حیرت انگیز قرآن- The Amazing Quran قسط (6)

از: پروفیسر گیری ملر        ترجمہ: ذکی الرحمن فلاحی مدنی

اللہ کا لاکھ شکرہے کہ مسلم معاشرہ اس شیطانی مرض سے محفوظ ہے، ہمارے نزدیک شیطان کو کچھ استثنائی قوتیں حاصل تو ہیں لیکن ان قوتوں کا تقابل، اللہ کی قدرتِ کاملہ سے کرنا ایسا ہی ہے کہ سمندر کے مقابلے پانی کی چند بوندیں۔ یہی اسلام کا عقیدہ ہے اور اس کا اعتراف کیے بغیر کوئی شخص مسلمان نہیں رہ سکتا۔
اب ایک دوسرے پہلو سے غور کیجیے، عام آدمی تک کے احاطۂ معلومات میں یہ بات ہے کہ شیطان سے غلطیوں کا صدور ہوتا ہے اور یہ کہ وہ معصوم عن الخطا نہیں ہے۔ اس عام معلومات کا لازمی تقاضا بنتا ہے کہ وہ اپنی تصنیف کردہ کتاب کو بھی غلطیوں اور تناقضات سے بھر دے، جب کہ قرآن صراحت کے ساتھ اعلان کرتا ہے کہ اس کے اندر کسی قسم کا تناقض نہیں کیونکہ وہ منزل من اللہ ہے۔:
(أَفَلاَ یَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ وَلَوْ کَانَ مِنْ عِندِ غَیْْرِ اللّہِ لَوَجَدُواْ فِیْہِ اخْتِلاَفاً کَثِیْراً)(النساء:82)’’کیا یہ لوگ قرآن پر غور نہیں کرتے؟اگر یہ اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو اس میں بہت کچھ اختلاف بیانی پائی جاتی۔‘‘
عام طور سے غیر مسلموں کے پاس اور بھی کچھ اعذار ہیں جن کی بنیاد پر، قرآن کو انسانی قوتِ مخیلہ کی اختراع قرار دیا جاتا ہے۔ غیر مسلموں کی جانب سے کیے گیے اسلام کے گہرے مطالعہ وبحث وتحقیق کا جو حاصل عموماً نظر آتا ہے وہ چند باہم متناقض مفروضات کا پلندہ ہے۔ بیشتر مفروضوں کا بنیادی تھیم یہی ہوتا ہے کہ دراصل محمدﷺ کو ایک نفسیاتی بیماری لاحق تھی، اس بیماری کا نام اسطوری لمس یاخودپسندی کا جنون(Mythomania )ہے۔ اس بیماری میں مبتلا شخص اپنے ہر جھوٹ کو دل کی گہرائیوں سے سچ سمجھتا ہے۔
غیر مسلموں کا کہنا ہے کہ محمدﷺ بھی دراصل ایک ایسے ہی انسان تھے، ان کو اپنے بارے میں نبی ہونے کا واہمہ ہو گیا تھا۔ ان حضرات کے اس نظریہ کوبفرضِ محال کچھ دیر کے لیے تسلیم کر بھی لیا جائے تو بڑی دشواری یہ پیدا ہو جاتی ہے کہ اس مرض میں مبتلا انسان کبھی بھی زندگی کی سچائیوں اور روزمرہ کے واقعات سے خود کو ایڈجسٹ نہیں کر پاتا، لیکن محمد ﷺ کے کیس میں ہم پاتے ہیں کہ ان کی لائی ہوئی کتاب پوری کی پوری حقائق پر مبنی اور واقعات کا مرقع ہے۔ اور قرآن کا مبنی بر حقیقت وصداقت ہونا، ہر انسان خود بحث وتحقیق کرکے جان سکتا ہے۔
