چار عناصر: آگ، پانی،  مٹی اور ہوا 

آبیناز جان علی

آگ، پانی،  مٹی اور ہوا :  قدرت کے وہ انمول خزانے ہیں جن سے ہم فیض اٹھاتے ہیں۔ ان پر تدبر کرتے کرتے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ چیزیں ہمارے آس پاس ہر جگہ موجود ہیں۔  پھر بھی صارفیت نے اپنی مضبوط گرفت ہم پر اس قدر جمارکھی ہے کہ اس کے حصار سے نکلنا آسان نہیں۔

آگ کی تمازت سب کی نظریں اپنی طرف کھینچتی ہے۔ آگ جلاتے وقت خیال رکھا جاتا ہے کہ کہیں پھیل نہ جائے ورنہ یہ تباہی اور بربادی لاسکتی ہے۔ آگ گرماہٹ پہنچا کر احساسِ تحفظ اور خودسپردگی کا عالم پیدا کرتی ہے۔ ایک چھوٹے سے چراغ کی لو کو جلتے دیکھ کر ذہن دوسری چیزوں کی طرف راغب نہیں ہوپاتا اور انسان اپنے تفکرات کی دنیامیں غرق ہوکر زندگی کے بارے میں سوچنے لگتا ہے۔ جیسے جیسے چراغ کی لو ٹمٹمانے لگتی ہے وہ سوچتا ہے کہ ٹھیک اسی طرح وہ بھی اس دارِ فانی سے ایک دن کوچ کر جائے گا۔ موسمِ سرما میں آگ کے گرد بیٹھنے سے وقت کے تھمنے کا گمان ہوتا ہے۔ آگ کی گرمی ہمیں اپنے کام کی طرف راغب کرتی ہے اور یاد دلاتی ہے کہ ہمیں اپنے اندرونی نور کی معرفت اس دنیاکو روشن کرکے آنے والی نسلوں کے لئے راہ ہموارکرنا ہے۔ گھر میں چھوٹی موم بتیاں جلانے سے ایک الگ سماں بندھتا ہے۔ ان خوشبودار موم بتیوں سے پورا کمرہ معطر ہوجاتا ہے۔ ڈینش عوام کو سب سے خوشحال قوم  مانا جاتا ہے۔ اسکینڈینیویا کے اس ملک میں سورج کم نکلتا ہے اور بادل چھائے رہتے ہیں۔  اس اثنا میں مزاج میں چڑچڑاپن یا مایوسی طاری ہونا فطری بات ہے لیکن ڈینش تاریک دنوں میں گھر پر موم بتی جلا کر خوشگوار فضا بناتے ہیں۔  ’ہیگگے‘ ان کا فلسفہ ہے۔ اس سے مراد ایک گرم اور آرام دہ فضا قائم کر کے زندگی کا لطف اچھی صحبت میں اٹھانا ہے۔ ڈینش عوام ہر حال میں اپنے ذہن کو مضبوط رکھتے ہوئے طویل تاریک لمحات میں بھی آگ جلاکر اور گرم مشروب کے ساتھ خوشیوں کواپنے گھروں میں دعوت دے ہی دیتے ہیں۔  آگ میں جل کر ہی کوئلہ ہیرے میں تبدیل ہوتا ہے۔ آگ وہ شے ہے جولوہے کو بھی پگھلا سکتی ہے۔ سینے میں آگ ہو اور دنیا میں اپنی چھاپ چھوڑنے کی تڑپ ہو تو انسان کیا کیا کرگزرتا ہے۔ دنیا کا کاروبار اسی لئے قائم و دائم ہے کہ اس میں آباد ہر گھر میں اسی آگ پر تین وقت کا کھانا تیار ہوسکے۔ پیٹ کی آگ کو بجھانے کے لئے انسان کبھی کبھی ایسی شرمناک حرکتیں کر جاتا ہے کہ انسانیت کی روح کانپ جاتی ہے۔ لیکن اپنی بھوک کو مٹانے کے لئے اسے کچھ اور نہیں سوجھتا۔ افسانہ کفن کے لازوال کردار گھیسو اور مادھو اسی بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ پیٹ کی آگ کو بجھانا ہی زندگی کا محور ہے۔

ماں نے جس چاند سی دلہن کی دعا دی تھی مجھے

آج کی رات فٹ پاتھ سے دیکھا میں نے

رات بھر روٹی نظر آیا ہے وہ چاند مجھے!

