سیکولر جمہوری تعلیمی اداروں میں ہمارا مطلوبہ کردار

ملک بھر میں سرگرم تعلیمی اداروں کو بنیادی طور پر پبلک سیکٹر اور پرائیویٹ سیکٹر میں تقسیم کیا جاسکتاہے۔ پرائیویٹ سیکٹر میں جدید تعلیمی اداروں کے ساتھ ساتھ مختلف مذاہب، نظریات اور مکاتب فکر کے تعلیمی ادارے آتے ہیں جن میں سیکولر اور غیر سیکولرسبھی شامل ہیں۔ جہاں تک پبلک سیکٹر یعنی سرکاری تعلیمی اداروں کا تعلق ہے تو پرائمری سے لے کر یونیورسٹی تک کے اعلیٰ تعلیمی اداروں کو تعلیمی نصاب اور مواد کی بنیاد پر سیکولر جمہوری تعلیمی ادارہ قرار دیا جاتا ہے۔ سیکولر جمہوری تعلیمی اداروں کی تعریف و توضیح سے قبل مناسب ہوگا کہ ملک میں رائج جمہوریت اور سیکولرزم کی تھوڑی وضاحت کردی جائے۔

جمہوریت اور تعلیمی پالیسی

15 اگست1947 ء میں انگریزوں کے تسلط سے آزاد ہو نے کے بعد ہندوستان میں آزادی، مساوات، بھائی چارہ اور انصاف کی بنیاد پر جمہوری نظام حکومت کا قیام عمل میں آیا۔ 26 نومبر 1949 کو ملک کا آئین بن کر تیار ہوا۔ 26 جنوری 1950 کو اس آئین کے نفاذ کے ساتھ ہی یہ اعلان کیا گیا کہ ہندوستان مکمل طور پر ایک خود مختار جموری ملک ہے جو تمام ہندوستانی عوام کے لئے اظہارِرائے کی آزادی، عقیدہ اور مذہب پر عمل کرنے اور اس کا پرچار کرنے کی آزادی، یکساں مواقع کی فراہمی اور تمام شہریوں میں بھائی چارے کے جذبات کو فروغ دے کر سیاسی، اقتصادی اور سماجی انصاف کے حصول کے لیے جد و جہد کرے گا۔ چونکہ ان اہداف کو حاصل کرنے کے لئے تعلیم کو سب سے اہم ٹول اور ضرورت سمجھا گیا، اس لیے آئین کی دفعہ 45 کے مطابق یہ اعلان بھی کیا گیا کہ ملک کی تمام ریاستوں میں آئین کے نافذ ہونے کی تاریخ سے دس سال سے لے کر 14چودہ سال تک کے ہر بچے کے لئے لازمی اور مفت تعلیم کا بندوبست کیا جائے گا۔ آئین کے مذکورہ بالا اہداف کو حاصل کرنے میں حکومت ہند اب تک کس حد تک کامیاب یا ناکام ہوئی ہے یہ الگ موضوع بحث ہے۔ 1948 میں ڈاکٹر رادھا کرشنن کی سربراہی میں جامعاتی تعلیمی کمیشن کے قیام کے ساتھ ہی ہندوستان میں تعلیمی نظام کو منظم کرنے کا کام شروع ہو گیا تھا۔ 1952 میں لکشمی سوامی مدالیر کی صدارت میں قائم ہوئے ثانوی تعلیمی کمیشن اور 1964 میں دولت سنگھ کوٹھاری کی صدارت میں قائم کردہ تعلیمی کمیشن کی سفارشات کی بنیاد پر 1968 میں تعلیمی پالیسی پر ایک تجویز پاس کی گئی جس میں ‘قومی ترقی کے تئیں پُرعزم، بااخلاق، باکردار اور ماہر ِ فن طلبا کو تیار کرنے کا ہدف رکھا گیا۔ اس کے بعد مئی 1986 میں نئی قومی تعلیمی پالیسی نافذ کی گئی، جو اب تک چل رہی ہے۔1986 میں ایک نئی ایجوکیشن پالیسی تیار کی گئی جس میں جمہوری و سیکولر اقدار کا خیال رکھتے ہوئے شہریت و ثقافت اور قومی اتحاد کے جذبے کو تقویت دینے، ہر سطح پر تعلیم کے نظام کی تعمیر نو کرنے، تعلیم کے معیار کو بلند کرنے، سائنس اور ٹیکنالوجی کی بنیاد پر اخلاقی اقدار کو تیار کرنے، تعلیم اور زندگی میں گہرا رشتہ قائم کرنے پر زور دیا گیا تھا۔

