میاں بیوی کے اچھے اور برے تعلقات کے اثرات و نتائج

عبدالعزیز

 اسلام عائلی زندگی کو بہتر اور مستحکم بنانے کیلئے ایسے اصول و ضوابط واضح کرتا ہے جس سے ایک مثالی خاندان وجود میں آسکے اور خاندان کے ذریعہ صالح معاشرہ کی بنیاد پڑ سکے۔ اچھے اور صالح خاندان کے بغیر ایک صالح معاشرہ کا وجود  اور تصور ممکن نہیں ہوسکتا۔

 اسلام اجتماعی اور انفرادی زندگی کیلئے جو حدود اور آداب متعین کرتا ہے، اس کی تربیت کیلئے پہلا ادارہ گھر کو قرار دیتا ہے۔ اسلام کی نگاہ میں گھر ایک ایسی اکائی ہے جو اجتماعیت کی پہلی کونپل ہے۔ اسی سے خاندان کی تنظیم ہوتی ہے، یہی آگے بڑھ کر معاشرہ کی صورت اختیار کرتا ہے اور اسی سے ریاست وجود میں آتی ہے، چنانچہ قرآن کریم نے اس گھر کی حقیقی حیثیت کو واضح کرنے کیلئے اس کو حسن قرار دیا ہے اور نکاح کو احصان کا نام دیا ہے۔ گویا یہ گھر انسانی معاشرے کی پہلی اکائی کا قلعہ ہے اور نکاح کے ذریعے سے اس کی قلعہ بندی کی جارہی ہے۔ جس میں رہنے والے دوسرے انسانوں کی طرح جنسی خواہشات رکھتے ہوئے بھی شرم و حیا اور عفت و پاکدامنی کے قلعے میں محصور رہ کر زندگی گزاریں گے اور جس میں پیدا ہونے والا بچہ انتہائی پاکیزہ اور محفوظ نسب کا حامل ہونے کی وجہ سے والدین کے خسائل حسنہ اور صفات حمیدہ کا امین ہوگا اور اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی کہ جہاں اس رشتے کا مقصد عفت اور پاک دامنی پیدا کرنا ہے۔ وہاں اس گھر میں رہنے والوں میں مؤدت اور رحمت کے جذبات پیدا کرنا بھی مقصود ہے کیونکہ کوئی قلعہ محض اینٹوں کی پختگی اور مضبوطی سے پائیدار نہیں ہوتا بلکہ قلعے میں رہنے والے اس کے مورچوں میں بیٹھنے والے لوگوں کی باہمی محبت، گہرے تعلق اور باہمی ہم آہنگی سے پائیداری اور استواری وجود میں آتی ہے۔

ان تصورات کے پیش نظر یہ بات سمجھنا بہت آسان ہوجاتا ہے کہ گھر کی یہ چھوٹی سی وحدت حقیقت میں ایک چھوٹی سی ریاست ہے جس کے زیر سایہ رہنے والوں کی حفاظت ان کی عادات و اطوار کی درستی، ان کے اعمال و افکار کی تہذیب و تنقیح اس ریاست کا اولین مقصد ہے ۔ اور مزید یہ کہ یہ ریاست اپنے نظریاتی مقاصد بھی رکھتی ہے اور پھر اپنے زیر سایہ رہنے والوں میں باہمی ہم آہنگی اور مودت و رحمت کے جذبات بھی پیدا کرنا چاہتی ہے یقینا اس کا کوئی نہ کوئی سربر راہ کار، کوئی نہ کوئی نگران اور منتظم اور کوئی نہ کوئی امیر اور حاکم ہونا چاہئے، اس لئے کہ دنیا کی ریاست تو خیر دور کی بات ہے ایک چھوٹے سے چھوٹا ادارہ بھی تقسیم کار اور تقسیم اختیارات اور سربراہی کا فیصلہ کئے بغیر اولاً تو وجود میں ہی نہیں آتا اور اگر وجود میں آجائے تو باقی نہیں رہتا اور اگر یہ تصور کرلیا جائے کہ جس ادارے میں جتنے افراد کام کرتے ہیں وہ سب برابر کے اختیارات رکھیں گے اور کوئی کسی کو کسی غلطی پر ٹوکنے کا مجاز نہیں ہوگا بلکہ ہر کوئی اپنی مرضی کا مالک ہوگا تو آپ پورے وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ ایسا ادارہ چند دن بھی باقی نہیں رہ سکتا۔ پوری دنیا میں اس مسلمہ حقیقت کا چلن ہم عام دیکھتے ہیں کہ اداروں اور ریاستوں میں کام کرنے والے لوگ جس طرح مختلف فرائض رکھتے ہیں اسی طرح مختلف حیثیتوں کے مالک بھی ہیں ۔