اس مرض میں مبتلا انسان کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنی خیالی دنیا میں رہنے والا گوشہ نشیں بن جاتا ہے۔ وہ جیتے جاگتے سماج کی گہما گہمی کا سامنا نہیں کر پاتا، اس لیے خاموشی کے ساتھ اس سے کنارہ کشی اختیار کر لیتا ہے۔ جدید نفسیاتی طب بھی ایسے شخص کا علاج یہی تجویز کرتی ہے کہ اسے تسلسل کے ساتھ حقائق کی دنیا سے دوچار کرایا جاتا رہے۔
مثال کے طور پر اگر ایسا نفسیاتی مریض اپنے آپ کو انگلینڈ کا بادشاہ خیال کرتا ہے ،تو اس کا معالجاس کی تردید میں یہ نہیں کہے گا کہ’’ تم بادشاہ نہیں ہو، بلکہ حقیقت میں تمہیں دماغی شکایت ہے‘‘۔ ایسے مریض کے طریقۂ علاج کی رو سے فوراً تردید کے بجائے اس کے سامنے حقائق پیش کیے جائیں گے۔ مثلاً اس سے کہا جائے گا :اگر تم ہی انگلینڈ کے بادشاہ ہو توبتاؤ آج ملکہ کہاں قیام پذیر ہیں؟اور تمہارے وزیراعظم کا اسمِ گرامی کیا ہے؟اور تمہارے شاہی پہرے دار بھی نہیں معلوم کہاں ہیں؟وغیرہ وغیرہ۔ اس قسم کا مریض ان سوالوں کے جواب میں صعوبت محسوس کرتے ہوئے الٹے سیدھے جواب دے گا، مثلاً آج ملکہ اپنے مائکے گئی ہیں، وزیر اعظم کا انتقال ہو گیا ہے، وغیرہ وغیرہ۔ اور آخر کار ان حقائق کی کوئی معقول توجیہ نہ پاکروہ اس مضحکہ خیز مرض سے شفا پا جاتا ہے اور جیتے جاگتے واقعات کے سامنے سپر ڈالتے ہوئے مان لیتا ہے کہ حقیقت میں وہ انگلینڈ کا بادشاہ نہیں ہے۔
قرآن کا اپنے سرکش مخالفین کے ساتھ تعامل بھی کم وبیش وہی ہوتا ہے جو نفسیاتی نقطہ نظر سے مائتھومینیا میں مبتلا شخص کے ساتھ برتا جاتا ہے۔ قرآن کریم میں ایک معجزہ نما آیت ہے:
(یَا أَیُّہَا النَّاسُ قَدْ جَاء تْکُم مَّوْعِظَۃٌ مِّن رَّبِّکُمْ وَشِفَاء لِّمَا فِیْ الصُّدُورِ وَہُدًی وَرَحْمَۃٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ)(یونس :57) ’’لوگو! تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے نصیحت آگئی ہے، یہ وہ چیز ہے جو دلوں کے امراض کی شفا ہے اور جو اسے قبول کرلیں ان کے لیے رہنمائی اور رحمت ہے۔‘‘
پہلی نظر میں یہ آیت بڑی مبہم اور غامض دکھائی پڑتی ہے، لیکن مذکورہ بالا مثال کی روشنی میں اس کا مفہوم بالکل واضح ہو جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ صدقِ نیت کے ساتھ قرآن کو پڑھنے والا یقینی طورپر ضلالت و تاریکی سے نجات پا جاتا ہے۔ قرآن نفسیاتی طریقۂ علاج استعمال کرتے ہوئے ،صراطِ مستقیم سے بھٹکے ہوئے فریب خوردہ لوگوں کی مسیحائی کرتا ہے ،اورظلمتوں کے خوگرمریضوں کے سامنے حقائق وواقعات کا نور روشن کر دیتا ہے۔ اس ضمن میں قرآن اکثر وبیشتر لوگوں سے کہتا ہے:اے لوگو!تم قرآن کے بارے میں ایسا ایسا کہتے ہو، لیکن فلا ں فلاں چیز کے بارے میں تم کیا کہو گے؟اور تم فلاں بات کیسے کہہ سکتے ہو جبکہ تم جانتے ہو کہ اس کے لازمی نتائج دوسری طرف اشارہ کر رہے ہیں۔
