قرآن کا پیغام والدین کے نام – خطرات میں والدین کیا کریں؟ (4)

’’وَاَوْحَیْنَااِلٰی اُمِّ مُوْسیٰ اَنْ اَرْضِعِیْہ فَاِذَا خِفْتِ عَلَیْہِ فَاَلْقِیْہِ فِیْ الْیَمِّ وَلاَ تَخَافِیْ وَلاَ تَحْزَنِیِ اِنَّا رَآدُّوْہُ اِلَیْکِ وَ جَاعِلُوْہُ مِنْ الْمُرْسَلِیْنَ فَالْتَقَطَہُ اٰلُ فِرْعَوْنَ لِیَکُوْنَ لَھُمْ عَدُوَّا وَّ حَزَناً۔ اِنَّ فِرْعَوْنَ وَ ھَامٰنَ وَ جُنُوْدَھُمَا کَانُوْا خٰطِئین وَقَالَتِ امْرَاَتُ فِرْعَوْنَ قُرَّتَ عَیْنٍ لِیْ وَلَکَ لاَ تَقْتُلُوْہُ عَسیٰ اَنْ یَّنْفَعَنَا اَوْ نَتَّخِذَہُ وَلَداً وَّ ھُمْ لاَ یَشْعُرُوْنَ وَ اَصْبَحَ فُءَوادُ اُمِّ مُوْسیٰ فٰرِغا۔ اِنْ کَادَتْ لَتُبْدِیْ بِہٖ لَوْ لَآ اَنْ رَّبَطْنَا عَلیٰ قَلْبِھَا لِتَکُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنْ وَقَالَتْ لِاُخْتِہٖ قُصِّیْہ فَبَصُرَتْ بِہٖ عَنْ جُنُبٍ وَّ ھُمْ لاَ یَشْعُرُوْنَ۔ وَ حَرَّمْنَا عَلَیْہِ الْمَرَاضِعَ مِنْ قَبْلُ فَقَالَتْ ھَلْ اَدُلُّکُمْ عَلیٰ اَھْلِ بَیْتٍ یَّکْفُلُوْنَہُ لَکُمْ وَ ھُمْ لَہُ نٰصِحُوْنَ فَرَدَدْنٰہُ اِلیٰ اُمِّہٖ کَیْ تَقَرَّعَیْنُھَا وَلاَ تَحْزَنْ وَ لِتَعْلَمَ اَنَّ وَعْدَ اﷲِ حَقٌّ وَ لٰکِنَّ اَکْثَرُھُمْ لاَ یَعْلَمُوْنَ‘‘ (القصص: 7۔13)
ترجمہ:151 ’’ہم نے موسیٰ کی ماں کو اشارہ کیا کہ اسے دریا میں ڈال دے اور کچھ خوف و غم نہ کر، ہم اسے تیرے ہی پاس لے آئیں گے‘اور اس کو پیغمبر میں شامل کریں گے۔آخر کار فرعون کے گھر والوں نے اسے (دریا سے) نکال لیا تاکہ وہ ان کا دشمن اور ان کے لئے سبب رنج بنے، واقعی فرعون اور ہامان اور ان کے لشکر (اپنی تدبیر میں) بڑے غلط کار تھے۔ فرعون کی بیوی نے (اُس سے )کہا ’یہ میرے اور تیرے لئے آنکھوں کی ٹھنڈک ہے، اسے قتل نہ کرو، کیا عجب کہ یہ ہمارے لئے مفید ثابت ہو، یا ہم اسے بیٹا ہی بنا لیں‘اور وہ انجام سے بے خبر تھے۔اُدھر موسیٰ کی ماں کا دل اڑا جارہا تھا۔ وہ اس کا راز فاش کر بیٹھتی اگر ہم اس کی ڈھارس نہ بندھادیتے تاکہ وہ (ہمارے وعدے پر) ایمان لانے والوں میں سے ہو۔ اُس بچے کی بہن سے کہا اس کے پیچھے پیچھے جا، چنانچہ وہ الگ سے اس کو اس طرح دیکھتی رہی کہ (دشمنوں کو) اس کا پتہ نہ چلا،اور ہم نے بچے پر پہلے ہی دودھ پلانے والیوں کی چھاتیاں حرام کررکھی تھیں۔(یہ حالت دیکھ کر) اُس لڑکی نے اُن سے کہا ’میں تمہیں ایسے گھر کا پتہ بتاؤں جس کے لوگ اس کی پرورش کا ذمہ لیں اور خیر خواہی کے ساتھ اسے رکھیں؟ اس طرح ہم موسیٰ کو اس کی ماں کے پاس پلٹا لائے تاکہ اس کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں اور وہ غمگین نہ ہو اور جان لے کہ اللہ کا وعدہ سچا تھا، مگر اکثر لوگ اس بات کو نہیں جانتے‘‘۔