سیکولرزم اور سیکولر جمہوری تعلیمی ادارے

سیکولرزم کو ہندی میں ’’دھرم نرپیکش‘‘ کہا جاتا ہیجب کہ اُردو میں عموماً سیکولرازم کو لادینیت یا پھر مذہبی غیر جانبداری سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ سیکولرزم کی اصطلاح کے سلسلے میں دنیا کے مختلف ممالک اور خطوں میں الگ الگ تصورات پائے جاتے ہیں۔ مگر جس مغربی دنیا میں اس اصطلاح نے جنم لیا ہے وہاں آج بھی عملی طور پر سیکولرازم لادینیت کے ہی مترادف ہے لیکن ہندوستان میں اکثر و بیشتر مذہب کے معاملے میں غیر جانبدار ہونے کو سیکولر زم کہا جاتا ہے۔ جہاں سیکولرزم کا ایک مطلب یہ ہوتا ہے کہ حکومت کو چلانے اور ریاستی پالیسی کے تعین میں مذہب کا عمل دخل نہ ہو، وہیں اس کادوسرا مطلب یہ بھی ہوتا ہے کہ سرکاری پالیسی اور قانون کا نفاذ مذہبی تعصب سے بالا تر ہوکر کیا جائے اور سبھی مذاہب کے ماننے والوں کو ہر میدان میں یکساں مواقع فراہم کیے جائیں۔

جمہوریت اور سیکولر زم کو ملا کر جس طرح کے اغراض و مقاصد اور اہداف کا تعین کیا گیا تھا وہ ملک کے کثیر ثقافتی معاشرے کے لیے ضروری تھا۔ 1986کی ایجوکیشن پالیسی کی یہ خاصیت تھی کہ اس میں بڑی حد تک ان جمہوری اور سیکولر اقدار کا خیال رکھا گیا تھا۔ لیکن گزشتہ چند برسوں میں حالات نے بہت تیزی سے کروٹ بدلی ہے۔ ملک کے موجودہ حالات میں فرقہ پرست اور ہندوتو وادی طاقتوں نے نہ صرف زور پکڑا ہے بلکہ ملک کے سیکولر اور جمہوری اقدار پر ان کا حملہ بھی تیز سے تیز تر ہوگیا ہے۔ ان کے ہاتھوں میں اقتدار کی باگ ڈور آجانے سے حالات کی سنگینی مزید بڑھ گئی ہے۔ آر ایس ایس سے تعلق رکھنے والے وزیر اعظم نریندر مودی کے موجودہ دور اقتدار میں جہاں تعلیمی اداروں میں انتہا پسند اور ہندوتو وادی طاقتوں کی بے جا مداخلت اور دراندازی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے وہیں ملک کی تعلیمی بنیاد یعنی ایجوکیشن پالیسی اور تعلیمی نصاب پر ہی ڈاکہ ڈالنے کی تیاری چل رہی ہے۔ پونے کے فلم انسٹی ٹیوٹ سے لے کر،جواہر لعل یونیورسٹی، دہلی یونیورسٹی، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، حیدر آباد سنٹرل یونیورسٹی جیسے اعلیٰ اور مؤقر تعلیمی اداروں میں یکے بعد دیگرے رونما ہونے والے واقعات سرکاری در اندازی کے جیتے جاگتے ثبوت ہیں۔ ان اداروں میں رونما ہونے والے واقعات اس بات کے ثبوت ہیں کہ موجودہ حکومت ملک کے تعلیمی اداروں کا بھگوا کرن کرنے کی پُر زور کوشش ہو رہی ہے مگر جن اداروں کے ماحول کو اپنے رنگ میں رنگنے میں ان طاقتوں کو کامیابی نہیںحاصل ہورہی ہے یا جہاں ہندوتو طاقتوں کی پش پناہی والی حکومت کی متنازع کوششوں کی مخالفت ہورہی ہے، وہاں پر طلبا میں خوف و ہراس کا ماحول پیدا کرکے تعلیمی سرگرمیوں کو متاثر کرنے کی بھرپور کوشش کی جارہی ہے۔ مرکز میں اقتدار میں آنے کے محض چند ماہ بعد ہی دہلی یونیورسٹی اور پھر اس کے بعد حیدر آباد مرکزی یونیورسٹی میں جہاں ایک طرف ایک دلت اسکالر روہت ویمولا کو خودکشی کے لیے مجبور کیا گیا وہیں دوسری طرف جواہر لال نہرو یونیور سٹی میں کھلے عام فرضی ویڈیو کلپ کی آڑ میں طلبا کوہراساں کرنے اور ان کو ملک سے غداری جیسے سنگین الزامات میں پھنسانے کی کوشش بھی کی گئی۔ گزشتہ یوم آزادی کے موقع پر جانچ پڑتال کے بہانے جہاں جامعہ ملیہ اسلامیہ کو نشانہ بنایا گیا وہیں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کے تعلق سے مرکزی حکومت کا متعصبانہ رویہ بھی سب کے سامنے آتا رہا۔

