مصارف زکات – (قسط 2)

مدارس کے سفراء اور محصلین
زکات کی وصولی اور تقسیم کا اصل اختیار اسلامی حکومت ہی کو ہے، امیرالمومنین کی طرف سے وصولی زکات کے کام کے لئے مقرر شخص ہی اصلاً عامل کہا جائے گا، لیکن کہیں مسلمانوں کی حکومت اور سلطنت قائم نہ ہو تو وہاں زکات کی وصولی اور تقسیم کا نظم کیا ہوگا؟ کیا کسی غیر سرکاری ادارے کو یہ حق حاصل ہے کہ اپنے طور پر زکات کی جمع وتقسیم کا انتظام وانصرام کرے، نیز کیا اس ادارے کی طرف سے متعین کردے وہ کارکن’’عامل‘‘ کے حکم میں ہوں گے؟

اس سوال کے جواب سے پہلے ہمیں اس پر غور کرنا چاہئے کہ زکات کی وصولی اور تقسیم کے لئے حکومت وسلطنت کی شرط لازمی ہے یا انتظامی، کہ کوئی دوسرا بھی اس کے قائم مقام ہوسکتاہے؟ ظاہر ہے کہ یہ شرط انتظامی ہے، لازمی اور ضروری نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ جمعہ اور عیدین کے لئے عام طور پر کتابوں میں سلطان یا اس کے نائب کی قید لگائی گئی ہے لیکن لیکن بھارت جیسی جگہوں میں ان شرطوں کی ضرورت نہیں سمجھی گئی ہے، اور باہمی مشورہ اور اہل مسجد کی طرف سے متعین کردہ امام کو سلطان کے قائم مقام سمجھا گیا ہے، ایسے ہی قاضی کی تقری بھی سلطان کے اختیار ات میں ہے لیکن جہاں مسلمانوں کی حکومت نہ ہو وہاں مسلمان باہمی رضامندی سے جسے قاضی بنالیں وہ قاضی ہوسکتاہے۔ غرضیکہ اگر کسی وجہ سے کسی حکم کو اس کے مطلوبہ معیار کے مطابق روبہ عمل نہیں لایا جاسکتا ہے تو اسے بالکل ترک کی اجازت نہیں ہوتی ہے بلکہ جس شکل میں بھی ہوسکے بوقت ضرورت اس پر عمل کیا جاتا ہے، فقہ اسلامی میں اس کی بہت سی مثالیں ملتی ہیں،لہٰذا جن جگہوں پر اسلامی نظام کے مطابق حکومت قائم نہیں ہے وہاں کے مسلمانوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے طور پر زکات کی وصولی اور تقسیم کے لئے کوئی ادارہ قائم کریں تاکہ ایک حد تک اجتماعی شان باقی رہے، بہتر تو یہ ہے کہ اس کام کے لئے اجتماعیت کو باقی رکھنے کے مقصد سے صرف ایک ہی ادارہ قائم کیا جائے، البتہ اگر یہ صورت ممکن نہ ہو توپھر ایک سے زائد ادارے قائم کئے جاسکتے ہیں جو اپنے اپنے دائرۂ اعتماد میں رہ کر اس فریضہ کو انجام دیں۔ لیکن وصولی زکات اور چندہ کے موجودہ نظام کی کسی بھی حیثیت سے تائید نہیں کی جاسکتی ہے کہ اس نے تو اس اجتماعی نظام کا تصور ہی مٹا کر رکھ دیاہے، اوراس کی وجہ سے علماء اور اہل مدارس کی جو بے وقعتی اور آپسی نزاع کی جو کیفیت ہے وہ محتاج بیان نہیں ہے۔
حاصل یہ ہے کہ جن جگہوں پر اسلامی نظام حکومت نہ ہوں وہاں پبلک اداریاپنے طور پر وصولی زکات کا نظم کرسکتے ہیں، بلکہ کرنا چاہئے، اور ممکن حد تک اس نظام میں اجتماعی شان مطلوب اور مقصود ہے، لہٰذا اس سلسلہ میں گروہ بندی اور انتشار سے بچ کر ایک اجتماعی ادارہ قائم کرنا چاہئے، چنانچہ مفتی کفایت اللہ لکھتے ہیں:
زکات وعشر وغیرہ فرائض مالیہ کا وجوب جن حکم شرعیہ اور مصالح بشریہ پر مبنی ہے ان کا تقاضا ہے کہ ادائے زکات وعشر اور مستحقین پر ان کی تقسیم میں تنظیم کا کامل لحاظ رکھا جائے اور ظاہر ہے کہ انفرادی تصرفات میں تنظیم مفقود ہوتی ہے، اس غلامی کے دور میں جو تفریق اور تشتت کا دور ہے امکانی صورت یہی نظر آتی ہے کہ اہل حل وعقد کی کوئی جماعت اس کام کو اپنے ہاتھ میں لے ۔(22)
اور اس ادارہ کی طرف سے متعین کردہ کارکن ایک طرح سے عامل کے حکم میں ہوں گے اور انھیں اس مد سے تنخواہ دینا درست ہے کیونکہ عاملین زکات دہندہ کے وکیل تو ہوتے ہی ہیں، ساتھ ہی وہ فقراء کے بھی وکیل ہوتے ہیں، چنانچہ ایک زمانہ میں علماء ہند کے درمیان یہ مسئلہ زیربحث رہا کہ مدارس کے مہتمم زکات دہندہ کے وکیل ہیں یا طلباء کے یا دونوں کے؟ زکات دہندہ کے وکیل ہونے پر سب متفق تھے،لیکن طلباء کے وکیل ہیں یا نہیں؟ اس سلسلہ میں اختلاف رائے رہا، حضرت مولانا رشیداحمد گنگوہی کا خیال تھا کہ
مہتمم مدرسہ کا،قیم ونائب جملہ طلباء کا ہوتاہے، جیسا امیر،جملہ عالم کا ہوتا ہے، پس جو شئ کسی نے مہتمم کو دی، مہتمم کا قبضہ خود طلبہ کا قبضہ ہے، اس کے قبضہ سے ملک معطی سے نکلا اور ملک طلبہ ہوگیا، اگرچہ وہ مجہول الکمیت والذوات ہوں مگر نائب معین ہے، اور مہتمم بعض وجوہ میں وکیل معطی کا بھی ہوسکتا ہے ۔(23)
حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوری بھی اسی کے قائل تھے اور حضرت تھانوی سے ان کی طویل مراسلت ہوئی ہے، جس کے بعد وہ بھی اسی رائے پر مطمئن ہوگئے (24) گویا کہ عام طور پر علماء نے مہتمم مدرسہ کو طلباء کا وکیل تسلیم کرلیا ہے اور یہ بات بھی کسی پر پوشیدہ نہیں ہے کہ عامل کو مد زکات سے تنخواہ اس لئے دی جاتی ہے کہ وہ فقراء کے کام کے لئے اپنا وقت لگاتاہے، لہٰذا جب مہتمم مدرسہ طلبہ کے وکیل ہوگئے تو ان کی طرف سے اس کام کے لئے مامور شخص کو مد زکات سے تنخواہ دینی جائز ہے، اور ان سفراء ومحصلین کو زکات دے دینے سے زکات دہندہ کی ذمہ داری ختم ہوجائے گی، چنانچہ مفتی کفایت اللہ لکھتے ہیں:
زکات کی رقم وصول کرکے لانے والوں کو اس رقم میں سے اجرت عمل دینے کی گنجائش ہے خواہ وہ غنی ہوں مگر کسی حال میں ان کی وصول کی ہوئی رقم کے نصف سے زیادہ نہیں دی جائے گی۔ (25)
مولفۃ القلوب
زکات کا چوتھا مصرف ’’مولفۃ القلوب‘‘ ہے، یعنی وہ لوگ جن کی دلجوئی کی جائے جنھیں اسلام سے مانوس کرنا اور اسلام پر ثابت قدم رکھنا مقصود ہو، اس کے دائرے میں درج ذیل قسم کے لوگ شامل سمجھے جاتے ہیں۔
1۔ غیرمسلم روسا اور لیڈر جن کے متعلق امید ہوکہ وہ اس طرح کے تعاون سے اسلام کی طرف مائل ہوں گے۔
2۔ وہ با اثر اور طاقت ور غیرمسلم جس کے اسلام کی امید نہ ہو لیکن اگر کچھ مالی تعاون کردیا جائے تو اسلام اور مسلمان اس کے شر سے محفوظ رہیں گے۔
3۔ وہ نو مسلم جس کا ایمان کمزور ہو، اس مد سے اعانت کے ذریعہ انھیں اسلام پر ثابت قدم رکھا جائے۔
4۔ وہ مسلمان جو بذات خود راسخ الاعتقاد ہیں لیکن ان کی اعانت سے ان جیسے دوسرے کافر سرداروں کے ایمان لانے کی امید ہو۔
5۔ وہ مسلمان روسا جو اپنے علاقے میں اصولی زکات کے لئے عاملین کو مدد دیں اور سرحدی علاقوں میں دشمن کے خطرات سے محفوظ رکھنے میں حکومت کے ساتھ تعاون کریں ۔(26)
