عورت کی آبرو اور اسلامی معاشرہ

مولانا محمد الیاس گھمن

یہ سب کچھ جو آپ کی آنکھیں مشاہدہ کر رہی ہیں — دنیا کی نیرنگیاں ،زرق برق ملبوسات، خوب صورت محلات ،ماڈرن بنگلے ،کانچ کے برتن ، رنگارنگ تقریبات ،جشن کے نام پر آزادیاں،غم غلط کر نے کیلیے مئے نوشی مینا وجام وسبو،حسن کے مقابلے، نام ونمود ، شہرت ،غیر فطری مزین راستے ،غلط خطوط پر منصوبہ بندیاں ،پھیکی مسکراہٹیں ، کھوکھلے دعوے ،بے حیثیت باتیں ، جھوٹی محبتیں وغیرہ۔ یہ کوئی نئی بات تھوڑی ہے یہ تو اسلام کے پہلے بہت پہلے معاشرہ کا قانون اور دستور تھیں۔
اْس دور میں عورت کا وجود محض ایک کھلونے کے سوا اور کچھ بھی نہیں تھا۔عورت معاشرہ میں نہ صرف یہ کہ مظلوم تھی بلکہ سماجی ومعاشرتی عزت وتوقیر اور ادب واحترام سے بھی محروم تھی۔عورت کا وجود دلہن کے سفید ماتھے پر سیاہ جھومر کے مترادف تھا۔ یونانی ،ایرانی تہذیبیں اوررومانی ثقافتیں اس کو ثانوی حیثیت دینے کے لیے بھی تیار نہ تھیں۔
یہی وجہ تھی کہ یونانی فلاسفوں نے عورت کو ’’شجرہ مسمومہ‘‘یعنی ایک زہر آلود درخت قرار دے کر عام خیال میں مرد سے کئی گنا زیادہ معیوب ،بدکردار ،آوارہ اور ترش وتلخ گوباور کیا۔
رومی تہذیب نے عورت کا کیا مقام بتلایا ہے تاریخ کے جھرونکوں میں آج بھی دھندلے سے الفاظ چیخ چیخ کر یہ کہہ رہے ہیں کہ ’’عورت کے لیے کوئی روح نہیں بلکہ عذابوں کی صورتوں میں سے ایک صورت ہے۔‘‘فارسی تمدن بھی اس سے ملتا جلتاتھا اس میں بھی عورت کی وہی زبوں حالی تھی۔
ہندی معاشرہ تو آپ سے دور نہیں!! ویدوں کے احکام کے مطابق:’’ عورت مذہبی کتاب کو چھو
بھی نہیں سکتی۔‘‘
ویسٹر مارک ہندی معاشرے کی منظر کشی اپنی کتابwaves of the history of hindusمیں یوں کرتا ہے :اگر کوئی عورت کسی متبرک بت کو چھو لے تو اس بت کی الوہیت اور تقدس تباہ ہوجاتا ہے لہٰذااس کو پھینک دینا چاہیے۔‘‘
عیسائی تصورات اور نظریات عورت کے بارے میں کیا تھے ؟ایک جھلک دیکھیے: ’’576ء میں فرانسیسیوں نے ایک کانفرنس بلوائی جس میں پوپ اوربڑے بڑے پادریوں نے شرکت کی ،کانفرنس کے انعقاد کا سبب یہ سوال تھا کہ ’’عورت میں روح ہے یا نہیں؟ ‘‘اسی کانفرس میں ایک پادری نے تو یہاں تک کہہ ڈالا کہ ’’عورت کا شمار بنی نوع انسانی میں بھی نہیں بالآخر کانفرنس اس نتیجے تک جا پہنچی کہ عورت صنفِ انسانی سے تعلق رکھتی ہے مگر صرف دنیاوی زندگی میں مرد کی خدمت کرنے کے لیے۔ روزِ آخرت تمام عورتیں غیر جنس جانداروں کی اشکال میں ظہور پذیر ہوں گی۔
لیکن جب اسلام آیا اور ہدایت کا نیر تاباں جلوہ فگن ہوا ،قرآن کا آفتاب عالم تاب چمکاتو یونانی تہذیب سے لے کر نصرانی ثقافت تک تمام کلچر اور تمام تہذیبیں پاش پاش ہوگئیں، سارے تمدن دھڑام سے نیچے آگرے۔اسلام؛ ساری انسانیت کے لیے احترام کا دستور لایا۔عورت کو وہ مقام بخشا کہ جس کی مثال کسی مذہب اور کسی دین میں نہیں ملتی۔
حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد کہ ’’بیٹی؛بیٹی ہوتی ہے خواہ کافر کی بھی کیوں نہ ہو۔‘‘ توقیرعورت کیلیے سب سے بڑا اعزاز ہے اسلام نے آکر عورت کوبے جا غلامی، ذلت اور ہتک آمیز رویوں سے نجات دی۔ اسلام صنف نازک کے لیے نوید صبح بن کر آیا اور عورت کیلیے احترام کا پیامبر ثابت ہوا۔ اب اگر یہی عورت اگر ماں بن جائے تو اس کے قدموں میں جنت کو لاکر بسا دیا ،بیٹی ہوتو نعمت عظمیٰ۔ اگر رشتہ بہن کا ہوتو احترام کا پیکر اور اہلیہ ہوتو اس کو جنت کی حوروں کی بھی سردار قرار دیا۔
آج نسوانی حقوق کیلیے گلے پھاڑ پھاڑ کر چلانے والے ذرا اپنی تاریخ تو پڑھ لیں۔ اپنے مذہب اور دھرم میں صنف نازک کی مذہبی و معاشرتی ناقدری کو دیکھیں۔ یہ لوگ آزادی نسواں کا نعرہ لگا کر عورت تک رسائی کی آزادی کیخواہش مند ہیں جبکہ اسلام عورت کو ایسے لوگوں بلکہ ایسی سوچ و فکر سے آزادی عطا کرتا ہے اور پرامن ،خوشگوار، پرسکون ،راحت بخش اور اطمینان والی زندگی گزارنے کے ایسے اصول فراہم کرتا ہے جن کی بدولت اس کی عزت و آبرو ، عفت و حیا اور پاکدامنی محفوظ رہتی ہو۔

تبصرے بند ہیں۔