ابنِ انشاء جن کا کاٹا

سوتے میں بھی مسکراتا ہے

عبد اللہ زکریا ندیم

بچھو کا کاٹا روتا اور سانپ کا کاٹا سوتا ہے، ابنِ انشاء کا کاٹا سوتے میں بھی مسکراتا ہے، اس سے بہتر خراجِ تحسین اور کیا ہو سکتی ہے اور یہ دادو تحسین کے ڈونگرے وہ شخص برسا رہا ہے جسے اردو طنز و مزاح کا سر خیل سمجھا جاتا ہے اور جسکے بارے میں ڈاکٹر ظہیر فتح پوری نے یہ کہا ہے کہ ہم مزاح کے عہدِ یوسفی میں جی رہے ہیں۔

ابنِ انشاء نہ صرف یہ کہ ایک صاحبِ طرز ادیب ہیں بلکہ ایک منفرد شاعر بھی، اردو ادیبوں اور شاعروں میں شاذ ونادر ہی کسی نے ان دونوں صنفوں میں یکساں فتوحات حاصل کی ہیں، ایک غالب ہیں جو استثنا ہیں لیکن وہاں بھی عوام الناس صرف انکی شاعری کو جانتی ہے، انکے چاشنی میں ڈوبے خطوط اور انکی بے مثال نثر سے صرف خواص ہی واقف ہیں، ابنِ انشاء کی دونوں حیثیتیں اتنی مضبوط ہیں کہ یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ اسمیں بہتر کون ہے۔

۱۵ جون ۱۹۲۷ کو جالندھر کے ایک نواحی گاؤں میں منشی خان کے گھر ایک بچہ پیدا ہوتا ہے اور اسکا نام شیر محمد خان رکھا جاتا ہے، یہی بچہ بڑا ہوکر علمی اور ادبی حلقوں میں ابنِ انشا ءکے نام سے جانا جاتا ہے، ابتدائی تعلیم گاوں کے اسکول میں ہوتی ہے اور ۱۹۴۱ میں گورنمنٹ ہائی اسکول لدھیانہ سے میڑک کا امتحان پاس کرتے ہیں، تقسیمِ وطن کے بعد ابنِ انشاء پاکستان چلے جاتے ہیں، بی اے اور ایم اے کی ڈگری بھی حاصل کرتے ہیں، پی ایچ ڈی میں داخلہ بھی لیتے ہیں لیکن اسے اپنے مزاج کے موافق نہ پاکر چھوڑ دیتے ہیں، خلیل الرحمن آعظمی کے نام ایک خط میں اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ”میں برناڈ شا کا مرید ہوں اور سارا انسائیکلوپیڈیا لکھنے کے بجائے میں ایلس ان ونڈرلینڈ کا مصنف ہونا زیادہ پسند کروں گآ”۔

ابنِ انشاء نے شاعری تو اسکول کے زمانے سے ہی شروع کردی تھی لیکن اس پر اصل نکھار اسوقت آیا جب تقسیمِ وطن کے بعد لاہور میں سکونت اختیار کی، لاہور اس زمانے میں علم و ادب کا گہوارہ تھا اور ترقی پسند ادیبوں اور شاعروں کی بڑی تعداد وہاں موجود تھی جسمیں حمید اختر،ابراہیم جلیس،سبطِ حسن،احمد راہی،ہاجرہ مسرور ،خدیجہ مستور اور احمد ندیم قاسمی کے نام نمایاں ہیں، ہفتہ کے ہفتہ ادبی اجلاس ہوتے جہاں افسانے،مضامین ،غزلیں اور نظمیں پڑھی جاتیں اور ان پر زوردار بحث ہوتی، ان مجالس نے اس دور کے ادبی رجحانات کے تعین میں بڑا اہم کردار ادا کیا ہے۰ترقی پسند تحریک اپنے عروج پر تھی ، پھر ابنِ انشاء اس سے کیسے بچ سکتے تھے حالانکہ یہاں بھی انھوں نے اپنی انفرادیت برقرار رکھی ہے۔
ابنِ انشاء امریکی شاعر اور ادیب ایڈگر ایلن پو سے بہت متاثر تھے، انکی نظموں،اسراری کہانیوں اور مزاح نگاری کے دیوانے اور شیدائی، اندھا کنواں کے نام سے پو کی کہانیوں کا جو ترجمہ انہوں کیا ہے اسکے دیباچے میں دیکھیے ابنِانشاء کیا لکھتے ہیں:

“پو اسرار کی کہانیوں میں اسٹیونسن کا مثیل ہے۰سراغ رسانی کے ادب میں کانن ڈائل کا پیش رو،سائنسی رنگ کے افسانوں میں ایچ جی ویلز کا گُرو اور فکاہی مضامین میں اسٹیفن لیکاک کا استاد اور شاعری میں تو اسلوب اور خیال دونوں پہلوں سے اسکا پایہ اتنا اونچا ہے کہ ہم کسی دوسرے ایک شاعر کی نظیر نہیں پیش کر سکتے، میں نے پو کو ہمیشہ اپنے گرودیو کی حیثیت دی ہے، مجھے اسکول کے مانے میں بھی پو کی نظموں اور کہانیوں سے اتنا شغف تھا کہ دوستوں نے میرا نام ایڈگر ایلن پو رکھ دیا تھا”
قدیم چینی شعرا سے بھی ابنِ انشاء کو ایک خاص لگاؤ تھا، ایک لطیفہ بڑا مشہور ہے کہ لاہور کی ایک چینی موچی کی دکان میں ایک شخص داخل ہوتا ہے اور ایک جوتے کے بارے میں دریافت کرتا ہے، موچی جواب دیتا ہے کہ یہ آپکے سائز کا نہیں ہے، جواب آتا ہے میں یہ خریدونگا۰مجھے اسکا ترجمہ کرنا ہے، یہ صاحب کوئی اور نہیں ابنِ انشاء تھے، ہان شان کی ایک نظم کا یہ خوبصورت ترجمہ ملاحظہ فرمائیے۔

اکثر کوئی آکر پوچھتا ہے
کس اور یہ ٹھنڈا پربت ہے
کس راہ پہنچتے ہیں راہی
اس پربت کی کوئی راہ نہیں
گرمی کے دنوں میں بھی اسکی
کبھی برف پگھلتی نہیں دیکھی
بس ابر کا سایہ رہتا ہے
یا کہرا چھایا رہتا ہے
تم پوچھو گے پھر میں کیسے
اس کوہ میں آن بسا لوگو
مرا من ہے بھلا تم سا لوگو
تم لوگ اگر مجھ سے ہوتے
مرے پاس یہاں رہتے ہوتے
مرے پاس اس ٹھنڈے پربت پر