عام طور پر فقہاء اور محدثین نے ان تمام قسموں کو ’’مولفۃ القلوب‘‘ کے دائرہ میں شامل مانا ہے، لہٰذا کافر اور غیرمسلم کو بھی مذکورہ مقاصد کے حصول کے لئے زکات کی رقم دی جاسکتی ہے، ان کے پیش نظر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ طرز عمل ہے۔
1۔ امام مسلم اور ترمذی وغیرہ نے صفوان بن امیہ کے حوالے سے روایت کی ہے، وہ کہتے ہیں کہ
واللہ لقد اعطانی النبی صلی اللہ علیہ وسلم وانہ لا بغض الناس الی فمازال یعطینی حتی انہ لاحب الناس الی۔
اللہ کی قسم، نبی صلی اللہ علیہ وسلم مجھ پر نوازش کرتے رہے حالانکہ وہ میرے نزدیک سب سے ناپسندیدہ تھے لیکن اس لگاتار نوازش کی وجہ سے وہ میرے لئے سب سے زیادہ محبوب بن گئے ۔(27)
حالانکہ صفوان ابھی ایمان نہیں لائے تھے، ان عطایا کے ملنے کے بعد اسلام قبول کیا اور راسخ مسلمان ہوئے۔
2۔ عن انس ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لم یکن یسال شئیا علی الاسلام الا اعطاہ قال فاتاہ رجل فسالہ فامرلہ بشیاہ کثیرۃ بین جبلین من شاۃ الصدقۃ قال فرجع الی قومہ فقال یا قوم اسلموا فان محمدا یعطی عطاء من لا یخشی الفاقہ، رواہ احمد باسناد صحیح(28)
حضرت انس سے روایت ہے کہ اسلام کے نام پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جو مانگا جاتا عطا کردیتے، حضرت انس کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایک شخص نے آپ سے سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ صدقات کی بکریاں جو دوپہاڑوں کے درمیان کثیر تعداد میں تھیں اسے دے دیا جائے وہ آدمی اپنی قوم کے پاس گیا اور کہا لوگو! مسلمان ہوجاؤ کیونکہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم فقروفاقہ کے خوف سے بے نیاز ہوکر دادودہش کرتے ہیں،امام احمد نے اس کو صحیح سند کے ساتھ روایت کی ہے، بظاہر معلوم ہوتاہے کہ آنے والا غیرمسلم تھا۔
3۔ عن ابن عباس ان قوما کانوا یاتون النبی صلی اللہ علیہ وسلم فان اعطاہم من الصدقات مدحوا الاسلام وقالوا ہذا دین حسن وان منعہم ذموا عابوا۔
عبداللہ بن عباس سے روایت ہے کہ کچھ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا کرتے تھے اور اگر انھیں صدقات کی رقم سے کچھ دے دیا جاتا تو اسلام کی اچھائی بیان کرتے اور کہتے کہ یہ بہتر دین ہے اور اگر نہ دیا جائے تو برائی اور عیب جوئی کرتے۔ (29)
4۔ کافرومشرک کو اسلام کی طرف مائل کرنے اور مسلمانوں کو ان کے شر سے محفوظ رکھنے کے لئے زکات دینا درحقیقت ایک طرح سے جہاد ہے، کیونکہ مشرک وکافر تین طرح کے ہوسکتے ہیں کچھ تو وہ ہیں جو دلیل کے ذریعہ مطمئن ہوکر اسلام میں داخل ہوتے ہیں، بعض ایسے ہیں جو قوت وطاقت کی زبان سمجھتے ہیں، اور چند ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے لئے سکون کے جھنکار ہی میں کشش ہوتی ہے، وہ نوازش اور احسان کی وجہ سے اسلام قبول کرسکتے ہیں، لہٰذا مالی تعاون کے ذریعہ انھیں اسلام کی طرف مائل کرنا ایک طرح سے جہاد ہے ۔(30)
