رمضان کے آخری جمعہ کے بارے میں چند باتیں

حفیظ نعمانی
سہارا نام کا اخبار جو ہندوستان میں ہر اس بڑے شہر سے نکلتا ہے جہاں اردو پڑھنے والے کافی تعداد میں ہوتے ہیں ۔ایسے اخبارات جو کئی شہروں سے نکلتے ہیں ان میں جو سیاسی یامذہبی مضامین ہوتے ہیں وہ ہر جگہ سے نکلنے والے اخبار میں ہوتے ہیں ۔لیکن مقامی خبروں کے دو تین صفحات تبدیل کر دئے جاتے ہیں ۔کل جمعہ کو جو سہارا اخبار آیا اسکے اندر جو مذہبی مضامین ہیں ان میں صفحہ 11پر ایک مضمون چھپا ہے جسکا عنوان ہے ’’سارے دنوں کا سردار جمعۃ الوداع‘‘اس مضمون کے لکھنے والے مولانا محمد ہارون ہیں ۔جو مسجد فیروز شاہی (مسجد کلاں )بستی حضرت نظام الدین دہلی کے امام وخطیب ہیں ۔
مولانا ہارون صاحب نے جمعۃ الوداع یعنی آخری جمعہ کو سارے دنوں یعنی ہجری سال کے 353دنوں کا سردار بتایا ہے ۔اور پون صفحہ کے لمبے چوڑے فوٹوؤں سے مزین اس مضمون میں ایک جگہ بھی نہیں لکھا کہ۔ اے اللہ تعالیٰ یاحضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے یا ان کے بعد جو جماعت صحابہ بنی تھی اس نے کہاں کس موقع پر اور کن حضرات کے سامنے کہا کہ جمعۃ الوداع تمام دنوں کا سردار ہے ؟ مولانا نے اپنے مضمون میں 26جگہ جمعہ کا ذکر کیا ہے ۔لیکن ایک جگہ بھی نہیں فرمایا کہ اس آخری جمعہ کی فضیلت کیوں ہے اور کس نے اسے ہر جمعہ سے افضل بتایا ہے ؟مولانا نے ابتدا ان الفاظ سے کی ہے کہ ۔رمضان المبارک کا آخری جمعہ ہمیں آگاہ کررہا ہے کہ ’’یہ ماہ مقدس رمضان جو اپنے دامن میں بے پناہ رحمتیں لایا تھا رخصت ہورہا ہے ‘‘آج ہفتہ ہے اور ابھی اتوار پیر منگل اور بدھ یعنی چاردن باقی ہیں ۔اسکے بعد رمضان المبارک رخصت ہوگیا ۔اور یہ چاروں دن بھی پاک پرور دگار کے ہی بنائے ہوئے ہیں ۔یہ دن جمعہ کے بعد کیوں آگاہی نہیں دیں گے کہ ماہ مبارک رخصت ہو رہا ہے ۔
سال کے 12مہینوں میں سے اس ایک مہینہ یعنی رمضان المبارک کے بارے میں اللہ تعالی نے قرآن شریف میں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابۂ کرام سے وہ سب فرمادیا جو اللہ کریم نے وحی کے ذریعہ فرمایا ہے ۔رمضان وہ عظیم مہینہ ہے جس میں قرآن نازل ہوا ۔اس مہینہ کے بارے میں پروردگار نے فرمایا کہ اسکی ہر نیکی پر 70گنا ثواب زیادہ دیا جائیگا ۔صرف یہی ایک مہینہ ہے جس میں نفل عبادت بھی فرض مانی جائے گی ۔جسے تین عشروں میں تقسیم کیا گیا ہے ۔پہلا عشرہ رحمت یعنی بندوں سے کہا گیا ہے کہ پہلے روزے سے 10ویں روزے تک رات دن ہر وقت اپنے پروردگار سے رحمت مانگو ۔اور وعدہ کیا ہے کہ بندوں کو رحمت عطا فرمائے گا مگر یہ کہیں نہیں کہا گیاہے کہ رحمت مانگنے کے علاوہ اور کچھ نہ مانگو ۔مقصد صرف یہ ہے رحمت پر زور دو ۔دوسرے عشرہ کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ اس میں مغفرت کرانے پر زیادہ سے زیادہ وقت لگا ؤاور آخری عشرہ جو چل رہا ہے دوزخ سے نجات مانگنے اور پناہ مانگنے کا عشرہ ہے۔ اس عشرہ کے بارے میں مزید فرمایا کہ اس میں ایک رات ’’لیلۃ القدر ‘‘ ہے ۔وہ طاق راتوں میں سے کوئی ایک رات ہے ۔وہ رات ایک ہزار مہینوں سے بہتر ہے ۔یعنی اسکا ثواب ایک ہزار مہینوں یعنی ہجری 85سالسے بھی زیادہ ہے ۔زیادہ کا لفظ ہم اور آپ اگر بولیں تو دو گنا دس گنا یا بیس گنا ہو سکتاہے ۔لیکن پوری دنیا اور کائنات کا مالک جب زیادہ فرمائے تو کون اندازہ لگا سکتا ہے کہ وہ کتنا زیادہ ہوگا ؟ لیکن اگر زیادہ نہ بھی ہوتو عمر عزیز کے 85برس جوآپکایہ گناہ گار بھائی گزار آیا اسکے ایک ایک لمحہ سے زیادہ ہے ۔
