ہو لطف بھی تو اس کو دغا کہہ لیا کرو

م ۔ سرور پنڈولوی

ہو لطف بھی تو اس کو دغا کہہ لیا کرو

اے دوستو  وفا  کو  جفا کہہ لیا کرو 

 

گلچیں کا یہ تقاضا ہے خار و ں کوگل کہو

’’ہر سنگ  دل  کو  جان  وفا کہہ لیا کرو ‘‘

 

اخبار میں تو روز ہے چھپتی بری خبر

تم دوستوں میں اچھا لکھا کہہ لیا کرو

 

مانا کہ اس سے ملنے پہ دکھ ہی تمہیں ملے

وہ خوش رہے، سلام و دعا کہہ لیا کرو

 

کوئی نہ بانٹ لیگا  ، مگر کچھ سکوں تو ہو

اپنوں سے مل کے  اچھا برا کہہ لیا کرو

 

اسکی یہ آرزو ہے  کہ مٹی کو ماں  کہو

گویا کہ سنگ در  کو خدا  کہہ لیا کرو

 

یوں تو گناہوں میں  ہے  گزری تمام عمر

تم  نیک  اسکو    بعدِ  قضا کہہ لیا  کرو

 

سب شعر  ہیں  تمہارے ، پرانے سے لگ  رہے

سرور  میاں   کبھی  تو نیا  کہہ لیا کرو

تبصرے بند ہیں۔