اس برخلاف امام شافعی کی رائے ہے کہ مولفۃ القلوب کے حکم میں کافر ومشرک شامل نہیں ہیں، وہ کہتے ہیں کہ
مولفۃ القلوب وہ لوگ ہیں جو اسلام میں داخل ہوچکے ہیں، اور کسی مشرک کو اسلام کی طرف مائل کرنے کی غرض سے زکات نہیں دیا جائے گا، اگر کوئی کہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تو فتح حنین کے موقع پر بعض مشرکوں کو دیا تھا، ہم اس کے جواب میں کہیں گے کہ مال زکات سے نہیں دیا گیا تھا بلکہ انھیں مال فئ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مخصوص مال سے دیا گیا تھا۔ (31)
وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ زکات ایک مالی عبادت ہے جو مسلمان سے حاصل کیا جاتاہے اور مسلمانوں ہی میں خرچ کیا جائے گا، غیر مسلم اس کے حقدار نہیں ہیں، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
توخذ من اغنیاء ہم فترد الی فقراء ہم۔
زکات مسلمان مالداروں سے لی جائے گی اور انھیں کے فقیروں میں اسے خرچ کیا جائے گا (32)
اور کسی روایت سے ثابت نہیں ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کافر کو اسلام کی طرف مائل کرنے کے لئے زکات کی رقم سے دیا ہو ۔(33) اور جن روایتوں سے بعض کافروں کو بطور تالیف قلب دینا ثابت ہے ان میں صراحت ہے کہ یہ رقم غنیمت سے دی گئی تھی اور زکات کی رقم سے دینا ثابت نہیں ہے، چنانچہ رافع بن خدیج سے مروی ہے کہ
ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم قسم غنائم حنین فاعطی ابا سفیان بن حرب ماءۃ من الابل وصفوان بن امیۃ وعینیۃ بن الحصن الخ
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’حنین‘‘ کی غنیمت کو تقسیم کیا تو سفیان بن حرب، صفوان بن امیہ اور عینیہ بن حصن کو سو سو اونٹ دیا۔ (34)
ایسے ہی امام ترمذی نے صفوان بن امیہ کے حوالے سے لکھاہے کہ
اعطانی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یوم حنین وانہ لا بعض الخلق فما زال یعطینی حتی انہ لاحب الخلق الی (35)
بلکہ بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے مال غنیمت سے بھی جن لوگوں کو دیا گیا وہ غیرمسلم نہیں بلکہ نومسلم تھے چنانچہ حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ…..اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
فانی اعطی رجالا حدیثی عہد بکفر اتالفہم
میں دلجوئی کے مقصد سے بعض نومسلموں کو مال دیتا ہوں (36)
امام قرطبی نے ان لوگوں کے ناموں کو تفصیل سے لکھاہے جنھیں رسول اللہ ﷺ نے مال غنیمت سے دیا تھا،اس کے بعد وہ لکھتے ہیں، یہ تمام لوگ مومن تھے،ان میں کوئی کافر نہ تھا ۔(37)
اور جن صاحب کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقات کی بکریاں دی تھیں ان کے مسلمان ہونے کے امکان کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتاہے، نیز اس روایت میں یہ بھی واضح نہیں ہے کہ وہ بکریاں بطور صدقات نافلہ جمع تھیں یا واجبہ اور حضرت ابن عباس کی روایت میں خود وضاحت ہے کہ وہ لوگ مسلمان تھے لیکن ان کے دلوں میں اسلام راسخ نہیں تھا،چنانچہ ابن جریر طبری نے انپی سند کے ساتھ نقل کیا ہے:
حضرت عبداللہ ابن عباس سے روایت ہے کہ مولفُ القلوب سے مراد وہ لوگ ہیں جو اسلام لاچکے تھے، وہ اللہ کے رسول ﷺ کے پاس آتے اور آپ انھیں صدقات میں سے دیا کرتے تھے (38)
حقیقت یہ ہے کہ جن لوگوں کو مال غنیمت سے دیا گیا تھا یہ وہ لوگ تھے جن کی معاشی حالت مسلسل جنگوں کی وجہ سے بکھر گئی تھی، فتح مکہ نے اس کی رہی سہی کسر پوری کردی، یہ وہ سردار تھے جو بڑی شان وشوکت اور مال ودولت کے مالک تھے لیکن اس وقت ان کی سرداری مٹی میں مل چکی تھی، اور گرچہ وہ اسلام قبول کرچکے تھے، اس کی صداقت پر ایمان لاچکے تھے،ان کا ایمان جبر ودباؤ کے زیرِ اثر نہیں تھا بلکہ انھوں نے اسلام کی فطری قوت وطاقت سے متاثر ہوکر اطاعت قبول کی تھی تاہم ان کے دل میں یہ خیال آسکتا تھا کہ اسلام ہی کی وجہ سے انھیں آج یہ دن دیکھنا پڑا ہے، اس لئے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں اتنا کچھ دے دیا کہ ان کی معاشی حالت میں سدھار ہوسکے اور وہ ماضی کے واقعات کو فراموش کردیں، جیسا کہ صحیح مسلم کی حدیث میں یہ صراحت مذکور ہے….. ورنہ تو مال ودولت کے کسی کے عقیدہ وضمیر کا سودا کرنے، غریب عوام کی غربت کی مجبوری سے فائدہ اٹھاکر مالی امداد کے ذریعہ کسی دین ومذہب کی طرف مائل کرنے کی کوشش کو سراہا نہیں جاسکتاہے، اور نہ ہی اس سے کسی بہتر تبدیلی کی امید کی جاسکتی ہے، اور اشاعت اسلام کے لئے مالی امداد کی بیساکھی کی ضرورت نہ کبھی رہی ہے اور نہ رہے گی، اسلام کا دامن اس طرح کی آلودگی سے پاک وصاف ہے، اشاعت اسلام اور دین کی تبلیغ کے لئے اس طرح کے ہتھکنڈوں کو استعمال کرنا’’اکراہ‘‘ میں داخل ہے، اور قبول اسلام کے سلسلہ میں کسی طرح کا جبر واکراہ درست نہیں ہے۔
مولفُ القلوب کے ذیل میں داخل بقیہ تینوں قسموں کو… بشرطیکہ وہ مالدار ہوں… بھی زکات کے مد سے دینا کسی صحیح حدیث یا خلفائے راشدین کے عمل سے ثابت نہیں ہے، چنانچہ اس سلسلہ میں عام طور پر یہ دلیل پیش کی جاتی ہے۔
انہ صلی اللہ علیہ وسلم اعطی عدی بن حاتم والزبر ثانی بن بدر۔
حافظ ابن حجرعسقلانی نے اس روایت کے متعلق لکھاہے کہ اس کی کوئی اصل نہیں ہے … امام شافعی نے اسے حضرت ابوبکر کی طرف منسوب کیاہے کہ
ان عدی بن حاتم جاء ابی بکر الصدیق بثلاث مأۃ من الابل من صدقات قومہ فاعطاہ ابوبکرؓ ثلاثین بعیراً۔
لیکن یہ روایت بھی بے سند ہے۔(39)
اس کے برخلاف صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ زکات کی رقم مالداروں کو نہیں دی جائے گی، علاوہ چند قسم کے لوگوں کے ، چنانچہ حضرت معاذ بن جبل کی حدیث گزرچکی ہے کہ زکات مالداروں سے وصول کی جائے گی اور فقیروں پر خرچ ہوگا، نیز ایک دوسری حدیث میں ہے کہ
لا تحلّ الصدقۃ لغنی الا فی سبیل اللہ او ابن السبیل او جار فقیر یتصدق علیہ فیہدی لک (40)
مالدار کے لئے صدقہ حلال نہیں ہے، سوا اس شخص کے جو اللہ کے راستے میں ہو یا مسافر ہو یا کوئی کسی فقیر کا پڑوسی ہو اور اس فقیر کو صدقہ دیا جائے جسے وہ مالدار پڑوسی کو بطور تحفہ دے دے۔
