حضرت ابراہیم ؑ کی اپنے باپ آزر سے گفتگو

عبدالعزیز

            ’’اور اس کتاب میں ابراہیم ؑ کا قصّہ بیان کرو، بے شک وہ ایک راست باز انسان اور ایک نبی تھا۔ (انہیں ذرا اس موقع کی یاد دلاؤ) جبکہ اس نے اپنے باپ سے کہا کہ ’اباّ جان! آپ کیوں ان چیزوں کی عبادت کرتے ہیں جو نہ سنتی ہیں نہ دیکھتی ہیں اور نہ آپ کا کوئی کام بنا سکتی ہیں ؟ اباّ جان ! میرے پاس ایک ایسا علم آیا ہے جو آپ کے پاس نہیں آیا، آپ میرے پیچھے چلیں، میں آپ کو سیدھا راستہ بتاؤں گا۔ اباّ جان ! آپ شیطان کی بندگی نہ کریں، شیطان تو رحمان کا نافرمان ہے۔ اباّ جان! مجھے ڈر ہے کہ کہیں آپ رحمان کے عذاب میں مبتلا نہ ہوجائیں اور شیطان کے ساتھی بن کر رہیں ‘‘۔

            باپ نے کہا ’ابراہیم ! کیا تو میرے معبودوں سے پھر گیا ہے؟ اگر تو باز نہ آیا تو میں تجھے سنگسار کردوں گا۔ بس تو ہمیشہ کیلئے مجھ سے الگ ہوجا‘۔

ابراہیم ؑ نے کہا ’سلام ہے آپ کو۔ میں اپنے رب سے دعا کروں گا کہ آپ کو معاف کردے، میرا رب مجھ پر بڑا ہی مہربان ہے۔ میں آپ لوگوں کو بھی چھوڑتا ہوں اور ان ہستیوں کو بھی جنہیں آپ لوگ خدا کو چھوڑ کر پکارا کرتے ہیں۔ میں تو اپنے رب ہی کو پکاروں گا، امید ہے کہ میں اپنے رب کو پکارکے نامراد نہ رہوں گا۔ ‘

پس جب وہ ان لوگوں سے اور ان کے معبودانِ غیر اللہ سے جدا ہوگیا تو ہم نے اس کو اسحاق اور یعقوب ؑ جیسی اولاد دی اور ہر ایک کو نبی بنایا اور ان کو رحمت سے نوازا

 اور ان کو سچی نام وری عطا کی۔ ‘‘(سورہ مریم : 50-41)

            اللہ تعالیٰ آنحضرت ﷺ سے قبیلہ قریش کے ان لوگوں کیلئے قصہ کو بیان کرنے کیلئے کہہ رہا ہے جو ابراہیم علیہ السلام کو اپنا بزرگ اور پیشوا سمجھتے تھے مگر ان کا رویہ ابراہیم علیہ السلام کے باپ آزر جیسا تھا جس نے اپنے بیٹے کو محض خدا ئے واحد کی عبادت کی دعوت دینے کی وجہ سے اپنے گھر بار سے جدا کرنے پر مجبور کیا اور اسے سنگسار کرنے کی دھمکی دی۔ ٹھیک اسی طرح قریش کے لوگوں نے آنحضرت ﷺ اور آپ کے ساتھیوں پر عرصۂ حیات تنگ کررکھا تھا جس کی وجہ سے کچھ لوگ ہجرت حبشہ کرنے پر مجبور ہوگئے تھے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اے قریش والو جس طرح تم آج پیغمبر خدا حضرت محمد ﷺ اور ان کے ساتھیوں کو شہر بدر کررہے ہو اسی طرح آزر نے اپنے بیٹے حضرت ابرہیمؑ کو اپنے گھر سے نکلنے پر مجبور کیا تھا مگر حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے مشن اور پیغام پر ڈٹے رہے جس کی وجہ سے اللہ نے انہیں عزت و عظمت سے نوازا اور دنیا کا پیشوا بنایا اسی طرح ایک دن آئیگا کہ آنحضرت ﷺ اور ان کے ساتھی سرخ رو ہونگے اور تم لوگوں کو ہزیمت اٹھانی پڑے گی۔