اس طرح قرآن اپنے قارئین کو مجبور کر دیتا ہے کہ وہ مسئلہ کی تمام ابعاد(Dimensions) اور پہلووں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے کسی شے کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کریں، اور اس پورے پراسس (Process)میں، وہ انسان کو گمراہی کے تنگ نائیوں سے نکال کر ہدایت کی وسیع شاہراہ پر لا کھڑا کرتا ہے۔ اس پر حکمت لائحۂ عمل کے ذریعہ سے، لاشعوری طور پر انسان کے حاشیۂ خیال تک سے یہ احمقانہ اعتقاد زائل ہو جاتا ہے کہ قرآن میں بیان کردہ حقائق کسی انسانی ذہن کی اپج یاپینک ہیں۔
قرآن کریم کا یہ انداز، یعنی لوگوں کو حقائق وواقعات کے ذریعہ قائل کرنا، ہی متعدد غیر مسلموں کے اسلام کی طرف متوجہ ہونے کا باعث بنا ہے۔ عصر حاضر کے ایک اہم علمی مرجع جدید کیتھولک انسائیکلوپیڈیا(New Catholic Encyclopedia )میں قرآن کریم سے متعلق قابلِ ذکر تبصرہ کیا گیا ہے۔ قرآن کے موضوع پر بحث کرتے ہوئے کیتھولک چرچ نے صراحت کے ساتھ یہ اعتراف کیا ہے :’’ماضی کے مختلف ادوار میں قرآن کریم کے مصدر ومنبعِ معلومات کے متعلق مختلف نظریات پیش کئے گئے ہیں، لیکن آج کسی عقلِ سلیم کے حامل انسان کے لیے ان میں سے کسی نظریہ کو مان لینا ممکن نہیں‘‘۔
تاریخ میں اپنی اسلام دشمنی میں بدنام کیتھولک چرچ کو بھی مجبوراً قرآن کو انسانی دماغ کی پیداوارسمجھنے والے نظریات کوغیر معقول قرار دینا پڑا ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ قرآن تمام عیسائی چرچوں کے لیے ہمیشہ سے بڑا دردِ سر رہاہے۔ ان کی ہمیشہ کوشش رہی ہے کہ وہ قرآن میں کوئی ایسی دلیل ڈھونڈھ نکالیں ،جس کے ذریعہ سے قرآن کو الہامی کلام کے بجائے انسانی کلام قرار دیا جا سکے، لیکن عملاً ایسا ممکن نہیں ہو سکا۔
اس سلسلے میں کیتھولک چرچ دیگر چرچوں سے اس بات میں ممتاز ہے کہ اس نے اپنی ناکامی کا اعتراف کرتے ہوئے مروجہ تمام احمقانہ توجیہات کو لغو قرار دیا ہے۔ کنیسا(Church)کی تصریح کے مطابق گزشتہ چودہ صدیوں میں قرآنی مظہرہ((Phenomenon کی کوئی منطقی ومعقول تفسیر پیش نہیں کی جا سکی ہے۔ بالفاظِ دیگر اس کو اقرار ہے کہ قرآن کا قضیہ اتنا آسان نہیں کہ اسے درخورِ اعتناء ہی نہ سمجھا جائے۔ بلا شبہ دوسرے لوگ اتنے علمی اعتراف واحترام کے بھی روادار نہیں ہوتے ، بلکہ ان کا عام ردِ عمل یہی ہوتا ہے کہ ’’یہقرآن ہو سکتا ہے اس طرح تصنیف دیا گیا ہوگا یا اس طرح‘‘۔ ان ٹامک ٹوئیوں میں سرگرداںیہ حضرات بیشتر اوقات خود اپنے اقوال کی نامعقولیت اور باہمی تناقض کا ادراک نہیں کر پاتے ہیں۔