تعلیمی اداروں میں دن بدن بڑھتی حکومت کی مداخلت یوں ہی نہیں ہے بلکہ ایسا لگتا ہے کہ یہ سب کچھ جان بوجھ کر ایک منصوبے کے تحت انجام دیا جا رہا ہے۔ مثال کے طور پر اعلیٰ تعلیمی اداروں کے اہم عہدوں پر حکومت کے ذریعہ اپنے ہم خیال و فسطائی نظریات کے لوگوں کی تقرری کرنا اور پھر ان عہدیداروں کی جانب سے کھلے عام شرپسند عناصر کی پشت پناہی کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ آنے والے وقت میں کسی بڑی تبدیلی کے لیے ماحول سازگار کیا جا رہا۔ مگر یہ بڑی تبدیلی آخر کیا ہو سکتی ہے؟ اگر غور کیا جائے تو ایک ہی بات سامنے آتی ہے وہ ’نئی ایجوکیشن پالیسی‘‘ جس کی آڑ میں حکومت اپنے بھگوا ایجنڈے کی تکمیل کرنا چاہتی ہے۔موجودہ حکومت کی جانب سے نئی ایجوکیشن پالیسی وضع کرنے کے معاملے کو بہت ہی سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے۔ مجوزہ نئی ایجوکیشن پالیسی سابقہ پالیسیوں کی طرح بالکل نہیں ہوگی، بلکہ یہ سیکولر اور جمہوری اقدار پر قائم ملک کے تمام تعلیمی اداروں کے لیے کسی خوفناک طوفان سے کم نہ ہوگی جو ان کے نصاب کو تبدیل کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے اقدار اور اغراض و مقاصد کو ہی بدل کر رکھ دے گی۔ اس مجوزہ نئی پالیسی کے اثرات سے کوئی بھی سرکاری یا نیم سرکاری تعلیمی ادارہ مستثنیٰ نہیں رہ سکے گا۔ موجودہ حکومت نئی ایجوکیشن پالیسی لاکر تعلیمی نصاب ِتعلیم اور زیر تدریس کورسوں اور مواد کو تبدیل کرکے سیکولر جمہوری تعلیمی اداروں کو مکمل طور پر بھگوا رنگ میں رنگنے کا تہیہ کرچکی ہے۔ جس کے اثرات بہت ہی دور رس ثابت ہوں گے، جو آنے والی تمام نسلوں کی سوچ اور رجحان کو بدل کر رکھ دے گی۔

