کودرا: شیعہ سنی مفاہمہ پر ایک تقلیب انگیز روداد

مبصر: مطلب مرزا

 

کودرا

کتاب: کودرا (شیعہ-سنی مفاہمہ کی ایک تقلیب انگیز روداد)

مصنف: راشد شاز
صنف: سفر نامہ
سن اشاعت: 2018
صفحات: 239
ناشر: ملی پبلی کیشنز

شیعہ سنی مفاہمہ پر کئے گئے مشاہدات کی ایک تقلیب انگیز روداد- پارسی فال کے اساطیری قلعہ میں ہوئے مکالمات کو بڑی خوبصورتی کے ساتھ ڈاکٹر راشد شاز نے قلم بند کیا ہے- یہ مکالمات نہ نرے علمی ہیں اور نہ نرے جذباتی بلکہ علم و جذبات کا خوبصورت سنگم ہیں-

کوئی ہزار سال پہلے, تیسری چوتھی صدی ہجری میں جب سے ہم نے مسلم حنیف کی نظری شناخت کو خیراباد کہتے ہوئے شیعہ, سنی, اباضی, اسماعیلی جیسی غیر قرآنی اور غیر اسلامی شناختیں ایجاد کیں, ایک داخلی کشمشکش بلکہ خانہ جنگی ہمارا مقدر بن گئی- بارہا کوششیں ہوئی کی ان خانہ جنگیوں کا کوئی حل نکالا جا سکے لیکن یہ کوششیں نتیجہ خیز ثابت نہ ہو سکی- ایسا کیوں ہوا…؟؟؟

ایک وجہ جو مجھے سمجھ میں آتی ہے وہ یہ کہ مسلمانوں کی مسلک و تفرقہ پر مبنی اندرونی خانہ جنگیوں کے خاتمے کے لئے اکثر کوششیں اس عنوان سے ہوتی ہیں کہ "تمام مسلک برحق ہیں, سب اپنے اپنے مسلک پر رہیں اور دوسرے مسلک کو برداشت کریں” اس اعلان کے ساتھ متحدہ اسلام کی کوششیں کس طور کامیاب ہو سکتی ہیں یہ بات سمجھنے میں دشواری نہیں ہونی چاہیے کیونکہ اس طرح "نفس مسئلہ” کو شعوری یا غیر شعوری طور پر نظرانداز کر دیا جاتا ہے– اصل بات یہ ہے کہ "فرقوں کی بقا در اصل اسلام کی موت ہے”

زیر نظر کتاب "کودرا” اس تعلق سے ایک unique تصنیف ہے کہ اس میں متحدہ اسلام کا پروگرام دیتے ہوئے ڈاکٹر شاز اتحاد امت کی مصنوعی کاوشوں کی حوصلہ افزائی کرنے, اتحاد کے کھوکھلے اور جذباتی بیانیوں کو سند جواز بخشنے اور انہیں "اسلام” ثابت کرنے کے بجائے "نفس مسئلہ” کی طرف توجہ دلاتے ہیں– اسلام کی مسلکی تعبیر اور شیعہ-سنی قالب کو احق ثابت کرنے کے بجائے انہیں شدت سے مسترد کرتے ہیں جس کے نتیجے میں فرقہ وارانہ منافرت کی دیوار گرتی نظر آتی ہے–

ڈاکٹر شاز کی تصنیف "لستم پوخ” (جو "کودرا” کی طرح ایک سفرنامہ ہی ہے) میرے لئے شاز صاحب کے تعارف کا ذریعہ بنی- اس کے بعد ادراک زوال امت, متحدہ اسلام کا منشور, پردہ اور دیگر کتب زیر مطالعہ رہی- تمام تصانیف میں یہ بات بہت اہم ہے کہ شاز صاحب نے اپنی رائے بلا خوف و لومۃ لائم بہت مدلل اور بے باکانہ طور پر رکھی ہے- اور اس بات کی طرف توجہ دلانے کی کوشش کی ہے کہ کس طرح امت مسلمہ اپنی اصل سے ہٹ کر تاریخ کے گلیاروں میں کھو گئی یا اساطیری قلعوں میں قید ہو گئی, اور کبھی اگر کچھ اندازہ ہوا بھی کہ وہ اپنی راہ کھوٹی کر چکے ہیں تو منزل کی تلاش وحی ربانی کی روشنی میں کرنے کے بجائے انہیں اندھیرے راستوں پر نکل گئے جہاں سے ایک بار منزل کی راہ کھوٹی ہو چکی تھی–

