اسلام کی اصلی تعلیم جنگ کا مطالعہ کریں

 مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے اپنی زندگی کا آغاز صحافت سے کیا۔ مولانا کم عمری کے باوجود جمعیۃ علماء ہند کے مشہور اخبار ’’الجمعیۃ‘‘ کے ایڈیٹر تھے۔ 1926ء میں  ایک ایسا واقعہ پیش آیا تھا   جس کی وجہ سے دشمنانِ اسلام علانیہ قرآن کریم پر اس قسم کے الزام عائد کرنے لگے کہ اس کی تعلیم مسلمانوں  کو خونخوار اور قاتل بناتی ہے۔ اس غلط خیالات کی نشر و اشاعت اس کثرت کے ساتھ کی گئی کہ صحیح الخیال لوگوں  کی عقلیں  بھی چکرا گئیں  اور گاندھی جی جیسے شخص نے جو ہندو قوم میں  سب سے بڑے صائب الرائے آدمی تھے، اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں  رہے۔ مولانا محمد علی جوہرؒ نے دہلی کی شاہجہانی جامع مسجد میں  ایک روز اپنی تقریر میں  کہاکہ کاش کوئی بندۂ خدا اس وقت اسلامی جہاد پر ایسی کتاب لکھے جو مخالفین کے سارے اعتراضات و الزامات کو رفع کرکے جہاد کی اصل حقیقت دنیا پر واضح کرے۔ مولانا مودودیؒ اس وقت 23 سال کی عمر کے تھے۔ مولانا محمد علیؒ جوہر کی زبان سے یہ بات سن کر مولانا مودودی نے اپنے دل میں  یہ خیال کیا کہ وہ بندۂ خدا میں  ہی کیوں  نہ ہوں ؟

چنانچہ اسی وقت انھوں  نے یہ کام شروع کیا اور ’’الجہاد فی الاسلام‘‘کے نام سے 600 صفحات پر مشتمل ایک کتاب لکھ ڈالی۔ اس کی تالیف میں  جس وسیع پیمانے پر انھوں  نے علمی تحقیقات اور ذہنی کاوش کی ہے اس کا اندازہ کتاب کو پڑھنے والا ہر شخص خود کر سکتا ہے۔ پہلی مرتبہ اس کی اشاعت 1930ء میں  دارالمصنّفین اعظم گڑھ سے ہوئی تھی۔ یہ کتاب جب منظر عام پر آئی تو علامہ محمد اقبالؒ نے اُس وقت اسے دیکھ کر فرمایا کہ جہاد کے موضوع پر ایسی محققانہ اور غیر معذرت خواہانہ کتاب اردو تو کیا دوسری کسی زبان میں  بھی نہیں  لکھی گئی ہے۔ آج بھی علامہ اقبالؒ کی بات اتنی ہی سچی ہے جتنی 1930ء میں  تھی۔ مولانا نے کتاب کا پہلا دیباچہ دہلی میں  15 جون 1927ء کو لکھا تھا۔ آج بھی اسے پڑھنے سے ایسا لگتا ہے کہ جو لوگ قرآن کی تعلیمات پر طرح طرح سے الزامات و اعتراضات عائد کر رہے ہیں  دیباچہ میں  مختصراً اور کتاب میں  تفصیلاً اس کا جواب پڑھا جاسکتا ہے۔