مذکورہ بالا سطور میں جمہوریت اور سیکولرزم کی جو وضاحت کی گئی ہے اس کے مطابق سیکولر جمہوری تعلیمی اداروں کی تعریف کچھ اس طرح سے کی جا سکتی ہے کہ ایسے تعلیمی ادارے جن کا تعلیمی نصاب اور مواد مذہبی تعصبات، ذات پات اور جنسی امتیازات سے پاک ہو، جہاں مذہبی تعصب سے بالا تر ہوکر سبھی کو حصول تعلیم کے یکساں مواقع فراہم ہوں تاکہ جمہوری اقدار و اہداف کے حصول کو یقینی بنایا جا سکے، انھیں سیکولر جمہوری تعلیمی ادارہ کہا جا سکتا ہے۔سیکولر جمہوری تعلیمی اداروں کی تعریف سے ہی واضح ہوجاتا ہے کہ جمہوری اقدار و اہداف کی حفاظت و حصولیابی ہی ان تعلیمی اداروں کا بنیادی مقصد اور ذمہ داری ہے۔ مختصر طور پر سیکولر جمہوری تعلیمی اداروں کے مقاصد و اہداف میں جمہوری اقدار کو فروغ دینا اور ان کی حفاظت کرنا، اچھے اخلاق و خصائص کو فروغ دینا، فکری صلاحیتوں کو پروان چڑھانا، سماجی خدمت کے جذبے کو بیدار کرنا، طلبا کی شخصیت کو نکھارنا، قائدانہ صلاحیت پیدا کرنا، قومی و بین الاقوامی امور پر بیدار کرنا، اچھا شہری بننے کے لیے تربیت دینا اور ایک خوشحال زندگی کے لیے طلبا میں صنعتی، کاروباری اور فنی صلاحیتوں کو ابھارنا وغیرہ شامل ہے۔ ان تعلیمی اداروں کے کردار کو سمجھنے کے لیے مشہور ماہر تعلیم جان ڈی وی کا یہ قول بھی معاون ہوسکتا ہے کہ ’’مذکورہ بالا سطور میں جمہوریت اور سیکولرزم کی جو وضاحت کی گئی ہے اس کے مطابق سیکولر جمہوری تعلیمی اداروں کی تعریف کچھ اس طرح سے کی جا سکتی ہے کہ ایسے تعلیمی ادارے جن کا تعلیمی نصاب اور مواد مذہبی تعصبات، ذات پات اور جنسی امتیازات سے پاک ہو، جہاں مذہبی تعصب سے بالا تر ہوکر سبھی کو حصول تعلیم کے یکساں مواقع فراہم ہوں تاکہ جمہوری اقدار و اہداف کے حصول کو یقینی بنایا جا سکے، انھیں سیکولر جمہوری تعلیمی ادارہ کہا جا سکتا ہے۔سیکولر جمہوری تعلیمی اداروں کی تعریف سے ہی واضح ہوجاتا ہے کہ جمہوری اقدار و اہداف کی حفاظت و حصولیابی ہی ان تعلیمی اداروں کا بنیادی مقصد اور ذمہ داری ہے۔ مختصر طور پر سیکولر جمہوری تعلیمی اداروں کے مقاصد و اہداف میں جمہوری اقدار کو فروغ دینا اور ان کی حفاظت کرنا، اچھے اخلاق و خصائص کو فروغ دینا، فکری صلاحیتوں کو پروان چڑھانا، سماجی خدمت کے جذبے کو بیدار کرنا، طلبا کی شخصیت کو نکھارنا، قائدانہ صلاحیت پیدا کرنا، قومی و بین الاقوامی امور پر بیدار کرنا، اچھا شہری بننے کے لیے تربیت دینا اور ایک خوشحال زندگی کے لیے طلبا میں صنعتی، کاروباری اور فنی صلاحیتوں کو ابھارنا وغیرہ شامل ہے۔ ان تعلیمی اداروں کے کردار کو سمجھنے کے لیے مشہور ماہر تعلیم جان ڈی وی کا یہ قول بھی معاون ہوسکتا ہے کہ ایک جمہوری معاشرے میں ایسی تعلیم کا انتظام کرنا چاہیے جس سے ہر شخص سماجی کاموں اور تعلقات میں ذاتی طور پر دلچسپی لے سکے۔ تعلیم کو انسان میں ہر ایک سماجی تبدیلی کو مثبت طور پر قبول کرنے کی صلاحیت پیدا کرنی چاہیے۔‘‘ ظاہر سی بات ہے کہ تعلیم یافتہ ہونے پر ہی انسان اپنے اور دیگر لوگوں کے حقوق کے سلسلے میں آگاہ ہوسکتا ہے اور آگاہی کے بعد ہی عوامی مفاد کے لیے اپنی سماجی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کے لیے متحرک اور سرگرم ہوسکتا ہے۔ جس ملک کے ناخواندہ اور خوابیدہ عوام اپنے حقوق اور فرائض کو ہی نہ جانتے ہوں تو اس ملک میں اہل اقتدار کا ایک ایسا طبقہ پیدا ہوجاتا ہے جو عوام پر اپنی خواہشات کو مسلط کرنا شروع کردیتا ہے جس کی وجہ سے جمہوریت کا بنیادی مقصدہی خطرے میں پڑ جاتا ہے ۔ چونکہ جمہوری نظام حکومت میں ملک کے تمام شہری حصہ لیتے ہیں اور جمہوریت کی باگ ڈور عوام کے ہاتھ میں ہوتی ہے اسی لئے جمہوری ملک کے ہر شہری کو جہاں ایک طرف اپنے حقوق اور فرائض کا علم ہونا چاہیے وہیں دوسری طرف اس کو تعصب اور جہالت کی تاریکی سے بھی دور رہنا ضروری ہے تاکہ وہ اپنے ملک میں ایک مناسب حکومت کی تشکیل میں اپنا مطلوبہ کردار ادا کر سکیاور تمام تعصبات سے بالاتر ہوکر صحیح اور اہل افراد کو اقتدار کی کرستی تک پہنچا سکے۔