کودرا میں اس احساس کو شدت کے ساتھ پیش کیا گیا ہے کہ متحدہ اسلام کی کوششیں اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتی جب تک مختلف مسلکوں اور فرقوں میں تقسیم لوگ وحی ربانی کی روشنی میں اپنے مسالک و فرقہ کا علمی محاکمہ نہ کریں-

روایتی ذہن جو "مقدس تاریخ” پڑھ کر تیار ہوتا ہے اس کے لئے یہ بڑا مشکل اور تکلیف دہ کام ہے کہ وہ اپنے روایتی دین کا محاکمہ کرے- علی کودرا جو اس کتاب میں شاز صاحب کے ساتھ مکالمہ کرتے نظر آتے ہیں اور اس سفر نامہ کے مرکزی کردار ہیں اس احساس کو بار بار شدت کے ساتھ رکھتے ہوئے مایوسی کا اظہار کرتے ہیں کہ اسلام کی  شیعہ-سنی تعبیرات اس قدر مستحکم ہو چکی ہیں کہ اب ان کے جلو سے اسلام کی دریافت ناممکن ہے- علی کودرا کا یہ احساس اور مایوسی بے وجہ نہیں ہے بلکہ انہوں نے یہ سب بہت قریب سے دیکھا ہے, وہ حرمین شریفین میں رہے, مدینہ اور قم میں تعلیم حاصل کی یعنی اسلام کے شیعہ اور سنی قالب کے مراکز میں رہ کر سب کچھ بہت قریب سے دیکھا اور یہ جانا کہ اسلام کی یہ دونوں تعبیریں ہی اسلام کے اصل مرکز سے بہت دور نکل چکی ہیں- لیکن اس کے ساتھ ہی یہ احساس انہیں مایوسی کی طرف بھی لے جاتا ہے کہ یہ امت جہاں پہنچ چکی ہیں وہاں سے واپسی کی کوئی سبیل نظر بھی نہیں آتی اور اگر کوئی سراغ ملتا بھی ہے تو اس کی طرف بڑھنے کی ہمت جٹا پانا بہت مشکل کام ہے- علی کودرا بیسوی صدی کے عظیم مفکر اور احیاء اسلام کے سرگرم مجاہد اور بوسنیا کے اول صدر علی جاہ عزت بیگووچ کے شاگرد بھی رہے اور ان کی تحریک سے وابستہ بھی رہے- علی کودرا اس لئے بھی اور مایوسی کہ طرف بڑھ جاتے ہیں کہ متحدہ اسلام کے لئے بوسنیا میں علی جاہ عزت بیگوچ کی قیادت میں جو تحریک شروع ہوئی اور جس نے یہ خواب دیکھا کہ "ہمارا مقصد محض ایک چھوٹی سی مسلم ریاست کا حصول نہیں بلکہ اس علامت کے ذریعہ اسلام کی نشأۃ ثانیہ ہے, مراقش سے انڈونیشیا تک ملت اسلامیہ کی شیرازہ بندی ہے” وہ کس طرح شیعہ سنی منافرت کے چلتے ناکام ہو گئی- علی کودرا علی جاہ عزت بیگووچ کے تعلق سے  کہتے ہیں کہ "اس میں شبہ نہیں کہ عالم اسلام میں آج بھی انہیں احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے لیکن یہ ایسا احترام ہے جو منافقت پر مبنی ہے- ہمارے خواب گہنا گئے ہیں”

پارسی فال کے اساطیری قلعہ میں دیگر مکالمات و مباحث جن کو ڈاکٹر شاز نے قلم بند کیا ہے وہ بھی امت مسلمہ کو موجودہ حالات کی سمجھ اور موجودہ مسائل کے حل کی طرف توجہ دلانے میں بہت اہم ہے- بوسنیا کے ایک وفد کے ساتھ ہوا مکالمہ بہت اہم ہے کہ ہم ہندوستانی مسلمان اس وقت کچھ اسی طرح کے حالات کی طرف بڑھ رہے ہیں جن کا سامنا اہل بوسنیا نے کیا- المینہ جس کا تعلق بوسنیا سے ہے, وہ اپنی اور بوسنیا کی دردناک اور جگر خراش روداد سناتی ہے-  وہاں کے حالات کی ایک وجہ مسلمانوں کا اپنے ہمسایوں اور پڑوسیوں پر اپنا نقطۂ نظر واضح کرنے میں ناکامی بھی رہی- المینہ کہتی ہیں کہ "مسلمان اپنی شناخت کے تحفظ کی فکر میں تھے, نقشبندی اسلام نے دعا, درود اور اوراد و وظائف کو دین کا ماحاصل باور کرا رکھا تھا- ہم جب درون خانہ کسی مکالمے کی پوزیشن میں نہیں تھے تو دوسری قوموں سے افہام و تفہیم کی بات کیسے سوچی جا سکتی تھی”