ہان شان کے علاوہ انھوں نے چین کے قدیم رومانٹک شاعر لی پو کی نظموں کا بھی ترجمہ کیا ہے، یہ نظمیں ترجمہ نہیں بلکہ طبع زاد لگتی ہیں، ابنِ انشاء کے الفاظ میں”میری کوشش یہ رہی ہے کہ ترجمے اصل کے پابند رہیں لیکن شاعری رنگ و بو ،تاثیر اور رچاؤ سے عاری نہ ہونے پائے”
ابنِ انشاء اپنی تمام تر ترقی پسندی کے باوجود اپنی رومانیت سے چھٹکارا نہیں پا سکے اور کبھی کبھی انکی شاعری پر رجعت پسندی کا بھی الزام لگتا ہے۔ لیکن یہی انکی شاعری کی کامیابی بھی ہے۔ انھوں نے پہلی بار ذاتی اور شخصی تجربے کی اہمیت پر زور دیا اور اسکو اپنی شاعری کا موضوع بنانے کی کوشش کی، یہی وجہ ہیکہ زیادہ تر ترقی پسند شاعری اپنے زمانے کے ساتھ تو چلی لیکن اسکی نوعیت ہنگامی ہی رہی ۰وہ آفاقی شاعری نہیں بن سکی، ”بغداد کی ایک رات”جسے انکی شاہکار نظم کہا جا سکتا ہے،میں انکی رومان پسندی ،اسراریت اور حقیقت بینی اپنے پورے عروج پر دکھا ئی دیتی ہے، خود ابنِ انشاء کے الفاظ میں”میری اس نظم میں طلسمِ ہوش ربا بھی ملے گا۔ شہرزاد کی راتیں بھی ملیں گی اور دجلہ کے کنارے مشقت کرتے ماہی گیروں کے گیت بھی سنائی دیں گے”یہ ایک بہت طویل نظم ہے لیکن قاری اسکے سحر سے نکل نہیں پاتا ہے اور پوری نظم ختم کرکے ہی د م لیتا ہے
ابنِ انشاء کی شاعری اپنے مزاج اور رنگ کے اعتبار سے امیر خسرو سے زیادہ قریب ہے، وہی لوک گیتوں کا رچاؤ،وہی عشق کی دھیمی دھیمی سلگتی آگ،وہی بجوگ کا تذکرہ،وہی محبوب کی ذات میں اپنے آپ کو فنا کردینے کی للک،یہاں آپکو گل ،چمن،بلبل ،قفس اور صیاد کے بجائے جوگ،راگ ،بن اور پربت کے استعارے ملیں گے۔

انشا جی نام انہیں کا چاہو تو ان سے ملوائیں
ان کی روح دہکتا لاوا ہم تو انکے پاس نہ جائیں
یہ جو لوگ بنوں میں پھرتے جوگی بیراگی کہلائیں
ان کے ہاتھ ادب سے چومیں ان کے آگے سیس نوائیں
ایک نظم دیکھئے
انشا جی بہت دن بیت چکے
تم تنہا تھے تم تنہا ہو
یہ جوگ بجوگ تو ٹھیک نہیں
یہ روگ کسی کا اچھا ہو
کبھی پورب میں کبھی پچھم میں
تم پُروا ہو تم پچھوا ہو
جو نگری نگری بھٹکائے
ایسا بھی نہ من میں کانٹا ہو
کیا اور سبھی چونچال یہاں
کیا ایک تمہی یہاں دکھیا ہو
کیا ایک تمہی پر دھوپ کڑی
جب سب پر سکھ کا سا یا ہو
تم کس جنگل کا پھول میاں
تم کس جنگل کا پھول میاں
کیوں شہر تجا کیوں رسوا ہو
کیوں وحشی ہو کیوں رسوا ہو
ہم جب دیکھیں بہروپ نیا
ہم کیا جا نیں تم کیا کیا ہو

ابنِ انشاء چاند کے دیوانے تھے ، اسکو دیکھ کر کھو جاتے تھے، خود انکے الفاظ میں” میں نے چاند کو آبادیوں ،ویرانوں اور کھیتوں میں بھی دیکھا ہے، ہر مقام پر اسکا روپ، اسکی چھب الگ ہوتی ہے”
کوئی تعجب نہیں کہ انھوں نے اپنے پہلے شعری مجموعہ کا نام “چاند نگر” رکھا۔

ابن انشاء کی کئی غزلیں ایسی ہیں جنہیں کسی بڑے فنکار نے اپنی خوش نوائی سے morning بقاءِدوام بخش دیا ہے، جگجیت سنگھ کی گائی ہوئی انکی غزل “کل چودہویں کی رات تھی شب بھر رہا چرچا ترا” آج بھی ہر طبقے میں انتہائی مقبول ہے۔