اس حدیث میں مولفۃ القلوب کا تذکرہ نہیں ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس رقم سے کسی مالدار مولفۃ القلوب کو نہیں دیا جائے گا،لہٰذا صحیح یہ معلوم ہوتا ہے کہ مولفۃ القلوب سے مراد وہ غریب اور محتاج نو مسلم ہیں جن کے متعلق اندیشہ ہو کہ اگر مالی تعاون نہ کیا جائے تو معاشی پریشانی کی وجہ سے ان کا ایمان پر باقی رہنا دشوار ہے، ان کی طرف خصوصی توجہ دلانے کے لئے علیٰحدہ سے ان کا تذکرہ کیا گیا ہے، یہ ایسے ہی ہے جیسے کہ عام کے بعد خاص کا ذکر کیا جاتا ہے۔
اس تفصیل کے بعد اسے منسوخ ماننے کی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی ہے اور نہ یہ کہنے کی حاجت ہے کہ انھیں ایک مخصوص مقصد کے تحت دیا جاتا رہا اور غلبۂ اسلام کی وجہ سے وہ مقصد باقی نہیں رہا بلکہ یہ مصرف کبھی ختم نہیں ہوا، اب بھی باقی ہے اور تا قیامت باقی رہے گا اور اس قسم کے باقی رہنے پر تمام فقہاء کا اتفاق ہے۔
واضح رہے کہ امام ابوحنیفہ،مالک اور احمد بن حنبل کے نزدیک’’مولفۃ القلوب‘‘ میں کافر بھی شامل ہیں۔ لہٰذا ان کی دلجوئی اور انھیں اسلام کی طرف مائل کرنے یا ان کے شر سے محفوظ رکھنے کے لئے زکات کی رقم دی جاتی تھی، ان حضرات کے دلائل کا تذکرہ تفصیلی طور پر گذر چکا ہے، لیکن امام ابوحنیفہ اور امام مالک اس بات کے قائل ہیں کہ آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں عددی قوت حاصل کرنے کے مقصد سے کفار کو اسلام کی طرف مائل کرنے کے لئے زکات کی رقم دی جاتی تھی، آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جب مسلمانوں کو غلبہ اور قوت حاصل ہوگئی تو اب اس طرح کی تدبیر کی ضرورت باقی نہیں رہی۔
اس رائے کے مطابق آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں کفار کو ایک خاص مقصد کے تحت زکات دی جاتی تھی اور اب وہ مقصد باقی نہیں رہا، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کبھی وہ حالات پیدا ہوجائیں تو پھر انھیں زکات کی رقم دی جاسکتی ہے۔
امام احمدبن حنبل کے نزدیک مولفۃ القلوب کے دائرے میں کافر بھی شامل ہیں، اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی انھیں زکات کی رقم اسلام کی طرف مائل کرنے کے لئے دی جائے گی (41) فقہ مالکی میں بھی اسی کو ترجیح حاصل ہے (42) اور علامہ ابن رشد نے امام ابوحنیفہ اور شافعی کی رائے کے اسی کے مطابق نقل کی ہے(43) جوحضرات اس حکم کو اب باقی نہیں سمجھتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ حضرت فاروق اعظم کے پاس ’’مولفۃ القلوب‘‘ میں سے عینیہ بن حصن اپنا حصہ لینے آئے تو انھوں نے فرمایا:
الحق من ربکم فمن شاء فلیومن ومن شاء فلیکفر ای لیس الیوم مولفۃ (44)
معلوم ہوا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم انھیں ایک مقصد کے تحت دیا کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد وہ مقصد نہیں رہا اس لئے فاروق اعظم نے انھیں دینے سے انکار کردیا۔