المینہ کا یہ جواب ہندوستانی مسلمانوں لے لئے بھی بہت بڑا اور چشم عبرت پیغام رکھتا ہے– 

پروفیسر وولف کا سرمایہ دارنہ نظام کے جابر شکنجے اور بربرتا کی روداد سنا کر یہ کہنا کہ "is there an alternative” بہت بیچین کر دینے والا جملہ ہے جس کا اظہار شاز صاحب ان الفاظ میں کرتے ہیں, "بار الہٰا یہ کیسی عجیب صورت حال ہے کہ جن لوگوں کو تاریخ کی مشکل گھڑی میں متبادل کی فراہمی کا کام سونپا گیا تھا اور جن سے بجا طور پر یہ توقع تھی کہ وہ حاملین وحی کی حیثیت سے رہتی دنیا تک تاریخ لے انحراف کی درستگی کے لئے سامنے آئینگے, وہ خود آج سرمایہ دارنہ نظام کے ہاتھوں بے بس ہیں”

گویہ ہم ایمانداری سے اپنا احتساب کریں تو اس نتیجہ پر پہنچیں گے کہ ہم نے اندرونی خانہ جنگیوں کے نتیجہ میں خارج کی دنیا میں اپنے لئے راستوں کو کتنا محدود اور تنگ کر دیا- ڈاکٹر شاز صاحب زیر نظر کتاب "کودرا” میں اسی احتساب و محاکمہ کی طرف توجہ دلاتے نظر آتے ہیں–

مسلمانوں کے اپنے اس اصل مشن سے دور ہو جانے کی بنیادی وجہ بھی فکری خانہ جنگی اور نظری تشتت ہے جس کے سبب ہم داخلی صف بندی کی پوزیشن میں بھی نہیں چہ جائیکہ دنیا کی صورت حال کی اس سنگینی کا ہم کچھ اندازہ لگا سکیں-

کودرا  مسلمانوں میں رائج تاریخی روایات پر مبنی دین کے شیعہ سنی قالب پر علمی تنقید ہے, مسلمانوں کو نفس مسئلہ کی طرف توجہ دلانے کی کوشش ہے, سنگین حالات میں مستقبل کی فکرمندی ہے اور متحدہ اسلام کے خواب کو شرمندۂ تعبیر کرنے کا پروگرام ہے- کتاب کے آخر میں درج یہ پیرا اس پوری فکر کو سمجھنے میں معاون ہے جس کا برملہ اظہار کتاب میں کیا گیا ہے,

"سانحہ قتل عثمان سے امت پر جس شب تاریک کی ابتداء ہوئی تھی، شہادت حسین نے اس کی سیاہی میں مزید اضافہ کردیا. رہی سہی کسر تاریخی بیانیوں نے پوری کردی. تاریخ و تعبیر کی کتابوں میں گمراہ کن بیانات اس طرح سمو دئے گئے ہیں گویا یہ مذہبی کتابیں نہ ہوں بارود بھرے ہوئے خودکش اسلحے ہوں. جب تک دونوں فرقے زہریلے بیانات کو اپنے مذہبی ڈسکورس سے خارج نہیں کرتے اور جب تک خدا کی منزل کتاب متبعین محمد (ص) کے لئے واحد حوالہ نہیں بنتی، اس امت پر ایک نئی صبح طلوع نہیں ہوسکتی”.

اللہ سے دعا ہے کہ وہ ڈاکٹر راشد شاز صاحب کی ان کاوشوں کو قبول کرے- ہم اس صبح کو دیکھیں جب مسلک اور تعصب کی اس سیاہ رات کو کہہ دیا جائے never again….

 

تبصرے بند ہیں۔