے ہیں یا اولڈ ایج ہومس میں جا کر پناہ لیتے ہیں۔ اولڈ ایج ہومس بیسویں صدی کی پیداوار ہیں۔ پوری دنیا میں ان کا چلن بہت تیزی سے ہوا ہے۔2005 ء تک امریکا میں گیارہ ہزار اولڈ ایج ہومس قائم ہو چکے ہیںتھے،اگلے پانچ برسوں میں مزید ایک ہزار کا اضافہ ہوا۔ اسپین میں پانچ ہزار اولڈ ایج ہومس قائم ہو چکے ہیں۔ ہندوستان میں بھی یہ کلچر تیزی سے فروغ پا رہا ہے۔ 1950ء سے قبل پورے ملک میں صرف چھیانوے (96) اولڈ ایج ہومس تھے، 2009ء میں ان کی تعداد تقریباً تیرہ ہزار ہو گئی۔
اسلام نے والدین کے ساتھ حسن ِسلوک کا جو تصور دیا ہے، وہ اولڈ ایج ہومس کے کلچر سے بالکل مغایر ہے۔ قرآن کریم میں مختلف مقامات پر ان کے ساتھ اچھا برتائو کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔ ذیل میں صرف سورۂ اسراء کی آیات پیش کی جاتی ہیں:
وَقَضَی رَبُّکَ أَلاَّ تَعْبُدُواْ إِلاَّ إِیَّاہُ وَبِالْوَالِدَیْْنِ إِحْسَاناً إِمَّا یَبْلُغَنَّ عِندَکَ الْکِبَرَ أَحَدُہُمَآ أَوْ کِلٰہُمَا فَلاَ تَقُل لَّہُمَا أُفٍّ وَلاَ تَنْہَرْہُمَا وَقُل لَّہُمَا قَوْلاً کَرِیْماً۔ وَاخْفِضْ لَہُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَۃِ وَقُل رَّبِّ ارْحَمْہُمَا کَمَا رَبَّیَٰنِیْ صَغِیْرا(الاسراء:24-23)
’’تیرے رب نے فیصلہ کر دیا ہے کہ تم لوگ کسی کی عبادت نہ کرومگر صرف اس کی اور والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو۔ اگر تمھارے پاس ان میں کوئی ایک ، یادونوں، بوڑھے ہو کر رہیں تو انھیں اف تک نہ کہو، نہ انھیں جھڑک کر جواب دو، بلکہ ان سے احترام کے ساتھ بات کرو اور نرمی و رحم کے ساتھ ان کے سامنے جھک کر رہو اور دعا کیا کرو کہ ’پر وردگار ! ان پر رحم فرما، جس طرح انھوں نے رحمت و شفقت کے ساتھ مجھے بچپن میں پالا تھا‘‘۔
قرآن والدین کے ساتھ رشتہ داروں کے حقوق ادا کرنے اور ان کے ساتھ صلہ رحمی کرنے کی تاکید کرتا ہے۔ چنانچہ متعدد مقامات پر حسن سلوک کے مستحقین میں والدین کے ساتھ رشتہ داروں کا بھی تذکرہ کیا گیاہے۔ سورۂ النساء میں ہے:
وَبِالْوَالِدَیْْنِ إِحْسَاناًوَبِذِیْ الْقُرْبَی (النساء:36)
’’ والدین اور رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک کرو ‘‘۔
وراثت میں عورت کا حق
اسلام پر ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ اس نے خاندان میں عورت کو مرد سے کم ترحیثیت دی ہے، چنانچہ وراثت میں بیوی کو شوہر کے مقابلہ میں ، بہن کو بھائی کے مقابلہ میں اوربیٹی کو بیٹے کے مقابلہ میں نصف حصہ ملتا ہے۔ اس طرح یہ تأثر دینے کی کوشش کی جاتی ہے کہ یہ تفریق جنس کی بنیاد پر کی گئی ہے۔ حالاں کہ اگر نظام ِخاندان میں ہر ایک کے فرائض اور ذمہ داریوں پر بھی نظر ہو تو اس تفاوت کی معقولیت بہ خوبی سمجھی جا سکتی ہے۔
عہد جاہلیت میںعورت وراثت سے بالکلیۃ محروم تھی۔ اسلام نے اس کا حصہ مقرر کیا۔ قرآن میں ہے:
لِّلرِّجَالِ نَصیِبٌ مِّمَّا تَرَکَ الْوَالِدَٰنِ وَالأَقْرَبُونَ وَلِلنِّسَاء نَصِیْبٌ مِّمَّا تَرَکَ الْوَالِدٰنِ وَالأَقْرَبُونَ مِمَّا قَلَّ مِنْہُ أَوْ کَثُرَ نَصِیْباً مَّفْرُوضا(النساء:7)
’’ مردوں کے لیے اس مال میں سے حصہ ہے جو ماں باپ اور قریبی رشتہ داروں نے چھوڑا ہے اور عورتوں کے لیے بھی اس مال میں حصہ ہے جو ماں باپ اور قریبی رشتہ دار وں نے چھوڑا ہو، خواہ تھوڑا ہو یا بہت، اور یہ حصہ (اللہ کی طرف سے) مقرر ہے‘‘۔
اسلام نے جن لوگوں کو میراث کا مستحق قرار دیا ہے ان میں عورتوں کی تعداد مردوں سے زیادہ ہے۔ چنانچہ اولین تقسیم اصحاب الفرائض کی ہے، جن کے حصے مقرر ہیں۔ ان میں چار (باپ، داد، اخیافی بھائی، شوہر) مرد ہیں تو آٹھ عورتیں (ماں، دادی، بیٹی، پوتی، حقیقی بہن، علاتی بہن، اخیافی بہن، بیوی)ہیں۔
بعض حالتوں میں میراث میں مرد اور عورت کے حصوں میں جو تفاوت رکھا گیا ہے وہ جنس کی بنیاد پر نہیں، بلکہ کفالت کی بنیاد پر ہے۔ اسلام کے نظام ِخاندان میں کفالت کا بار مرد پر ڈالا گیا ہے اور عورت کو اس سے بالکل آزاد رکھا گیا ہے۔ مثال کے طور پر بیٹے کو بیٹی کے مقابلہ میں دو گنا ملتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بیٹا اپنے بیوی بچوں کی کفالت کرتا ہے، جب کہ بیٹی کی پوری میراث محفوظ رہتی ہے۔
اسلام نے خاندان کے بارے میں جو تعلیمات دی ہیں اور افراد ِخاندان کے جو حقوق اور فرائض بیان کیے ہیں اگر ان پر صحیح طریقہ سے عمل کیا جائے تو صالح خطوط پر خاندان پروان چڑھے گا، خوشی و مسرت کے شادیانے بجیں گے اور مثالی و پاکیزہ سماج وجود میں آئے گا۔

تبصرے بند ہیں۔