بعض فقہاء کا خیال ہے کہ حضرت عمر کے اس عمل پر صحابہ نے سکوت اختیار کیا، لہٰذا یہ ایک اجماعی فیصلہ ہوا اور اس کے ذریعہ سے مولفۃ القلوب کا حکم منسوخ ہوگیا، لیکن یہ ایک غلط تاویل ہے اس سے اتفاق نہیں کیا جاسکتاہے،علامہ بابرتی حنفی وغیرہ نے اس خیال پر تنقید کی ہے اور کہا ہے کہ ولیس بصحیح من المذہب کیونکہ کتاب اللہ کی کوئی آیت آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہی میں منسوخ ہوسکتی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اجماع وغیرہ کے ذریعہ اسے منسوخ نہیں کیا جاسکتاہے، بعض حضرات نے مذکورہ آیت فمن شاء فلیومن کے ذریعہ سے منسوخ مانا ہے لیکن یہ بھی درست نہیں ہے کیونکہ یہ آیت تو مکی ہے جبکہ آیت مصارف مدنی ہے،نیز ان دونوں آیتوں میں کوئی تعارض بھی نہیں کہ نسخ ماننے کی ضرورت پیش آئے اور نہ ہی حضرت عمر کے طرز عمل میں اس کی کوئی دلیل ہے کیونکہ عینیہ بن حصن حضرت عمر سے زکات لینے نہیں آئے تھے بلکہ زمین کی درخواست لے کر آئے تھے، کچھ لوگوں نے حضرت معاذ کی حدیث توخذ من اغنیاء ہم الخ کو ناسخ مانا ہے، لیکن یہ بھی غلط ہے کیونکہ ایسی صورت میں تو فقیر کے سوا تمام مصارف منسوخ کرنا لازم آئے گا، نیز آیت وحدیث میں کوئی تعارض بھی نہیں ہے کہ منسوخ ماننے کی ضرورت پیش آئے۔
جو حضرات اس حکم کو اب بھی باقی سمجھتے ہیں ان کی دلیل یہ ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن میں مولفۃ القلوب کے حصے کو بیان فرمایا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کے مطابق زندگی بھر مولفۃ القلوب کو دیتے رہے، اور نسخ کے لئے کتاب وسنت میں کوئی دلیل موجود نہیں ہے (45) ….. لیکن جیسا کہ ہم بیان کرچکے ہیں کہ کسی کی روایت میں صراحت نہیں ہے کہ کسی کافر کو اسلام کی طرف مائل کرنے کے لئے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے زکات کی رقم دی ہو، اس لئے صحیح یہی ہے کہ کافر’’مولفۃ القلوب‘‘ کے حکم میں شامل نہیں ہیں، اس لئے نہ تو نسخ کی ضرورت ہے اور نہ یہ کہنے کی حاجت ہے کہ پہلے ایک مقصد کے تحت دیا جاتا تھا اب وہ باقی نہیں ہے۔

حواشی:

(22)کتاب العشر والزکات /107عبدالصمد رحمانی (23)تذکرۃ الرشید /132

 (24)فتاویٰ مظاہر علوم 1/319 (25)کفایت المفتی 4/269
(26)تفسیر ابن کثیر 2/451، المجموع 6/196، غایۃ المنتھی وشرحہ 2/141 (27)تفسیر ابن کثیر 2/451
(28)نیل الاوطار 4/166 (29)جامع البیان 10/161
(30)الجامع لاحکام القرآن 8/179(31) الام 2/61(32)رواہ الجماعۃ ، نیل الاوطار 4/114 (33) دیکھئے معارف القرآن 4/401
(34)صحیح مسلم 2/738، حدیث 138(35)سنن ترمذی مع تحفۃ الاحوذی 2/269، نیز صحیح مسلم 4/1806، کتاب الفضائل حدیث 59(36)صحیح مسلم 3/434، حدیث 132
(37)الجامع لاحکام القرآن 8/181 (38) جامع البیان 10/161
(39)ارواء الغلیل 3/370
(40)نیل الاوطار 4/169، روایت اسنادی حیثیت سے صحیح ہے۔ دیکھئے المجموع 6/206، ارواء الغلیل / 377۔378
(41)المغنی 4/124(42)مواھب الجلیل 1/425(43)جامع البیان 10/163(44)اعنایۃ علی ھامش الفتح 3/201
(45)المغنی 4/124

(مضامین ڈیسک)

تبصرے بند ہیں۔