 ’’دورِ جدید میں  یورپ نے اپنے سیاسی اغراض کیلئے اسلام پر جو بہتان تراشے ہیں  ان میں  سب سے بڑا بہتان یہ ہے کہ اسلام ایک خونخوار مذہب ہے اور اپنے پیروؤں  کو خونریزی کی تعلیم دیتا ہے۔ اس بہتان کی اگر کچھ حقیقت ہوتی تو قدرتی طور پر اسے اس وقت پیش ہونا چاہئے تھا جب پیروانِ اسلام کی شمشیر خارا شگاف نے کرۂ زمین میں  ایک تہلکہ برپا کر رکھا تھا اور فی الواقع دنیا کو یہ شبہ ہوسکتا تھا کہ شاید ان کے یہ فاتحانہ اقدامات کسی خونریز تعلیم کا نتیجہ ہوں ؛ مگر عجیب بات ہے کہ اس بہتان کی پیدائش آفتابِ عروجِ اسلام کے غروب ہونے کے بہت عرصہ بعد عمل میں  آئی۔ اس کے خیالی پتلے میں  اس وقت روح پھونکی گئی جب اسلام کی تلوار تو زنگ کھا چکی تھی مگر خود اس بہتان کے مصنف، یورپ کی تلوار بے گناہوں  کے خون سے سرخ ہو رہی تھی اور اس نے دنیا کی کمزور قوموں  کو اس طرح نگلنا شروع کر دیا تھا جیسے کوئی اژدہا چھوٹے چھوٹے جانوروں  کو ڈستا اور نگلتا ہو۔ اگر دنیا میں  عقل ہوتی تو وہ سوال کرتی کہ جو لوگ خود امن و امان کے سب سے بڑے دشمن ہوں ، جنھوں  نے خود خون بہا بہا کر زمین کے چہرے کو رنگین کر دیا ہو، جو خود دوسری قوموں  پر ڈاکے ڈال رہے ہوں ، آخر انھیں  کیا حق ہے کہ اسلام پر وہ الزام عائد کریں  جس کی فردِ جرم خود ان پر لگنی چاہئے؟ کہیں  اس تمام مورخانہ تحقیق و تفتیش اور عالمانہ بحث و اکتشاف سے ان کا یہ منشا تو نہیں  کہ دنیا کی اس نفرت و ناراضی کے سیلاب کا رخ اسلام کی طرف پھیر دیں  جس کے خود ان کی اپنی خونریزیوں  کے خلاف امنڈ کر آنے کا اندیشہ ہے؟ لیکن انسان کی یہ کچھ فطری کمزوری ہے کہ وہ جب میدان میں  مغلوب ہوتا ہے تو مدرسہ میں  بھی مغلوب ہوجاتا ہے، جس کی تلوار سے شکست کھاتا ہے اس کے قلم کا بھی مقابلہ نہیں  کرسکتا، اور اسی لئے ہر عہد میں  دنیا پر انہی افکار و آراء کا غلبہ رہتا ہے جو تلوار بند ہاتھوں  کے قلم سے پیش کئے جاتے ہیں ؛ چنانچہ اس مسئلہ میں  بھی دنیا کی آنکھوں  پر پردہ ڈالنے میں  یورپ کو پوری کامیابی ملی اور غلامانہ ذہنیت رکھنے والی قوموں  نے اسلامی جہاد کے متعلق اپنے پیش کردہ نظریہ کو بلا ادنیٰ تحقیق و تفحص اور بلا ادنیٰ غور و خوض اس طرح قبول کر لیا کہ کسی آسمانی وحی کو بھی اس طرح قبول نہ کیا ہوگا۔

 گزشتہ اور موجودہ صدی میں  مسلمانوں  کی طرف سے بارہا اس اعتراض کا جواب دیا گیا ہے اور اس کثرت کے ساتھ اس موضوع پر لکھا جاچکا ہے کہ اب یہ ایک فرسودہ اور پامال سا مضمون معلوم ہوتا ہے؛ مگر اس قسم کی جوابی تحریرات میں  میں  نے اکثر یہ نقص دیکھا ہے کہ اسلام کے وکلاء مخالفین سے مرعوب ہوکر خود بخود ملزموں  کے کٹہرے میں  جاکھڑے ہوتے ہیں  اور مجرموں  کی طرح صفائی پیش کرنے لگتے ہیں ۔ بعض حضرات نے تو یہاں  تک کیا ہے کہ اپنے مقدمہ کو مضبوط بنانے کیلئے سرے سے اسلام کی تعلیمات اور اس کے قوانین ہی میں  ترمیم کر ڈالی، اور شدتِ مرعوبیت میں  جن جن چیزوں  کو انھوں  نے اپنے نزدیک خوفناک سمجھا انھیں  ریکارڈ پر سے بالکل غائب کر دیا تاکہ مخالفین کی نظر اس پر نہ پڑسکے؛ لیکن جن لوگوں  نے ایسا کمزور پہلو اختیار نہیں  کیا ان کے ہاں  بھی کم ازکم یہ نقص ضرور موجود ہے کہ وہ جہاد و قتال کے متعلق اسلامی تعلیمات کو پوری وضاحت کے ساتھ بیان نہیں  کرتے اور بہت سے پہلو اس طرح تشنہ چھوڑ جاتے ہیں  کہ ان میں  شک و شبہ کی بہت کچھ گنجائش باقی رہتی ہے۔ غلط فہمیوں  کو دور کرنے کیلئے اصلی ضرورت اس امر کی ہے کہ جہاد فی سبیل اللہ اور قتال بغرض اعلائے کلمہ الٰہی کے متعلق اسلام کی تعلیمات اور اس کے قوانین کو بے کم و کاست اسی طرح بیان کر دیا جائے جس طرح وہ قرآن مجید، احادیث نبویؐ اور کتب فقہیہ میں  درج ہیں ۔ ان میں  سے کسی چیز کو نہ گھٹایا جائے نہ بڑھایا جائے اور نہ اسلام کے اصلی منشا اور اس کی تعلیم کی روح کو بدلنے کی کوشش کی جائے۔ میں  اس طریقہ سے اصولی اختلاف رکھتا ہوں  کہ ہم اپنے عقائد و اصول کو دوسروں  کے نقطہ نظر کے مطابق ڈھال کر پیش کریں ۔

