حفاظ  كرام كو میڈیكل مقابلوں كے لیے تیار كرانے كی مہم

(یہ تحریر ڈاکٹر ظل الرحمن کے ایک تعلیمی سفر کی روداد کا جزوی حصہ ہے جو انھوں نے چند احباب کے ساتھ ہندوستان کے طول و عرض میں سرگرم مختلف مسلم تنظیموں کی تعلیم کے میدان میں حصول یابیوں کا جائزہ لینے کے لیے اختیار کیا تھا۔ اس تحریر میں موصوف نے شاہین گروپ آف انسٹی ٹیوشنز کے کام کا جائزہ لیا ہے۔)

شاہین گروپ كا خصوصی اقدام

شاہین گروپ آف انسٹی ٹیوشنز، بیدر کرناٹک، میڈیكل  کے مسابقتی امتحانات كی تیاری کروانے كا ایک مایہ ناز ادارہ ہے۔  اس كے بانی  اور چیرمین جناب ڈاكٹر عبدالقدیر بلند عزائم اور اعلی وژن ركھنے والے شاہین صفت نوجوان ہیں۔  انہوں نے اپنی شبانہ روز جد وجہد اور مسلسل تگ ودو كے نتیجے میں  بیدر  اور شاہین گروپ كوكامیابی سے ہم کنار کیا ہے۔ گزشتہ سال صرف شاہین گروپ سے سرکاری میڈیكل كالج میں كامیابی حاصل كرنے والے طلباكی تعداد 157 تھی۔ یہ تعداد بڑی خوش آئند ہے۔ شاہین گروپ بھارت میں میڈیكل  مقابلہ  جاتی امتحانات  كی تیاری كرانے والے مسلمانوں كے تین بڑے اداروں میں سے ایك  بن چكا ہے۔

ڈاكٹر عبدالقدیر  كے لگائے ہوئے گلشن علمی كی ایك  خاص بات یہ ہے كہ یہاں حفاظ كرام كے لیے خصوصی طور پر ایك پروگرام چلایا  جارہا ہے  جس كا بنیادی مقصد  حفاظ كو میڈیكل  امتحانات كے لیے تیار كرنا   اور انھیں سرکاری کالجوں میں داخلے دلا نا ہے۔   یہ پروگرام ہندوستا ن میں اپنی طر ز كا منفرد پروگرام ہے۔  اس پروگرام كے تحت شاہین گروپ  12 سے 15 سال كے ننھے حفاظ كو منتخب كرتاہے۔ انھیں شاہین کے خصوصی انٹی گریٹڈ كورس   میں داخل کیا جاتا ہے جہاں ان کو صرف چار سال میں پہلی كلاس سے لے كر دسویں کلاس تک کا نصاب ازبر کرایا جاتا ہے۔ بعد ازاں گیارہویں اور بارہویں كی تیاری كرائی جاتی ہے۔ اس كے بعد ان بچوں کو میڈیكل اور دیگر پیشوں کے مقابلہ جاتی امتحانات میں اتارنے كے لیے تیار كیا جاتا  ہے۔

آخر وہ کیا جادو ہے كہ جو حافظ قرآن بچہ قلم پكڑنا نہیں جانتا صرف 4 سال میں بارہ سالہ كورس نہایت كامیابی سے کرکے میڈیكل  کی تیاری کا اہل بن جاتاہے او رشبانہ  روز محنت كركے سرکاری طبی كالج میں سیٹ حاصل كرنے میں كامیاب ہو جاتا  ہے؟ اس کا راز ہے وہ حکمت عملی جس کے ذریعے کم سے کم وقت میں حفاظ کرام کو ان کی تمام تر صلاحیتیں بروئے کار لاکر انھیں دورحاضر کے سب سے بڑے تعلیمی چیلنج کے لیے تیار کرلیا جاتا ہے۔ ڈاكٹر عبدالقدیر نے چار سالہ انٹی گریٹڈ كورس كو بڑے مدبرانہ انداز میں چار مراحل میں تقسیم كیا ہے:

  • پہلا مرحلہ فاؤنڈیشن كورس كا ہے جو 6 مہینوں پر مشتمل ہے۔  ان ابتدائی 6 ماہ میں  حفظ مكمل كركے آنے والے بچوں كو اردو، انگریزی اور كنڑا زبان پڑھنے  لكھنے كے علاوہ  ریاضی كی بنیادی تعلیم دی جاتی ہے۔
  • دوسرا مرحلہ بریج كورس كا ہے۔ اس مرحلے میں بھی  6 ماہ میں بچے كو  دسویں کا اہل بنانے كےلیے ضروری بنیادی سائنس، ریاضی،  اور زبانوں كی قواعد پڑھائی  جاتی ہے۔ بچہ فاؤنڈیشن او ر بریج كورس كے بعد اس لائق ہوجاتا ہےكہ  وہ  دسویں كلاس میں  اور بچوں كے ساتھ بیٹھ كر تعلیم حاصل كرسكے  اور اپنے مستقبل كو سینچنے سنوارنے میں  منہمك ہوسكے۔
  • تیسرا مرحلہ دسویں جماعت کی تکمیل ہے جو ایک سال کا ہے۔  اس ایک سال میں بچے كو دسویں جماعت  كی مكمل تیاری كرائی جاتی ہے اور اسے اس لائق بنایا جاتا ہےكہ  وہ امتحان میں نمایاں كامیابی اعلی نمبرات سے حاصل كرسكے۔
  • چوتھا مرحلہ جونیر كالج/پلس ٹوکی تکمیل کا ہے۔ اس دوسالہ مرحلے میں بچہ كو گیارہویں اور بارہویں جماعت كےلیے اس طرح تیار كیا جاتاہے كہ وہ نمایاں كامیابی حاصل كرسكےاور تمام مسابقتی امتحانات میں اچھے رینك سے كامیابی حاصل كركے اعلی ڈگریاں حاصل کرنے کا اہل بن سکے۔

مذكورہ چاروں مراحل محض چار برسوں میں مكمل كرانے كے بعد بچے كو بطور خاص میڈیكل كے امتحان كے لیے تیار كیا جاتاہے۔  ماشاء اللہ شاہین گروپ كی محنت اور كوشش كے نتیجے  میں  ہر سال حفاظ بچے سرکاری میڈیكل كالج میں سیٹ پانے میں کامیاب ہورہے ہیں۔ جو بچے بوجوہ سرکاری سیٹ حاصل كرنے  میں كامیاب نہیں ہوپاتے  انھیں انجینئرنگ، پیرامیڈیكل سائنسز، مینجمنٹ، قانون،  میڈیا اور دوسرے مقابلہ جاتی امتحانات کی تیاری کرائی جاتی ہے۔  اور الحمد للہ ان میدانوں میں بھی کلام الہی کے پاسبان یہ بچے کامیابی کی روشن تاریخ رقم  كررہے ہیں۔

بدقسمتی سے برصغیر میں حفاظ كے متعلق ایك شبیہ یہ بن گئی ہے كہ وہ صرف مسجد كی امامت، مؤذن  اور مسجد كی صفائی كے پیشے سے ہی جڑے رہنے کی استعداد اور اہلیت رکھتے ہیں۔ شاہین گروپ نے اس شبیہ کو چیلنج کیا ہے اور اسے مؤثر انداز میں بدلنے میں بہت اہم کردار ادا كررہا ہے۔

ڈاكٹر عبدالقدیر سے میری ملاقات اكتوبر میں مولانا آزاد یونیورسٹی جودھپور كے یونیورسٹی  كنكلیو میں ہوئی تھی۔ باہمی تعارف  اور شناسائی کے بعد انہوں نے مجھے اپنے ادارے كو دیكھنے كی دعوت دی۔ مجھے ان کے ادارے میں جانے کا شرف حاصل ہوا اور میں نے ادارے اور حفاظ كرام كے لیے مخصوص کورسز کا بہ نفس نفیس جائزہ لیا۔  تیاری كے مختلف مراحل، نصاب، طریق تدریس وغیرہ کا بغور مشاہدہ کیا۔  میں نے اس نظام كو نہایت ہی مثالی و منفرد پایا۔حفاظ كرام كا یہ كورس بڑی محنت ، منصوبہ بندی اور محبت سے انجام پارہا ہے اور اس كے اثرات بھی ظاہر ہورہے ہیں۔