استاد امانت علی خان نے “انشا جی اٹھو اب کوچ کرو اس شہر میدل کو لگانا کیا”کو اپنے مخصوص انداز میں گاکر اسکی شہرت میں اور اضافہ کر دیا ہے اس غزل کے تعلق سے کئی باتیں بہت مشہور ہیں۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ ابنِ انشاء ایک صوفی تھے اور انکو کشف ہوتا تھا، یہ غزل کہنے کے ایک مہینے کے بعد انشاء جی دنیا سے گزر گئے اور تھوڑے دنوں بعد آمانت علی خان بھی کوچ کر گئے۔

انشا جی بنیادی طور ایک شاعر ہیں جنہوں نے نثر بھی استادانہ لکھی ہے، وہ انکے سفرنامے ہوں یا انکے فکاہیہ مضامین انکا قلم طنز و مزاح کے ایسے جملے قرطاس پر بکھیرتا چلاجاتا ہے جسکی میٹھی مار قاری کے لبوں پر ایک مسکراہٹ بھی چھوڑ جاتی ہے،”آوارہ گرد کی ڈائری” “ابنِ بطوطہ کے تعاقب میں” “ دنیا گول ہے” “چلتے ہو تو چین کو چلئے” یہ انکے سفر نامے ہیں، دراصل یونیسکو کے مشیر کی حیثیت سے انکو بہت سارے ایشیائی اور یورپی ممالک کے سفر کا موقع ملا، انھوں نے وہاں جو کچھ دیکھا اپنے مخصوص انداز میں قلم بند کر دیا، ان سفر ناموں میں ہماری ملاقات ایک ایسے عام آدمی سے ہوتی ہے جو ہمیشہ اس تگ و دو رہتا ہے کہ کس طرح سستے ہوٹلوں میں قیام کیا جائے اور کھا نے پینے میں کیا تدابیر اختیار کی جا ئیں کہ کم سے کم خرچ ہو، یونیسکو سے ملنے والا الاؤنس اتنا کم ہوتا تھا کہ کبھی تو وہ ایسے ہوٹلوں میں قیام کرتے ہیں جنکے دروازے ادوائن سے کھلتے ہیں اور کبھی حکیم سعید صاحب کو یاد کرتے ہیں کہ کاش وہ قبض کشا گولیوں کے ساتھ بھوک کو روکنے والی گولیاں بھی بنا دیتے۔ اس لحاظ سے یہ سفر نامے اردو کے ان سفر ناموں سے بہت مختلف ہیں جہاں ایک بار اپنی منکوحہ سے پنڈ چھڑالیں توراوی چین ہی چین لکھتاہے اور ہر دو چار صفحے کے بعد کوئی نئی حسینہ مسافر کی راہ کھوٹی کرنے کو بصد شوق تیار ملتی ہے۔