 دنیا کا کوئی ایک مسئلہ بھی ایسا نہیں  ہے جس میں  تمام لوگ ایک نقطۂ نظر پر متفق ہوں ۔ ہر جماعت اپنا ایک الگ نقطۂ نظر رکھتی ہے اور اسی کو صحیح سمجھتی ہے۔ کُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَیْہِمْ فَرِحُوْنَ۔ پس ہم دوسروں  کے نقطہ نظر کی رعایت سے اپنے اصول و عقائد کو خواہ کتنا ہی رنگ کر پیش کریں  یہ ناممکن ہے کہ تمام مختلف الخیال گروہ ہم سے متفق ہوجائیں  اور سب کو ہمارا وہ مصنوعی رنگ پسند ہی آجائے۔ اس لئے زیادہ بہتر طریقہ یہ ہے کہ ہم اپنے دین کے عقائد اور احکام کو اس کی تعلیمات اور اس کے قوانین کو ان کے اصلی رنگ میں  دنیا کے سامنے پیش کرسکیں  اور جو دلائل ہم ان کے حق میں  رکھتے ہیں  انھیں  بھی صاف صاف بیان کردیں ، پھر یہ بات خود لوگوں  کی عقل پر چھوڑ دیں  کہ خواہ وہ انھیں  قبول کریں  یا نہ کریں ۔ اگر قبول کریں  تو زہے نصیب، نہ قبول کریں  تو ہمیں  اس کی کوئی پرواہ نہیں ۔ یہ دعوت و تبلیغ کا صحیح اصول ہے جسے ہمیشہ سے اربابِ عزم لوگوں  نے اختیار کیا ہے اور خود انبیاء علیہم السلام نے بھی اسی پر عمل کیا ہے۔

  میں  ایک عرصہ سے اس ضرورت کو محسوس کر رہا تھا مگر احساسِ ضرورت سے بڑھ کر عمل کی جانب کوئی اقدام نہ کرسکتا تھا، کیونکہ اس کام کیلئے بڑی فرصت درکار تھی اور فرصت ہی ایک ایسی چیز ہے جو کسی اخبار نویس کو میسر نہیں  آتی۔

  لیکن دسمبر 1926ء کی آخری تاریخوں  میں  ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس نے مجھے مشکلات سے قطع نظر کرکے اقدامِ عمل پر مجبور کر دیا۔یہ شدھی کی تحریک کے بانی سوامی شردھا نند کے قتل کا واقعہ تھا جس سے جہلاء اور کم نظر لوگوں  کو اسلامی جہاد کے متعلق غلط خیالات کی اشاعت کا ایک نیا موقع مل گیا، کیونکہ بدقسمتی سے ایک مسلمان اس فعل کے ارتکاب کے الزام میں  گرفتار کیا گیا تھا اور اخبارات میں  اس کی جانب سے یہ خیالات منسوب کئے گئے تھے کہ اس نے اپنے مذہب کا دشمن سمجھ کر سوامی جی کو قتل کیا ہے اور یہ کہ اس نیک کام کے کرنے سے وہ جنت کا امیدوار ہے۔ حقیقت کا علم تو خدا کو ہے مگر منظر عام پر جو کچھ آیا وہ یہی واقعات تھے۔ ان کی وجہ سے عام طور پر اسلام کے دشمنوں  میں  ایک ہیجان پیدا ہوگیا۔ انھوں  نے علمائے اسلام کے اعلانات اور اسلامی جرائد اور عمائد ملت کی متفقہ تصریحات کے باوجود اس واقعہ کو اس کی طبعی حدود تک محدود رکھنے کے بجائے تمام امت مسلمہ کو بلکہ خود اسلامی تعلیمات کو اس کا ذمہ دار قرار دینا شروع کر دیا اور علانیہ قرآن کریم پر اس قسم کے الزامات عائد کرنے لگے کہ اس کی تعلیم مسلمانوں  کو خونخوار و قاتل بناتی ہے، اس کی تعلیم امن و امان اور سلامتی کے خلاف ہے اور اس کی تعلیم نے مسلمانوں  کو ایسا متعصب بنا دیا ہے کہ وہ ہر کافر کو گردن زدنی سمجھتے ہیں  اور اسے قتل کرکے جنت میں  جانے کی امید رکھتے ہیں ۔ بعض دریدہ دہنوں  نے تو یہاں  تک کہہ دیا کہ دنیا میں  جب تک قرآن کی تعلیم موجود ہے، امن قائم نہیں  ہوسکتا؛ اس لئے تمام عالم انسانی کو اس تعلیم کو مٹانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ ان غلط خیالات کی نشر و اشاعت اس کثرت کے ساتھ کی گئی کہ صحیح الخیال لوگوں  کی عقلیں  بھی چکرا گئیں  اور گاندھی جی جیسے شخص نے جو ہندو قوم میں  سب سے بڑے صائب الرائے آدمی ہیں ، اس سے متاثر ہوکر بتکراراس خیال کا اظہار کیا کہ:  ’’اسلام ایسے ماحول میں  پیدا ہوا ہے جس کی فیصلہ کن طاقت پہلے بھی تلوار تھی اور آج بھی تلوار ہے‘‘۔