   گلزار

آگ کی اسی تمازت کے سامنے عاجز ہوکر انسان اس کی پرستش کرنے لگتا ہے۔ نمرود باشاہ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو زندہ جلانے کے لئے جب آتش کے حوالے کیا تھاتو خدا کے حکم سے وہ آگ ایک گلستان میں تبدیل ہوگیا تھا اور خلیل اللہ کو آزادی ملی۔

آگ کو بجھانے کے لئے پانی ہی کام آتا ہے۔ اس کے بغیر تمام کائنات ختم ہوجائے گی۔ چرند و پرند اور حیوانات اسی سے راحت پاتے ہیں۔ پودوں کو بھی پانی ہی زندہ اور ہرا بھرا اور پھلا پھولارکھتا ہے۔  انسان کو اگر مستقل دو ہفتوں کے لئے پانی سے محروم رکھا جائے تو اس کا زندہ رہنا ممکن نہیں۔  ایک دن میں دولیٹر پانی پینا لازمی ہے۔ ایسا نہ کرنے سے گردے میں پتھری بن سکتے ہیں اور انسان بیماریوں کی زد میں آسکتا ہے۔ شروع زمانے سے انسان پانی کا ہی محتاج رہاہے۔ موریشس کی تاریخ اس کا شاہد ہے۔ دسویں صدی سے عرب جہازراں موریشس میں تازہ پانی اور خوراک کی تلاش میں لنگر ڈالتے تھے۔ ان کے بعد سولہویں صدی میں پرتگالی اسی مقصدکے حصول کے لئے آتے تھے۔ محد سے لحد تک پانی کا ہی آسرا رہتا ہے۔ مرنے والے کو آخری وقت میں پانی پلا کر دنیا سے رخصت کیا جاتا ہے۔ پرانے زمانے میں یہ قیاس کیا جاتا تھاکہ جن لوگوں کو اپنی زندگی میں پیسوں سے حد درجہ لگائو تھا مرنے کے وقت ان کی روح کو پرواز کرنے میں تکلیف ہوتی تھی۔ قدیم رسم کے مطابق ان کے رشتے دار پیسوں کے سکوں کو پانی میں ابال کر مرنے والے کو وہ پانی پلاتے تھے۔ زم زم کے مقدس پانی کو حاجی حج کے دوران پیتے ہیں اور واپس اپنے ساتھ بھی لاتے ہیں۔ خدا کے فرمان پر لبیک کہتے ہوئے ابرہیم علیہ السلام نے اپنی زوجہ ہاجرہ اور بڑی مرادوں سے ملنے والے فرزند اسماعیل کو عرب کے تپتے ریگزاروں میں چھوڑ دیا۔ پیاس کی شدت سے تلملاتے بیٹے کو راحت پہنچانے کے لئے ہاجرہ صفا اورمرہ کی پہاڑیوں کے درمیان پانی تلاش کرتی رہی اور بلآخر اسماعیل کے پاس پانی کا چشمہ پھوٹ نکلا اور آبِ زم زم ایک زندہ جاوید معجزہ بن گیا۔ اسی طرح وارانسی سے آتے ہوئے لوگ گنگاندی کا پانی اپنے ساتھ لاتے ہیں اور معمول کے خلاف ائرپورٹ پر سیکیورٹی چیک اپ کے دوران انہیں پانی لے جانے کی اجازت دی جاتی ہے۔ جہاں پانی کا چشمہ یا ندی ہو وہیں پر انسانی تہذیب نشونما پاتی ہے۔ رودِ نیل کے کنارے اہلِ مصر کی اتنی عظیم الشان سلطنت کو دنیا آج بھی قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ اسی طرح آب زم زم کے انکشاف سے اطراف و اکناف کے لوگ مکہ میں آبسے۔ ہر معنی میں پانی زندگی دیتا ہے۔ پانی تازگی بخشتا ہے۔ دوردرزامسافت طے کر کے تھکے ماندے مسافر کو تازگی بخش کر راحت عنایت فرماتا ہے۔ پانی کا منظر ہمیشہ خوشگوار رہتا ہے۔ چھیل،  ندی،  جھرنے،  آبشار اورسمندر اتنے پرکشش ہیں کہ لوگ ان کی طرف مائل ہوجاتے ہیں۔  اس کے علاوہ پانی کا شور ذہن کا بہترین موسیقی ہے اور مضطرب موجیں اور پانی کے ٹکرائو سے من میں شانتی آتی ہے۔ قرأہ ارض کا بیشتر حصّہ پانی سے بھرا ہے۔ بدلتے ہوئے موسم نے قطبِ شمالی اور قطبِ جنوبی کے برف کو پگھلا کر پانی کی سطح کو بڑھایا ہے۔  اس موسمیاتی تبدیلی سے سیلاب اور سونامی کا خطرہ لگا رہتا ہے۔ موریشس میں مسلسل بارش سے پانی گھروں میں گھس جاتا ہے اور تمام چیزوں کو برباد کر ڈالتا ہے۔ ایسے میں پانی زندگی دینے کے بجائے جان بھی لیتاہے۔