اس میں شک نہیں کہ کیتھولک کنیسا کی یہ تصریح خود عام عیسائی حضرات کے لیے دشواری پیدا کردیتی ہے، کیونکہ اس تصریح کی موجودگی میں ان کا قرآن کے تئیں معاندانہ رویہ اپنا مذہبی اعتبار کھو دیتا ہے۔ چونکہ ہر عیسائی شخص کے دینی فرائض میں یہ بھی شامل ہے کہ وہ ہر صورت میں اپنے چرچ کے احکام وفرامین کا پابند ومطیع رہیگا۔ اب اگر کیتھولک چرچ اعلان کرتا ہے کہ قرآن کے بشری تخلیق ہونے سے متعلق بازارِ علم میں جو بھی نظریات پھیلے ہوئے ہیں ان پر کان نہ دھرا جائے، تو ایک عام عیسائی اس مخمصہ کا شکار ہو جاتا ہے کہ اگر کوئی دوسری توجیہ معتبر نہیں ہے تو آخر مسلم نقطۂ نظر سے اس پر غور کیوں نہ کیا جائے…؟
اس کا اعتراف تو سبھی کرتے ہیں کہ قرآن میں کچھ ہے، کچھ ایسا جس کو تسلیم کیا جانا چاہیے۔لہٰذا جب کسی دوسری تفسیر کا اعتبار نہیں تو آخر کیوں قرآن سے متعلق مسلم عقیدہ کے لیے معاندانہ موقف کو برقرار رکھا جائے…؟مجھے معلوم ہے کہ مسئلے کے اس پہلو پر وہی غیر مسلم حضرات غور وتدبر کر سکیں گے جن کی بصیرت کو اندھے دینی تعصب نے بالکل محو نہیں کر دیا ہے اور جو حقائق کو کسی خاص فکر ونظریہ کی عینک سے دیکھنے کے عادی نہیں ہوئے ہیں۔
موجودہ کیتھولک چرچ کے صفِ اول کے ممتاز رہنماؤں میں ایک نام مسٹر ہانس (Hans)کا آتا ہے۔ موصوف نے ایک مدت دراز تک قرآن پر ریسرچ کیا ہے اور اس سلسلے میں انہوں نے متعدد اسلامی ممالک میں لمبے عرصہ تک قیام بھی کیا ہے۔کیتھولک دنیا میں ان کو کافی اعتبار حاصل ہے۔اپنے طویل ریسرچ کے خلاصہ کے طور پر انہوں نے ایک رپورٹ مرتب کی تھی جو حالیہ دنوں میں شائع بھی ہو گئی ہے۔ اس رپورٹ میں انہوں نے لکھا ہے :اللہ رب العزت نے محمدﷺکے واسطے سے انسان سے ہم کلامی کی ہے۔‘‘
ایک بار پھر ایک ممتاز غیر مسلم دینی رہنما نے، جو اپنے حلقوں میں معتبر بھی خیال کیا جاتا ہے، اس بات کی شہادت دی ہے کہ قرآن اللہ کا کلام ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ کیتھولک بابا (Pope)نے اس رائے کومان لیا ہوگا، لیکن اس کے باوجود،عوامی مقبولیت کے حامل کسی معروف دینی رہنما کا قرآن کے تئیں مسلم نقطہ نظر کی تائید کرنااپنے آپ میں کافی سے زیادہ وزن رکھتا ہے۔ مسٹر ہانس اس ناحیے سے بھی آفریں کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اس واقعی حقیقت کا اعتراف کیا کہ فی الواقع قرآن میں ایسا کچھ ہے جسے آسانی سے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور ایسا اس لیے ہے کہ درحقیقت قرآنی کلمات کا مصدر ومنبع خود ذاتِ باری تعالیٰ ہے۔

تبصرے بند ہیں۔