بغداد کی راتوں کے اس مسافر نے بغداد کی گلیوں میں اپنے کھو جانے کا واقعہ بھی بڑے دلچسپ پیرائے میں بیان کیا ہے۔ گائڈ، جسکی شکل دیکھتے ہی انہیں حضرت سلیمان کا ہد ہد یاد آجاتا ہے(،انشا جی) نے اسے ہد ہد ہی لکھا ہے)،اسے چکمہ دے کر وہ بغداد کے گلی کوچوں میں غائب ہوجاتے ہیں اور پوری شب ان جانی پہچانی گلیوں میں آوارہ گردی کرتے ہیں کہ انہوں نے ہمیشہ سے اسی کا خواب دیکھا تھا۔
اردو کی آخری کتاب انکا نثری شاہکار ہے، اسے اردو میں طنز ومزاح کا اعلی ترین نمونہ مانا جاسکتا ہے۔ یہ کتاب محمد حسین آزاد کی “اردو کی پہلی کتاب”کی پیروڈی ہے، جملے طنزیہ ہیں لیکن انمیں تلخی نہیں ہے، شیرینئ بیان ایسا کہ قاری کے لبوں پر ایک مسکراہٹ آجاتی ہے، یہ کتاب ۱۹۷۰ کے ہنگامی حالات میں لکھی گئی ہے لیکن یہ صرف پاکستان کی کہانی نہی ہے یہ تیسری دنیا کے ہر پسماندہ ملک کا نوحہ ہے۔ سرورق پر ہی ایک جملہ مسکرانے پر مجبور کر دیتا ہے”نا منظور کردہ ٹیکسٹ بک بورڈ”آگے بڑھئے تو کتاب ایک بہت معنی خیز دعا کے ساتھ شروع ہوتی ہے”یا اللہ ،کھانے کو روٹی دی،پہننے کو کپڑا دے ،رہنے کو مکان دے”
“میاں یہ بھی کوئی مانگنے کی چیزیں ہیں،کچھ اور مانگا کر”
“بابا جی آپ کیا مانگتے ہیں”
“میں کہتا ہوں ،اللہ میاں مجھے ایمان دے ،نیک عمل کی توفیق دے”
“بابا جی آپ ٹھیک دعا مانگتے ہیں ،انسان وہی چیز تو مانگتا ہے جو اسکے پاس نہیں ہوتی ہے”
ان جملوں میں جو لطیف طنز چھپا ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ ایک بادشاہ کے تذکرہ میں جو لکھا ہے وہ آج کے حالات پر کیسا فٹ بیٹھتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں”اس بادشاہ کا زمانہ ترقی اور فتوحات کے لئے مشہور ہے۔ ہر طرف خوشحالی ہی خوشحالی نظر آتی تھی۔ کہیں تل دھرنے کو جگہ نہیں تھی۔ جو لوگ لکھ پتی تھے دیکھتے دیکھتے کروڑپتی ہو گئے۰حسنِ انتظام ایسا کہ امیر لوگ سونا اچھالتے اچھالتے ملک کے اس سرے اس سرے تک بلکہ بعض اوقات بیرونِ ملک بھی چلے جاتے تھے ،کسی کی مجال نہیں تھی کہ پوچھے اتنا سونا کہاں سے آیا اور کہاں لے جا رہے ہو”
ریاضی کے اصولوں میں شگفتہ بیانی ملاحظہ فرمائیے۔ جمع کی تعریف وہ اس طرح کرتے ہیں”جمع کے قاعدے پر عمل کرنا آسان نہیں ہے،خصوصاً مہنگائی کے دنوں میں ،سب خرچ ہوجاتا ہے کچھ جمع نہیں ہو پاتا ہے”سائنس پر ہاتھ صاف کرتے ہوئے کشش کے اصول اس طرح بتاتے ہیں”کشش کئی طرح کی ہوتی ہے۰پیسے کی کشش،کرسی کی کشش،جنسی کشش وغیرہ،دنیا کے سارے کاروبار اور قوم کی بے لوث خدمتیں پہلی دو کششوں کے باعث ہیں، تیسری کشش آج کل ناولوں اور فلموں میں پڑتی ہے۔ اسے ڈالنے کے بعد ان چیزوں میں اور کچھ ،کہانی اور پلاٹ تک ڈالنے کی ضرورت نہیں رہتی ہے”
یہ تو چند نمونے مشتے از خروارے ہیں، پوری کتاب ایسے ہی شگفتہ طنزیہ جملوں سے بھری پڑی ہے۔
ابنِ انشاء پر بہت لوگوں نے لکھا ہے، انکا ایک بڑا دلچسپ خاکہ ممتاز مفتی نے اپنی کتاب “اولھے لوگ” میں لکھا ہے، مفتی کی مانیں تو انشاء جی نے کئی بار خودکشی کی کوشش کی،ازدواجی زندگی خوشگوار نہیں تھی اور وہ ایک بیاہی عورت کے چکر میں اپنی پوری کمائی لٹاُرہے تھے۔ ایک بار جب مفتی نے انکو ٹوکا تو آنسو بھری آنکھوں سے کہنے لگے کہ تم دیکھتے نہیں اس نے مجھے شاعر بنا دیا۔ مسئلہ یہ ہیکہ مفتی اپنی اس طرح کی تحریروں میں حقیقت میں ایسا افسانہ کا رنگ بھرتے ہیں کہ سمجھ میں نہیں آتا ہے کہ کتنا حصہ افسانوی ہے اور کتنا حصہ حقیقی۔