رمضان شریف کے بارے میں ہی فرمایا گیا کہ ایک روزہ دار کا روزہ اگر اس نے پانی سے بھی افطار کرایا تو اسے بھی اس روزے کا ثواب ملے گا ۔یعنی جس گھر سے افطار کا سامان پڑوس میں یا مسجد میں بھیجا جاتا ہے اور روزہ دار اس سے افطار کرتے ہیں ۔کچھ معلوم نہیں کہ میدان حشر میں کسے وہ ثواب خفیہ خزانے کی طرح نظر آجائے۔ رہا جمعہ کا مسئلہ تو ہر جمعہ وہ سال کا کسی بھی مہینہ کا جمعہ ہو برابر ہے ۔اور رمضان المبارک کے اگر چار جمعہ ہیں یا پانچ وہ بھی سب برابر ہیں ۔ان کے آخر ی جمعہ کے بارے میں جسے الوداع کانام دیا گیا ہے ۔کسی نے نہیں کہا کہ اسکی کوئی خصوصیت ہے ۔اسلام کے کچھ دشمن اسلام میں ملاوٹ کرنے کا کام پہلی صدی سے کررہے ہیں ۔ہم نہیں کہتے کہ کس دشمن نے آخری جمعہ کے بعد کے دنوں کو غیر اہم بنانے اور جاہل مسلمانوں کو اشارہ دینے کی کوشش کی ہے کہ اسکے بعد چاہے روزہ رکھو نہ رکھو چاہئے مسجد میں نماز کے لئے جاؤ یا نہ جاؤ ۔مولانا ہارون نے 26جگہ جمعہ کا لفظ استعمال کیا ہے لیکن ایک جگہ بھی نہیں بتایا کہ اللہ تعالی نے یا رسول کریم نے یا صحابہ کی جماعت نے جمعۃ الوداع میں وہ کیا کیا جو دوسرے جمعوں میں کیا تھا ۔؟ہم برسوں سے اسکی تحقیق میں لگے ہیں کہ وہ کو ن اسلام کا دشمن ہے جس نے رمضان کے آخری جمعہ کو چھوٹی عید کا درجہ بتایا ہے ۔اور جاہل مسلمانوں کو بے وقوف بنانے کے لئے اورپیشہ ور امام اسے اپنے لئے سوغات سمجھتے ہیں ۔
ہم قیصر باغ والے مکان میں 2004میں آئے تھے ۔اور رمضان المبارک میں آئے تھے ۔گھر کے قریب مسجد تھی اسکے امام عالم دین نہیں تھے لیکن بہت دین دار اور تعلیم یافتہ تھے انہوں نے ’’آخری جمعہ کو خطبہ پڑھاتو یہ بھی پڑھا کہ ’’الوداع الوداع یا شہر رمضان الوداع‘‘محلہ میں ہمیں آئے ہوئے صرف 2ہفتے ہوئے تھے اور مسجد میں جو سو سے زیادہ نمازی تھے ان میں جاننے والے کم تھے ۔اگر ہم سال بھر پہلے آگئے ہوتے تو یہ سننے کے بعد کھڑے ہو کر امام صاحب کے ہاتھ سے خطبوں کی کتاب چھین کر پھاڑ نا دینی فریضہ سمجھتے ۔
نماز کے بعد ہم نے امام صاحب سے کہا کہ کیا کل سے روزہ نہ رکھنا چاہئے ؟آپ نے شہر رمضان کو الوداع کردیا ۔اور الوداع تو اسوقت کیا جاتا ہے جب کوئی رخصت ہوتا ہے ۔امام صاحب نے فرمایا کہ یہ خطبہ کتاب میں چھپا ہوا ہے ۔اور انھوں نے کتاب ہمارے سامنے رکھدی ۔ہم سمجھ گئے کہ کسی شیطان کی شرارت ہے جسنے ایک خطبہ جمعۃ الوداع کا بنا کر چھپوا دیا کل رمضان کا چوتھا اور آخری جمعہ تھا بالکل اتنا ہی فضیلت والا جتنا پہلا اور تیسرا تھا دین کے نام پر کوئی بھی ایسا کام کرنا جو دین نہ ہو یعنی اللہ تعالی نے اسکے رسول ؐ نے اور صحابہ کی جماعت نے نہ بتا یا ہو وہ بد عت ہے اور حدیث کے الفاظ ہیں :’’کل بدعۃ ضلالہ وکل ضلالۃ فی النار‘‘ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی کا انجام جہنم ہے ۔اب تلاش کیجئے اس شیطان کو جس نے یہ بدعت مسلمانوں میں پھیلائی اور اس آخری عشرہ کا جمعہ جس کی ہر منٹ کی عبادت جنت میں لے جانے والی تھی اسے جہنم میں جانے کے راستے پر لگادیا ۔دہلی کی جامع مسجد اور لکھنو کی ٹیلہ والی مسجد کے بارے میں تو معلوم ہے کہ جاہل مسلمان وہاں آخری جمعہ کی نماز پڑھنے کا زیادہ ثواب مانتے ہیں اور اسی لئے وہاں میلہ لگتا ہے دوسرے صوبوں کے شہروں میں بھی ہوتا ہوگا ۔جو مسلمان ان مسجدوں میں زیادہ ثواب سمجھ کر نماز پڑھے ۔یا جو امام مسلمانوں کو زیادہ ثواب کا لالچ دے وہ جاہل مسلمانوں کو جہنم میں بھیج رہا ہے ۔اور اگر وہ خود بھی اسے الوداع مان رہا ہے تو وہ بھی کسی بڑے مفتی سے معلوم کرے کہ اسکا حشر کیا ہوگا ۔؟ الوداع کے لفظ کا اضافہ صرف شرارت ہے اور اس لئے ہے کہ مسلمان آخری عشرہ کے ہر ثواب سے محروم رہ جائیں ۔

تبصرے بند ہیں۔