ان آیات میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بچپن کے حالات بیان کئے گئے ہیں۔ ان آیات کا پس منظر یہ ہے کہ فرعونِ وقت بنی اسرائیل کی نسل کشی پر تلا ہوا تھا۔ جب موسیٰ علیہ السلام پیدا ہوئے تو ان کی والدہ ان کی حفاظت کے سلسلے میں پریشان تھیں ۔ ایسے میں اللہ تعالیٰ نے وحی فرمائی ۔حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ نے اس کے مطابق عمل کیا تو نہ صرف حضرت موسیٰ علیہ السلام کے تحفظ کا سامان ہوگیا بلکہ ماں کے آغوش میں ہی پرورش و پرداخت کا پورا انتظام بھی ہوگیا۔
آج کے حالات میں ان آیات کے اندر ہمارے لئے بھی بہت سے رہنمائیاں ہیں:
1۔ آج بھی دشمنانِ اسلام نے مختلف شکلوں(فیملی پلاننگ وغیرہ) میں نسل کشی کی مہم چھیڑ رکھی ہے۔ یہ فطرت سے بغاوت ہے۔ اس سے زمین میں فساد پھیلتا ہے۔ نظام الٰہی میں خلل پڑتا ہے۔ اسی لئے اسے بڑے گناہ سے تعبیر کیا گیاہے۔ چنانچہ ایسے والدین جن کی فطرت مسخ نہیں ہوئی ہے جو اللہ اور رسول ﷺ کو مانتے ہیں وہ کسی قیمت پر اس بات کے لئے آمادہ نہیں ہوسکتے کہ وہ نسل کشی کی کسی صورت کو بھی تسلیم کریں یا اپنائیں۔ چنانچہ فرعون کے سارے قہرو جبر کے باوجود حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کسی قیمت پر بھی بیٹے کو کھونے کے لئے تیار نہیں تھیں اور پریشان تھیں کہ کس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کی پرورش و حفاظت ہو؟
رزق میں تنگی اور عیش و آرام میں خلل کا خوف دلا کر جاہل جوڑوں کو آج بھی نسل کشی پر آمادہ کیاجارہا ہے بلکہ قانونی ہتھکنڈوں کے ذریعہ جبری طور پر منوانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ ایسے میں ہر ماں باپ کے لئے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کا یہ کردار اپنے اندر عبرت کاسامان رکھتا ہے کہ وہ فرعونِ وقت کے حکم کے پابند نہیں بلکہ اپنی فطرت کی آواز پر لبیک کہیں۔ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے حکموں کی پاسداری کریں۔
2۔ جس کا حافظ ہو خدا اس کو مٹا سکتاہے کون:
اس واقعہ سے یہ سبق ملتاہے کہ اگر خارجی خطرات و اندیشے شدید ہوں پھر بھی استقامت کا ثبوت دینا چاہئے۔ اصل کار ساز اور مسبب الاسباب اللہ تعالیٰ کی ذات ہے اگر ہم اللہ پر بھروسہ رکھیں اور نتیجہ اللہ پر چھوڑتے ہوئے خلوص دل کے ساتھ اس کے حکموں کی پاسداری کریں تو وہ غیب سے ایسا انتظام کرتا ہے کہ ہم کبھی سوچ بھی نہیں سکتے اور نہ صرف انتظام فرماتا ہے بلکہ بہتر انتظام فرماتاہے۔ چنانچہ موسیٰ علیہ السلام کی والدہ نے نتیجہ کو اللہ پر چھوڑتے ہوئے اللہ کی ہدایت کے مطابق بیٹے کو دریا میں ڈال دیا۔ پھر کس طرح اللہ تعالیٰ نے ان کی گود میں بیٹے کو لوٹادیا۔ یہ صرف اللہ تعالیٰ کی ذات سے ہی ممکن ہے ۔ چنانچہ مشکل حالات میں اللہ ہی سے مدد مانگنی چاہئے ۔ اسی پر بھروسہ کرنا چاہئے اور وہی اقدامات کرنیچاہئیں جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے بتائے ہیں۔ ان شاء اللہ نتیجہ بہتر آئے گا۔ خواہ اقدام کرتے وقت بہتر نتیجے کی نظر امید نہ آرہی ہو۔
3۔ اولاد کی چاہت ایک فطری چاہت ہے کیونکہ اولاد سے آنکھوں کو ٹھنڈک حاصل ہوتی ہے اور دنیا و آخرت دونوں میں وہ نفع پہنچانے کا ذریعہ ہے۔ اس چاہت کا صحیح اندازہ اولاد والوں کو کم ہوتا ہے ۔ کبھی ان کے دل ٹٹولئے جو اولاد سے محروم ہیں تو واقعی اندازہ ہوگا کہ صاحب اولاد ہونا کتنی بڑی نعمت ہے۔
اولاد سے محروم میاں بیوی اولاد کے لئے سارے جتن کرتے ہیں لیکن پھر بھی کامیابی نہ ملے تو اپنی چاہت کی پیاس بجھانے کے لئے دوسروں کی اولاد کو اپنی اولاد تک بنانے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں حالانکہ وہ جان رہے ہوتے ہیں کہ بچوں کی پرورش و پرداخت کتنا مشکل کام ہے اور اس کے لئے کتنی زیادہ قربانیاں دینی ہوں گی۔
اللہ تعالیٰ نے فرعون اور اس کی بیوی کی اس فطری چاہت کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی حفاظت و کفالت کا ذریعہ بنادیا اور سارے اندیشوں کے باوجود اپنی اس فطری چاہت کے ہاتھوں مجبور ہوکر انہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی کفالت کا بیڑا اٹھایا۔
مغرب منصوبہ بند طریقے سے میاں بیوی کے اس فطری جذبے کو دبانے اور کچلنے کے لئے کوشاں ہے جس کی وجہ سے نسل کی بقااور تعمیر ایک سنگین مسئلہ بنتا جارہا ہے۔ لوگ اپنی اولاد کی پرورش و پرداخت سے بھی جی چرانے لگے ہیں۔
بدقسمتی سے یہ جراثیم ہمارے معاشرے میں بھی پھیلنا شروع ہوگئے ہیں۔ اس کے تدارک کے لئے ضروری ہے کہ میاں بیوی کے اندر اس فطری جذبے کی بقا اور آبیاری کے لئے کوشش کی جائے اور ان کے سامنے فرعون کی بیوی (آسیہ) کا نمونہ پیش کیا جائے۔
اس سے نہ صرف فطری جذبے کی تسکین ہوگی اور لوگ پرورش و پرداخت پر توجہ دیں گے بلکہ بہت سے یتیم اور لاوارث بچوں کا مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔
4۔ اس واقعہ سے یہ سبق ملتا ہے کہ جب والدین کو مشکلات اور خطرات لاحق ہوں تو تحمل اور رازداری سے کام لینا چاہئے ۔ اس میں کامیابی ہے جیسا کہ حضرت موسیٰ ؑ کی والدہ نے جدائی پر بے قراری کے باوجود رازداری اور صبرو تحمل کا مظاہرہ کیا تبھی تحفظ کی راہ پیدا ہوئی ورنہ واویلا کرنے پر دشمنوں کو پتہ چل جاتا تو موسیٰ علیہ السلام بھی فرعون کی نسل کشی کی زد میں آگئے ہوتے۔

تبصرے بند ہیں۔