آدمی مٹی کا پتلا ہے۔ گویا اس زمین میں زندگی بسر کرنے کے لئے اس نے اسی کا پیراہن اپنایا ہے۔ وہ اسی زمین پرچلتا ہے جس زمین سے لہلہاتے پودے اگتے ہیں۔  انہیں خزانوں سے انسان اور حیوانات کی خوراک کا انتظام ہوتا ہے۔ زمین کی تہہ سے ہیرے،  جواہرات اور قیمتی پتھرنکلتے ہیں۔  مٹی سے کالا سونا یعنی پترول برآمد ہوتا ہے جس سے دنیاکا کاروبار چلتا ہے۔ زرخیز سرزمین سے قسم قسم کے پھل پھول اوردرخت موسم کے حساب سے زمین کو خوشنما اورخوش رنگ بناتے ہیں جن کو دیکھ کر جی خوش ہوتا ہے اور زبان سے سبحان اللہ نکل جاتا ہے اور ذہن سوچنے پرمجبورہوتا ہے کہ جس خدا نے اتنی خوبصورت چیزیں بنائیں وہ خود کتنا خوبصورت ہوگا۔ زمین سے انسان کی پہچان جڑی ہوتی ہے۔ ہر خطے کا رہن سہن اور بود و باش اس جگہ کے ماحول اور موسم سے متاثر ہوکروجود میں آتا ہے۔ ہجرت کرتے وقت روشن مستقبل کے سنہرے خواب پلکوں پرسجاتے ہوئے تارکینِ وطن نئی سرزمین اپنا تے وقت کئی دشواریوں سے دوچار ہوتے ہیں۔  الگ زبان،  تہذیب اور ملبوسات کے آئین و آداب سیکھنے میں وقت لگتا ہے جس سے انسان میں تغیر آجاتا ہے۔ الگ سرزمین کے لوگوں کی رنگت الگ ہوتی ہے۔ زیادہ سرد ممالک میں قیام کرنے سے جلد زیادہ سفید ہوجاتی ہے اور جن ممالک میں زیادہ سورج کی روشنی پڑتی ہے ان کی جلد زیادہ جھلس جاتی ہے۔ یہ تفریق بلآخر انسانیت کی یگانگت کا ہی ثبوت دیتی ہے اور اہلِ دنیا کے لئے امتحان کا باعث بھی بنتا ہے۔ لوگ زمین کے لئے جان تک دے دیتے ہیں،  بڑی بڑی جنگیں لڑی جاتی ہیں اور آخرکار انسان کا جسدِ خاکی اسی زمین کے نیچے دو فٹ میں جا کر مٹی میں ہی مل جاتا ہے۔ اسی طرح مادہ پرست دنیا کی بے حسی برداشت کرتے کرتے زمین جواب دے دیتی ہے اور زلزلہ آجاتا ہے اور آنِ واحد میں فلک بوس عمارتیں خاک نشین ہوجاتے ہیں۔