ہمارا مطلوبہ کردار

یہ کہنا بیجا نہ ہوگا کہ بے انتہا غور و خوض اور محنت و مشقت کے بعد ان سیکولر جمہوری تعلیمی اداروں کے قیام کے پیچھے جس طرح کے اغراض و مقاصد اور اہداف کو متعین کیا گیا ہے دین اسلام کے پاس وہ اقدار و مقاصد نہ صرف پہلے سے ہی موجود ہیںبلکہ ان سے کہیں زیادہ بہتر اور معیاری اقدار و مقاصد اسلام اپنے دامن میںسمیٹے ہوئے ہے۔ مزید یہ کہ اسلام نے نہ صرف زبانی طور پر اپنے اعلیٰ ترین اور معیاری اقدار و مقاصد کا دنیا کے سامنے تعارف کرایا ہے بلکہ اہلِ اسلام نے ان پر عمل کرکے دنیا کو یہ باور کرایا ہے کہ اس کے پاس ہی ایک مثالی ملک و سماج کی تعمیر کی کنجی ہے جس کے حصول کے لیے دنیا ادھر ادھر بھٹک رہی ہے۔ اسلام کے پاس زندگی کے ہر شعبے سے متعلق رہنمایانہ اصول موجود ہیں۔ سیاسیات، اقتصادیات، سماجیات کے ساتھ ساتھ حصول تعلیم سے متعلق بھی واضح ہدایات اور رہنمایانہ اصول موجود ہیں جیسا کہ قرآن کی سب سے پہلے نازل ہونے والی آیت ہی تعلیم کی اہمیت پر روشنی ڈالتی ہے۔ اس تناظر میں اگر دیکھا جائے تو مسلم طلبا کی ذمہ داری دوگنی ہوجاتی ہے۔