اس كورس سے میں اتنا متاثر ہواکہ مجھے خواہش ہوئی کہ  بہار اور دہلی میں بھی  اسے متعارف کرایا جائے۔ اس كےلیے  ڈاكٹر عبدالقدیر کی پٹنہ آمد كی مناسبت سےایك پریس كانفرنس حج بھون میں بتاریخ 2نومبر 2016  كو منعقد كروائی گئی۔ ڈاكٹر صاحب نے میڈیا كو خطاب كیا۔  اسی دن شام کو پٹنہ كے حج بھون میں ہی  ایسوسی ایشن آف میڈیكل ڈاكٹرس كے ذریعہ   مسلم دانشوروں،  اسكولوں اور تعلیمی اداروں كے ذمہ داروں،ڈاكٹروں اور پروفیشنلز كی ایك نشست ركھی گئی  جس میں دیگرمقررین كے علاوہ راقم الحروف  نے بھی خطاب كیا  اور ڈاكٹر صاحب نے تفصیل كے ساتھ ‘حفظ القرآن پلس ‘  پروگرام كا بھر پور تعارف پیش کیا۔ اگلی صبح یعنی 3 نومبر كو فجر كی نماز كے بعد ہم دربھنگہ كی طرف روانہ ہوئے  جہاں انھوں نے محلہ رحم خان میں ڈاكٹر عبد الوہاب كی كلینك كے سیمینار ہال میں اہالیان دربھنگہ سے خطاب كیا۔   وہاں میری بھی ایک مختصرتقریر ہوئی۔ خطاب كے بعد نوجوانوں نے ہمیں گھیر لیا اور مصر ہوئے کہ آپ جلد دربھنگہ میں اس طرح كا كوئی  ادارہ  شروع كریں   جس کے لیے ہم سب بھرپور تعاون دینے کے لیے تیار ہیں۔

اس كے بعد ہم میرے آبائی وطن نرائن پور كی طرف روانہ ہوئے۔  وہاں نماز جمعہ سے فارغ ہوکر میں نے اپنے بھائیوں كی شراكت والے پلاٹ ڈاكٹر عبدالقدیر كو دكھائے  اور وہاں كسی ادارےكے قیام كے سلسلے میں مشورہ لیا۔  اس کے بعد ہم لوگ ارریہ، پورنیہ اور كشن گنج كی طرف روانہ ہوگئے۔

ضرورت ہے كہ شاہین گروپ كے ‘حفظ القرآن پلس’  یعنی حافظوں كو ڈاكٹر بنائے جانے والے پروگرام  كو پورے بھارت میں بڑے پیمانے پر متعارف كرایا جائے۔  زیادہ سے زیادہ حفاظ كو اس پروگرام كے ساتھ جوڑا جائے  تاكہ مستقبل میں وہ  اپنے دینی مناصب سے عہدہ برآ ہونے کے ساتھ ساتھ دنیا میں بھی باوقار پیشوں سے جڑ كر خدمت  خلق کا کام انجام دے سكیں۔  امامت وخطابت او ر تلاوت وتجوید قرآن  كی تعلیم  عام كرنے كے فريضے کی انجام دہی میں انھیں لوگو ں  كے  سامنے ہاتھ پھیلانا نہ پڑے بلكہ وہ خود كفیل ہوکر دین و دنیا کے غازی بن جائیں كہ ان كی بات بھی مؤثر ہو اور  سماجی طور پر بھی وہ باحیثیت بن سكیں۔

اگر ہم نے اس سمت میں منظم كوشش كی تو وہ دن دور نہیں جب حفاظ كرام کی  زبوں حالی اور ان کی استعداد کے متعلق لوگوں کا ادراک بدلنے  میں خاطر خواہ كامیابی حاصل كی جاسکے۔

وما ذلك علی اللہ بعزیز۔

تبصرے بند ہیں۔