کیا اردو اسکول صرف غریب مسلمانوں کے لیے ہیں؟

مرزا عادل بیگ

                ہر زبان اپنی ایک مخصوص خصوصیت رکھتی ہے، جس میں چھپی ہوئی ایک مخصوص تہذیب ہوتی ہے۔ یہ تہذیب ہر سماج کے سنہرے دور کی یاد دلاتی ہے۔ ہر زبان بولنے کا سمجھنے کا اور تاثرات کو خصوصی انداز میں پیش کرنے کا سلیقہ سکھاتی ہے۔ ہندوستان میں مسلمانو ں کی آمد تقریباً ایک ہزار سال پرانی ہے۔ مسلمانوں کی آمد سے ملک کو بہت کچھ میسر ہوا ہیں۔ یہاں کے قبائلی انسانوں کو زندگی جینے کا سلیقہ، تہذیب و تمدن، عزت ِ نفس، منصفانہ روئیہ، یکساں حقوق، تجارتی قوانین، پاکیزہ سیاست، اسلامی حکمرانی، عوام النا س کی خصوصی حفاظت یہ سب مسلمانوں کی دین ہے۔ مسلمانوں نے ملک پر حکومت کے ساتھ ساتھ سنوارنے کا کام کیا ہے، یہاں کی دقیانوسی زندگی سے راہِ نجات کی طرف لے جانے کا کام کیا ہے۔ مسلمان اپنے ساتھ مختلف زبانوں کا مجموعہ لے کر آئے۔ عربی، فارسی، دکنی اردو، سندھی، افغانی یہ سب زبانوں  کا تعارف مسلمانوں نے اس ملک میں کیا ہے۔ ہر زبان اپنے اندر مخصوص تہذیب، تاریخ، سلیقہ اور منفرد شناخت رکھتی ہے۔ عربی زبان کا تعلق عربوں سے ہیں، وہی فارس سے فارسی کی تاریخ ملتی ہے۔ عربی اور فارسی کے مجموعے کو ملا کر اردو زبان کو عبوریت حاصل ہوئی ہیں۔ ماضی کا ایک دور وہ بھی تھا جب اردو حکومت کی زبان ہوا کرتی تھی۔ اردو کو سرکاری زبان کا درجہ حاصل تھا۔ اردو حکمرانوں کی بولی بولتی تھی، اردو عوام الناس میں مقبول تھی۔ ملک میں مسلمانوں کے سنہرے دور نے مسلمانوں کے ساتھ ساتھ اردو زبان کو بھی فروغ دیا ہے۔ ملک کی آزادی میں جتنا اہم کردار مسلمانوں کا تھا اتنا ہی اہم کردار اردو زبان کا بھی ہے۔ جنگ آزاد ی میں اردو اخبارات، اردو مصنفین اور اردو شاعر حضرات نے عوام الناس کے جزبے کو ابھارنے کا کام کیا ہیں۔ آزادی کے بعدمنظم سازشوں کے تہت مسلمانوں کو پسماندگی کے گھڑھے میں ڈکھیلا گیا ہیں، وہی اردو زبان کو تعصب پسند تنظیموں نے نشانہ بنایا۔

                اردو زبان کو لبرزم، سیکولرزم، فحاشیزم، کے لیے خطرہ بتا کر عوام سے بالواسطہ تعلق ختم کیا گیا، آج اردو زبان صرف ایک مخصوص گروہ کے لئے، مخصوص طبقہ کے لئے، بول چال کے لیے، استعمال ہوتی ہے۔ اردو زبان کو فروغ دینے کے لیے حکومت (مرکزی اور ریاستی ) مختلف تعلیمی پالیسی بناتی ہے۔ یہ مخصوص تعلیمی پالیسی اردو زبان سے لے کر اردو میڈیم اور اردو اقلیتی اداروں، اردو اسکولوں کو سہولت فراہم کرتی ہے، یہ مخصوص تعلیمی سہولیات، اقلیتی طلبہ و طالبات کے تر قی کرنے کے مقاصد کو پورا کرتی ہے۔ ملک میں اردو اسکولوں کا عمبار لگا ہوا ہے۔ حکومت کی تعلیمی پالیسی ہر جگہ عوام الناس کو مدِ نظر رکھ کر مختلف میڈیم کو بڑھاوا دینے کا کام کرتی ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہر جگہ حکومتی (ریاستی اور مرکزی )اسکولیں نظر آرہی ہے۔ حکومت کی طرف سے ضلع پریشد، نگر پریشد، مہا نگر پریشد کے ما تحت پرائمری اسکولیں، ہائی اسکولیں، اور جونیر کالیجیس چلتے ہے۔ وہی دوسری طرف حکومت سے منظور شدہ پرائیؤیٹ اسکولیں بھی چلتی ہے، یہ اداریں، یہ پرائیوٹ اسکولیں تجارت کی غرض سے چلتی ہے۔ یہ پرائویٹ ادارے، اسکولیں، کسی ایک فرد  کےما تحت کام کرتے ہے، بہت سے اداروں کے مالک اب سیاسی لیڈران ہے۔

مسلم معاشرے کا جائزہ :