ملک بھر میں سرگرم جمہوری تعلیمی اداروں کی خاصیت ہی یہی ہے کہ ان میں زیر تعلیم طلبا کا تعلق مختلف مذاہب، رنگ و نسل، الگ الگ ذات برادریوں اور خطوں سے ہوتا ہے جو الگ الگ ماحول اور تہذیب و ثقافت سے ہونے کے باجود یونیوسٹیوں اور کالجوں میں ایک ہی ماحول میں ایک ساتھ پڑھتے لکھتے، اٹھتے بیٹھتے اور کھیلتے کودتے ہیں۔ ان سیکولر جمہوری تعلیمی اداروں میں مسلم طلبا کی بھی ایک اچھی خاصی تعداد موجود ہے۔ان تعلیمی اداروں میں جس طرح غیر مسلم طلبا مختلف نظریات اور ازم سے تعلق رکھتے ہیں اسی طرح مسلم طلبا بھی اسلام کے مختلف مکاتب فکر و خیال کی نمائندگی کرتے ہیں۔ جہاں غیر مسلم طلبا نے اپنے فکر و خیال کی نسبت سے اپنی اپنی طلبا تنظیمیں قائم کر رکھی ہیں وہیں مسلم طلبا تنظیمیں، تحریکیں اور جماعتیں بھی ان اداروں میں اپنا سرگرم رول ادا کر رہی ہیں۔ جمہوری تعلیمی اداروں میں مختلف رنگ و نسل اور مذہب سے تعلق رکھنے والے طلبا اور ان کی نمائندہ تنظیموں کے بیچ تعلیم حاصل کرنے والے مسلم طلبا کی ذمہ داری کہیں زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ وہ اس طرح کہ ان اداروں میں زیر تعلیم مسلم طلباکو جہاں اپنے حصول تعلیم کی ذمہ داری کو ادا کرنا ہے وہیں ان کے کندھوں پر اپنے پروردگار کی جانب سے ڈالی گئی وہ عظیم ذمہ داری بھی ہے جو ان کے پاس اسلام کی شکل موجود ہے۔ اللہ کی اس بہترین نعمت اور امانت کو دیگر طلبا تک پہنچانا مسلم طلبا کا دینی فریضہ ہے اور یہ فریضہ کسی بھی حال میں ساقط نہیں ہوسکتا۔ مسلم طلبا کے لیے ضروری ہے کہ اسلامی اخلاق و اقدار کو اپنی زندگی میں عملی طور پر نافذ کریں تاکہ وہ اپنے کردار و عمل کے ذریعہ اللہ کی اس امانت کو اپنے ساتھی طلبا تک پہنچا سکیں اور انھیں یہ پیغام دے سکیں کہ دیکھو ایک باعمل مسلمان سراپا خیر ہوتا ہے۔ اسلامی اخلاق و اقدار کا عملی نفاذ ہی وہ پہلا مرحلہ ہے جس سے آپ دوسروں کو اسلام کی طرف متوجہ اور راغب کر سکتے ہیں۔ اگر آپ کی زندگی میں دین اسلام نہیں ہے، آپ کے گفتار و کردارمیں تضاد ہے، آپ اپنی زبان سے اسلام کی تسبیح پڑھتے ہیں اور عمل سے طاغوت اور باطل کی ترجمانی کرتے ہیں تو کوئی بھی آپ کی باتوں پر کان نہیں دھرے گا۔ اس لیے ضروری ہے کہ مسلم طلبا پہلے خود کی زندگی میں اعلیٰ اسلامی اصول و اقدار کا نفاذ کرکے عملی مظاہرہ کریں۔ تحریکی طلبا کو یہ بات بھی ذہن نشین ہونی چاہئے کہ اسلامی اخلاق و اقدار پر محض عمل کرنے سے ہی ملّی اور دینی ذمہ داری مکمل نہیں ہوجاتی ہے بلکہ اپنی زندگی میں اسلام کے نفاذ کے بعد ہمارے لیے ضروری ہے ہم اپنی زبان سے، منصوبہ بند طریقے سے، تحریکی انداز میں دیگر طلبا کے سامنے اسلام کا تعارف پیش کریں، انھیں اسلام کی خوبیوں سے روشناس کرائیں اور اسلام کے تئیں ان کی غلط فہمیوں کا ازالہ کریں۔ ان اداروں میں زیر تعلیم مسلم طلبا اور تحریکی ساتھیوں کو چاہئے کہ ہر وقت اپنے طلبا ساتھویں کی مدد کے لیے تیار رہیں اور ہر اچھے اور خیر کے کام میں ان کا ساتھ دیں۔ مسلم طلبا کو چاہئے کہ وہ اپنے اخلاق و کردار کو اتنے بلند مقام تک لے جائیں جہاں سے ان میں اور دیگر طلبا میں نمایاں فرق دکھائی دینے لگیاور وہ ساتھیوں میں ایک مثال بن جائیں۔ تحریکی طلبا کو چاہئے کہ وہ اپنی تحریکی و دینی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ مسلم اور غیر مسلم تنظیموں، جماعتوں اور تحریکوں کے درمیان کوآرڈینیشن پیدا کرنے اور ان کے درمیان ایک پل قائم کرنے کی کوشش کریں تاکہ سیکولر تعلیمی اداروںکے جمہوری اور پرسکون ماحول کو برقرار رکھا جا سکے۔تحریکی طلبا پر یہ اضافی ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے کہ وہ فسطائی طاقتوں اور ان کے خوفناک ارادوں کے تعلق سے اپنے طلبا ساتھیوں کے درمیان بیداری پیدا کرنے اور انھیں پیش آئند حالات سے نبرد آزما ہونے کے لیے تیار کرنے میں بھی اپنا رول ادا کریں۔

ای میل: imamuddinalig@gmail۔com

موبائل نمبر: 8744875157

 

تبصرے بند ہیں۔