قدرت اللہ شہاب کو ولی کے مرتبہ پر پہونچا دیتے ہیں اور اپنے دوست احمد بشیر کو غنڈا ثابت کر دیتے ہیں۰ان کے مقابلے میں اے ۔حمید نے اپنی کتاب “ابنِ انشاء یادیں،باتیں،ملاقاتیں” جو لکھا ہے وہ زیادہ حقیقت کے قریب محسوس ہوتا ہے۔ ابنِ انشاء یہاں ایک خوش فکر اور بے فکرے انسان کی شکل میں ہمارے سامنے آتے ہیں ،جسے نہ تو پہننے کا کوئی خاص شوق ہے اور نہ ہی کھانے کی کوئی پسند ہے،مونگ پھلیاں پھانکتے اور گنڈیریاں چوستے وہ لاہور کے گلی کوچوں میں آوارہ گردی کرتے نظر آتے ہیں۔ مجتبی حسین جو ہندوستان میں بلا شبہ طنز ومزاح کا سب سے بڑا نام ہیں اپنے جاپان کے سفرنامہ میں لکھتے ہیں کہ وہ ایک بار ٹوکیو کے کسی ریستوران میں گئے تو جب مالٹا کا رس آیا تو وہ اسمیں نمک ملانے لگے ،یہ دیکھ کر میزبان نے کہا کہ ابنِ انشاء بھی ایسا ہی کرتے تھے۔ وہیں اس نے یہ بھی بتایا کہ انشا جی کی بیماری کی ۰سب سے پہلے یہیں ٹوکیو میں تصدیق ہوئی تھی ۔ مجتبی حسین لکھتے ہیں کہ وہ زندگی بھر کوشش کرتے رہے لیکن تحریروں میں وہ انشا جی جیسا نمک نہیں آیا۔ آگے وہ لکھتے ہیں کہ انکے بڑے بھا ئی ابراہیم جلیس اور انشا جی میں بڑی گہری یاری تھی ،اتنی کہ وہ ایک دوسرے کے پیچھے ایک ہفتہ میں اس جہان سے رخصت ہو گئے۰ابراہیم جلیس نے ابنِ انشاء کا ایک بڑا دلچسپ انٹرویو ریڈیو پاکستان کے لئے ریکارڈ کیا ہے۔ ابنِ انشاء کی آخری کتاب “نگری نگری پھرا مسافر” انکے انتقال کے بعد شائع ہوئی وہ لندن بغرجِ علاج گئے تھے اور اپنے پیروں پر چل کر گھر واپس نہیں آئے۰اس کتاب میں بھی انکا مخصوص طرزِ تحریر ہے اور پڑھ کر لگتا نہیں ہے کہ یہ اس آدمی نے لکھا ہے جس کے دروازے پر موت دستک دے رہی ہے،نہ ہراساں،نہ پریشاں ،طنز و مزاح کی پھلجھڑیاں چھوڑتے ہوئے انشا جی۔
مشتاق احمد یوسفی نے لکھا ہے کہ “پرکار عورت کی آنکھ اور دلیر کے وار کی طرح مزاح کی میٹھی مار بھی کبھی خالی نہیں جاتی ہے”ابنِ انشاء اپنے پیچھے ادب کا وہ خزانہ چھوڑ گئے ہیں کہ انکی موت ہو ہی نہیں سکتی ہے۔وہ ہر دور میں زندہ رہیں گے اور اپنی شاعری اور نثر سے آلامِ روزگارکو آسان بناتے رہیں گے۔

 

تبصرے بند ہیں۔