ہوا کے بغیربھی ارضی زندگی دوسرے سیاروں کی طرح بنجر و ویران نظر آتی۔ جب ٹھنڈی ہوائیں نتھنوں کے توسل سے پھیپھروں میں داخل ہوتی ہیں گویا جسم میں نئی جان آجاتی ہے۔ ایک سانس چھوڑتے ہوئے انسان کو یقین ہوتا ہے کہ وہ دوسری سانس دوبارہ لے پائے گا۔ جب تک کاتبِ تقدیر چاہے گا یہ سانس چلتی رہے گی۔ اس طرح اس کے مالک نے اس کی روزی روٹی کا تعین کیا ہے۔ ٹھنڈی ہوائیں گرمی میں راحت پہنچاتی ہیں۔  ایسا نہ ہو تو لو اور گرمی سے حالت خراب ہوجائے اور پنکھے اور ائیرکنڈیشنگ کا سہارا لینا پڑے گا۔ خلیجی ممالک میں جہاں شدید گرمی  ہوتی ہے بس اڈے پر بھی ائیرکنڈیشنگ ہوتا ہے۔ ہوا کے بغیر انسان تلملا کرجان بحق ہوجائے۔ کارخانوں اور موٹروں سے خارج آلودہ  ہوائووں سے فضا میں زہریلی گیسیں تحلیل ہوتی ہیں جس سے انسانی صحت اثر پذیر ہوتی ہے۔ گرم ہوائوں میں سانس لینا دشوار ہوجاتا ہے۔ انسان پسینے سے شرابور پریشان حال ٹھنڈک کی تلاش میں مارا پھرتا ہے۔ مزاج میں بھی چڑچڑاپن یا اضمحلال آجاتا ہے۔ بیماری کے وقت ڈاکٹر مریض کو ہوا پانی بدلنے کی تاکید کرتا ہے تاکہ جلد افاقہ ہو سکے۔ جنت کی ہوا کے سب خواستگار ہیں۔  سرورِ دو عالم ؐ جب اہلِ عرب کوتپتی دھوپ میں جنت کی فرحت بخش ہوائوں کے بارے میں بتاتے تو صحابیوں کے دلوں میں ایمان مستحکم ہوتا اور اسی ہوا کو پانے کی خواہش انہیں نیکی کی طرف رجوع کراتی۔ دنیامیں کسی کے کام آنا یا اس کی مشکل دور کرنا اسے ٹھنڈی ہوا مہیا کرنے کی اہمیت رکھتی ہے۔ ہوا میں بھی ایسی طاقت ہے کہ آگ کو بجھا سکتی ہے اور تیزہوائوں سے طوفان یا آندھی پیدا ہوتے ہیں جو اپنے راستے میں تباہی و بربادی پھیلا سکتے ہیں۔

قدرت کے یہ چار عناصر ہمارے حق میں کام کر رہے ہیں۔  ان کے بغیر زندگی ممکن نہیں۔  ان سے تباہی بھی پھیل سکتی ہیں۔  انسان کو محتاط رہنا ہے کہ ان قدرتی سرمایوں کا تحفظ اور احترام کرے کیونکہ اگر یہ نہ ہوں تو ارضی زندگی کا توازن خطرے میں پڑسکتا ہے۔ یہ چار عناصر ہمیں اپنی طاقت سے زندگی کے سخت اور نرم پہلو دکھاتے ہیں اور اعتدال اور میانہ روی کا درس بھی سکھاتے ہیں۔

تبصرے بند ہیں۔