            اللہ تعالیٰ اہل کتاب اور مشرکین عرب خاص طور سے قبیلہ قریش کے لوگوں کو جو اس بات پر بھی ملامت کر رہا ہے کہ تم حضرت ابراہیم ؑ کی وراثت اور ان کی ذریت ہونے کے مدعی تو بنے بیٹھے ہو لیکن حال یہ ہے کہ تم نے ابراہیم علیہ السلام کی دعوت و تعلیم کو یکسر بھلا دیا ہے اور اپنا ایک نیا دین گھڑ لیا ہے۔ ابراہیم علیہ السلام تمہاری طرح خدا سے بد عہدی اور بیوفائی کرنے والے نہیں تھے بلکہ صداقت شعار، راست باز اور کامل وفادار تھے تم ان کی وراثت اور تعلق کے دعویدار ہو مگر

نسبت تو بہت اچھی ہے مگر حال برا ہے

            لہٰذا تم ان کی وراثت اور نسبت کے حق دار ہوسکتے ہو تو اس صورت میں ہوسکتے ہو جب کہ پوری راستبازی کے ساتھ اس عہد کو پورا کرو جو ابراہیم ؑ نے خدا سے باندھا ہے اس کے بغیر نہ تم ابراہیم کے ساتھ کسی نسبت کے حق دار ہوسکتے ہو اور نہ اس کی امامت میں تمہارا کوئی حصہ ہوسکتا ہے جس کا وعدہ اللہ نے ابراہیم ؑ اور ان کی اولاد کیلئے کیاہے۔

’’یاد کرو کہ جب ابراہیم ؑ کو اس کے رب نے چند باتوں میں آزمایا اور وہ ان سب میں پورا اتر گیا تو اس نے کہا:’’میں تجھے سب لوگوں کا پیشوا بنانے والا ہوں۔ ‘‘

ابراہیم ؑ نے عرض کیا : ’’اور کیا میری اولاد سے بھی یہی وعدہ ہے‘‘؟ اس نے جواب دیا :’’میرا وعدہ ظالموں سے متعلق نہیں ہے۔ ‘‘(سورہ البقرہ: 124)

            انہی امتحانوں اور آزمائشوں میں کامیابی کے صلہ کے طور پر اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم ؑ کو ’صدیق‘ کے لقب سے نوازا اور قوموں کی امامت کے منصب سے سرفراز فرمایا اور ساتھ ہی حضرت ابراہیم ؑ کے سوال کے جواب میں یہ حقیقت بھی واضح فرمادی کہ یہ منصب نام و نسب کے ساتھ وابستہ نہیں ہے بلکہ اعمال و کردار سے وابستہ ہے۔ حضرت ابراہیم ؑ کی اولاد میں سے بھی وہی لوگ اس کے حقدار ہوں گے جو اپنے باپ کی صدیقیت کی لاج رکھیں گے جو اپنی جانوں پر ظلم ڈھانے والے اور شرک و کفر کے علمبردار بن جائیں گے ان کیلئے ان میں کوئی حصہ نہیں۔

            حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے باپ آزر کو جو بت گر، بت پرست اور سرکاری طور پر بہت بڑا مہنت تھا اس سے نہایت درد مندی اور دل سوزی کے ساتھ انتہائی نرم لب و لہجہ میں دریافت فرمایا کہ آخر آپ جن چیزوں کو پوجتے اور پرستش کرتے ہیں وہ چیزیں تو نہ سنتی ہیں اور نہ آپ کو دیکھتی ہیں اور نہ ہی وہ آپ کی کسی کام کی ہیں تو آخر ان کو یہ مرتبہ کس بنیاد پر آپ دے رہے ہیں جبکہ آپ کے پاس کوئی سند یا علم نہیں ہے۔ اس کے بعد ابراہیم علیہ السلام ابا جان کہہ کر اپنے بت پرست باپ کو مخاطب کرتے ہیں کہ میرے پاس ایک علم (علم وحی) آیا ہے آپ کے پاس کوئی علم نہیں آیا اگر آپ میری بات تسلیم کریں گے، میرے پیچھے چلیں گے تو آپ ہی کا بھلا ہوگا میں آپ کو سیدھا راستہ بتاؤنگا اورآپ کامیاب اور کامران ہوں گے۔

            تیسری بار حضرت ابراہیم ؑ نے اپنے باپ کو مخاطب کرتے ہوئے پیار بھرے لہجہ میں کہا کہ آپ شیطان کی بندگی نہ کریں اس کی پیروی اور اطاعت آپ کیلئے انتہائی نقصان دہ ہے، شیطان رحمان کا نافرمان ہے، وہ ہر ایک کو راہ الٰہی سے بھٹکانے اور گمراہ کرنے پر تلا رہتا ہے۔