    اگر چہ یہ تمام خیالات کسی تحقیق اور علمی تفحص پر مبنی نہ تھے بلکہ ’’طوطی‘‘ کی طرح وہی سبق دہرایا جا رہا تھا جو ’’استادِ ازل‘‘ نے سکھا رکھا تھا، مگر ایک غیر معمولی واقعہ نے ان اوہام میں  حقیقت کا رنگ پیدا کر دیا تھا جس سے ناواقف لوگ آسانی کے ساتھ دھوکا کھا سکتے تھے؛ چونکہ ایسی عام بدگمانیاں  اشاعت اسلام کی راہ میں  ہمیشہ حائل ہوتی ہیں  اور ایسے ہی مواقع ہوتے ہیں  جن میں  اسلام کی صحیح تعلیم کو زیادہ صفائی کے ساتھ پیش کرنے کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ غبار چھنٹ جائے اور آفتابِ حقیقت زیادہ روشنی کے ساتھ طلوع ہو، اس لئے میں  نے فرصت کا انتظار چھوڑ کر اپنے اسی قلیل وقت میں  جو ترتیب اخبار سے باقی بچتا تھا پیش نظر مضمون کی تحریر و تسوید کا کام شروع کر دیا اور ساتھ ہی ساتھ اخبار ’الجمعیۃ‘ کے کالموں  میں  اس کی اشاعت بھی شروع کر دی۔ ابتدا میں  محض ایک مختصر مضمون لکھنے کا ارادہ تھا مگر سلسلۂ کلام چھڑنے کے بعد بحث کے اس قدر گوشے سامنے آتے چلے گئے کہ اخبار کے کالموں  میں  ان کا سمانا مشکل ہوگیا۔ اس لئے مجبوراً 24-23 نمبر شائع کرنے کے بعد میں  نے اخبار میں  اس کی اشاعت بند کر دی اور اب اس پورے سلسلہ کو مکمل کرکے کتابی صورت میں  پیش کر رہا ہوں ۔ اگر چہ یہ کتاب مبحث کے اکثر پہلوؤں  پر حاوی ہے، لیکن پھر بھی مجھے افسوس ہے کہ وقت کی کمی نے بہت سے مباحث کو تشنہ رکھنے پر مجبور کیا ہے اور جن مضامین کی توضیح کیلئے ایک مستقل باب کی ضرورت تھی انھیں  ایک ایک دو دو فقروں  میں  ادا کرنا پڑا ہے۔ اس کتاب میں  میں  نے خصوصیت کے ساتھ اس امر کا التزام رکھا ہے کہ کہیں  اپنے یا دوسرے لوگوں  کے ذاتی خیالات کو دخل نہیں  دیا؛ بلکہ تمام کلی و جزئی مسائل خود قرآن مجید سے اخذ کرکے پیش کئے ہیں ، اور جہاں  کہیں  ان کی توضیح کی ضرورت پیش آئی ہے؛ احادیث نبویؐ، معتبر کتب فقہیہ اور صحیح و مستند تفاسیر سے مدد لی ہے تاکہ ہر شخص کو معلوم ہوجائے کہ آج دنیا کا رنگ دیکھ کر کوئی نئی چیز پیدا نہیں  کی گئی ہے بلکہ جو کچھ کہا گیا ہے سب اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور ائمہ اسلامؒ کے ارشادات پر مبنی ہے۔

 میں  تمام ان غیر مسلم حضرات سے جو تعصب کی بنا پر اسلام سے اندھی دشمنی نہیں  رکھتے، درخواست کرتا ہوں  کہ اس کتاب میں  درج اسلام کی اصلی تعلیم جنگ کا مطالعہ کریں  اور اس کے بعد بتائیں  کہ انھیں  اس تعلیم پر کیا اعتراض ہے۔ اگر اس کے بعد بھی کسی شخص کو کچھ شک باقی ہو تو میں  اسے رفع کرنے کی پوری کوشش کروں  گا‘‘۔

تبصرے بند ہیں۔