                ہمارے مسلم معاشرے کا جائزہ لیا جائے تو اردو اسکولوں، اقلیتی اداروں کے حالات انتہائی نازک ہوتے جارہے ہے۔ مسلمانوں کا امیر طبقہ اپنے بچوں کو تعلیم دینے کے غرض سے نئے انگلیش میڈیم اداروں کا رخ کر رہا ہے۔ وہی اردو اسکولوں میں غریب مستحق بچوں کی بھیڑ لگی ہوئی ہے۔ مسلم معزیز سوسائٹی اپنا اسٹیٹس بر قرار رکھنے کے لئے اپنے بچوں کو کسی کانوینٹ، کسی عسائی مشنری اسکول، کسی انٹر نیشنل اسکول میں داخلہ کروا کر خواب غفلت میں ڈوبی ہوئی ہے یہ عیسائی مشنری اسکولیں، کانوینٹ، انٹرنیشل اسکولیں ہمارے نازک، معصوم پھول جیسے بچوں کو مذہب اسلام سے دور لے کر جارہے ہیں ۔ یہ مغربی تعلیم جو یورپ کو تباہ و برباد کرکے اب اسلامی ممالک کو ختم کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ وہی اسلامی معاشرہ، مدار س اور اردو اقلیتی اداروں تک محدود ہو چکا ہے۔ کسی زبان سے تعصب پذیری اچھی علامت نہیں ہے۔ ہر زبان اپنے ساتھ ایک تہذیب و تمدن رکھتی ہے۔ پھر وہ تہذیب پروان چڑھتی ہے۔ ہمارے اردو  ادارے، اسکول کے طالب علم جس خوش اسلوبی سے کسی سے ملاقات کرتے ہے، اس طرح کوئی دوسرے میڈیم والے گفتگو نہیں کر سکتے، اگر کرتے بھی ہونگے تو ان کا لب و لہجہ اس قدر متاثر نہیں کرتا۔ آج سر پرست حضرات جدید تعلیم کے نام پر، ماڈرنیٹی کے نام، ای –لرنیگ کے نام پر، برائٹ  فیوچر کے نام پر دھوکہ کھا رہے ہیں۔ اردو اسکولیں شخصیت کی ارتقاء، انسان کا بنیادی مقصد پر کام کرتی ہے، وہی انگلش میڈیم کے ادارے انجوئمنٹ، خود پرستی اور مادہ پرستی کی طرف لے جاتے ہے۔ اب تو اردو اداروں میں کا م کرنے والے حضرات، اساتذہ اکرام کی اولادیں بھی انگلش میڈیم کی طرف دوڑ رہی ہے۔ کثرت سے اردو اساتذہ اکرام اپنے بچوں کو انگلش ادار وں میں تعلیم دے رہے ہیں۔  یہ اردو اسکولوں میں کام کرنے والے صاحبِ حیثیت حضرات اپنے پیشے سے غداری کر رہے ہیں، کھاتے اردو کی ہے اور گاتے انگریزی کی ہے۔ اپنے بچوں کو انگریزی میڈیم میں ڈال کر فخریہ انداز میں بولتے ہے اردو اسکولوں کی تعلیم اچھی نہیں ہے۔ وہ یہ نہیں سوچتے وہ خود اردو اسکول کا حصہ ہے

                جب بھی انگلش میڈیم اور اردو میڈیم کے بچہ کا موازنہ کیا جائے تو ہمیں اکثر فحاشی و بد حوسی میں انگلش میڈیم والا طالب علم ملوث نظر آئے گا ۔ اردو میڈیم کا طالب علم رات کو 9 بجے مسجد میں نمازِ عشاء کو جاتا ہے وہی انگلش میڈیم کا طالب علم کسی دوست کے برتھڈے پارٹی میں جاتے نظر آتا ہے۔ اردو میڈیم کا طالب علم سادگی پسند وہ وسیع النظر ہوتا ہے، وہی انگریزی میڈیم کا طالب علم جدید فیشن میں چور تنگ نظر آتا ہے۔ وہی گرل فرینڈ اور بائے فرینڈ کلچر اسے مذہب اسلام سے دور لے کر جاتا ہے۔ مسلم معاشرے میں بڑے بڑے ٹھیکیدار، ڈاکٹرس، انجینئر حضرات، سرکاری اور نیم سرکاری محکمات میں کام کرنے والے صاحبِ حیثیت حضرات، ٹیچر حضرات اپنے دولت و شہرت کے نشے میں چور ہو کر تکبر کے ساتھ انگلش میڈیم اداروں میں اپنے نہونہالوں کو تعلیم دلارہے ہے۔ وہی غریب، مزدور پیشہ افراد، روز مزوری کرنے والے حضرات میڈل کلاس والے افراد، نوکر پیشہ افراد، اپنے بچوں کو اردو تعلیم کی طرف لے جارہے ہے۔ یہ کمزور اور غریب طبقہ افراد کے بچوں کو دیکھ کر دل میں سوال میں پیدا ہوتا ہے کہ کیا اردو اسکولیں صرف غریب مسلمانوں کے لیے ہیں۔ ۔۔۔؟

تبصرے بند ہیں۔