چوتھی بار حضرت ابراہیم ؑ اپنے باپ کو اسی لب و لہجہ اور پیار و محبت کیساتھ مخاطب کرتے ہیں اور اپنے اندیشہ کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ انہیں خدشہ ہے کہ آپ عذاب الٰہی میں نہ مبتلا ہوجائیں اور شیطان کے دوست اور ساتھی نہ بن جائیں۔

            آزر پر بیٹے کے کلام نرم ونازک کا کوئی اثر نہیں پڑا بلکہ وہ ایک بگڑے ہوئے تاجر کی طرح جسے بیٹے کی بات ماننے پر اس کی تجارت بیٹھتی ہوئی نظر آتی ہے دھمکی آمیز لب و لہجہ میں کہا کہ تومیرے خداؤں کو برابھلا کہتا ہے تو اگر اپنی حرکت سے باز نہ آیا تو تجھے میں جان سے مار ڈالونگا تو میری نظر سے دور ہوجا میرے گھر سے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے نکل جا اور پھر کبھی میر گھر کا رخ نہ کرنا۔

            باپ کی سخت کلامی اورسخت مزاجی کے باوجود حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اندر باپ کی محبت اور احترام میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی بلکہ انتہائی ادب و احترام سے باپ کو الوداعی سلام کیا اور وعدہ کیا کہ میں اپنے رب سے آپ کی مغفرت کیلئے دعا کروں گا کیونکہ میرا رب مجھ پر مہربان ہے، مجھ سے محبت کرتا ہے مگر نرم و لہجہ کے باجوود حضرت ابراہیم ؑ نے اپنے باپ سے حق گوئی کے اظہار میں کوئی کمی نہیں کی باپ سے برملا کہاکہ میں آپ لوگوں کو بھی چھوڑتا ہوں اور ان تمام ہستیوں کو بھی جنہیں آپ لوگ چھوڑ کر پکارا کرتے ہیں میں تو اپنے رب کے سوا کسی کے در پر نہیں جاؤنگا کسی اور کو مدد و اعانت کیلئے نہیں پکارونگا ہمیں پوری امید ہے کہ میرا رب میری سنے گا، میری مدد کرے گا، مجھے محرومی کا منہ دیکھنانہیں پڑے گا۔

            صاحب تدبر قرآن مولانا امین احسن اصلاحی ؒنے حضرت ابراہیم ؑ کے اس اعلیٰ کردار اور بلند حوصلگی پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھاہے کہ:

’’ایک طرف تو وہ نرمی، دوسری طرف یہ سختی! درحقیقت میں نرمی و سختی کایہی امتزاج اور ان کی یہی بہم آمیزی ہے جو ایک داعی حق کو دوسروں سے ممتاز کرتی ہے۔ جب تک آدمی موم کی طرح نرم اور پتھر کی طرح سخت نہ ہو وہ حق گوئی کی کوئی خدمت انجام نہیں دے سکتا۔ ‘‘ (تدبر قرآن جلد 4، صفحہ: 441)

اس بات کو مولانا حمید الدین فراہی ؒ کچھ اس انداز سے بیان فرماتے ہیں۔

            ’’اخلاق انسانی کی سب سے زیادہ حسین شکل یہ ہے کہ وہ شجاعت اورنرم خوئی کا ایک دل آویز پیکر ہو یہ پیکر مرحمت اور صبر کی یکجائی سے تراشاجاتا ہے۔ ‘‘

علامہ اقبال نے مومن بندے کی اس صفت کو اپنے کلام میں جس انداز سے پیش کیا ہے وہ علامہ ہی کا حصہ ہوسکتا ہے۔      ؎

جس سے جگہ لالہ میں ٹھنڈک ہو، وہ شبنم

دریاؤں کے دل جس سے دہل جائیں، وہ طوفان

While dealing with friends and mates, He is dew that thirst of tulip slakes;

 When engaged with his foes in fight, like torrent strong makes rivers shake.

مَصافِ زندگی میں سیرتِ فولاد پیداکر

شبستانِ محبت میں حریر و پرنیاں ہوجا

گذر جا بن کے سیلِ تندرو کوہ و بیاباں سے

گلستاں راہ میں آئے تو جوئے نغمہ خواں ہوجا

On the battle-field of life adopt the nature of steel;

In the bed-chamber of love become as soft as silk and painted brocade.

Pass like a river in full spate through the mountains and the deserts;

If the garden should come your way, then become a melodiously singing stream.

تبصرے بند ہیں۔