کسی انتظامی شعبے کا کوئی ایک سیکشن بھی دیکھ لیجئے اس میں باہر آپ کو ایک نائب قاصد ملے گا، اندر کام کرنے والے چند کلرک دکھائی دیں گے، ان کے اوپر ایک ہیڈ کلرک ہوگا پھر ان کی نگرانی کیلئے ایک اسسٹنٹ اور پھر سپرنٹنڈنٹ ہوگا اور سب کے اوپر رہنمائی اور نگرانی کیلئے ایک سیکشن آفیسر ہوگا۔ غور کیجئے! یہ تمام انسان ہونے کے اعتبار سے برابر ہیں لیکن صلاحیتوں کے اعتبار سے اختیارات کے اعتبار سے اور اپنی حیثیت کے اعتبار سے ہر گز برابر نہیں ۔ یہ حال اس ایک سیکشن کا ہے جس کو دن بھر میں چند گھنٹے کام کرنا ہے اور چند ذمہ داریاں ادا کرنا ہیں ۔ رہا وہ گھر جس کے رہنے والوں کو زندگی بھر اکٹھے رہنا ہے اور جن کے سپرد نوع انسانی کی آئندہ ہونے والی نسل کی زندگی اور ان کے فکر و عمل کی درستی کی ذمہ داری ہے اسے اگر اس سوال کو حل کئے بغیر چھوڑ دیا جائے کہ اس چھوٹی سی ریاست کا سربراہ کون ہوگا؟ اور اس گھر میں رہنے والے باقی افراد کی حیثیت کیا ہوگی؟ یعنی ان کے حقوق و فرائض کا تعین کیسے کیا جائے گا؟ تو یہ بات سمجھنا کوئی مشکل نہیں کہ یہ گھر باقی نہیں رہ سکتا۔ اب سوال یہ ہے کہ یہ ریاست جس کا آغاز دو افراد یعنی میاں اور بیوی سے ہورہا ہے ان دونوں میں سے کس کو سربراہی کے مقام پر فائز کیا جائے؟ دونوں تو سربراہ نہیں ہوسکتے، اس لئے کہ یہ عقل اور انسانی تجربے کے خلاف ہے۔ کسی ایک کو بہر حال سربراہ بننا ہے تو وہ مرد ہو یا عورت؟ قرآن کریم کا جواب یہ ہے کہ یہ مقام مرد کو حاصل ہے۔ ارشادِ خداوندی ہے:

  اَلرِّجَاُل قَوَّامُوْنَ عَلَی النِّسَآئِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰہُ بَعْضَھُمْ عَلٰی بَعْضٍ وَّ بِمَا اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِھِمْ  ط

 ’’مرد عورتوں کے سربراہ منتظم اور سرپرست ہیں بوجہ اس کے کہ اللہ نے ایک کو دوسرے پر فضیلت بخشی ہے اور بوجہ اس کے کہ انھوں نے اپنا مال خرچ کیا ہے‘‘۔ (القرآن)

 قَوَّام کا معنی ’’حاکم، محافظ، سربراہ کار، معاملات کا منتظم اور نگران‘‘ کے ہیں ۔ عربی زبان میں قائم کے بعد علی آتا ہے تو اس کے اندر نگرانی کفالت اور تولیت کا مضمون پیدا ہوجاتا ہے۔ قوامون علی النساء میں بالاتری کا مفہوم بھی ہے اور کفالت اور تولیت کا بھی ۔

  یہ مرد کا قوام ہونا بلا وجہ نہیں بلکہ اس پر قرآن کریم نے اسی آیت میں دو دلائل بھی مہیا فرمائے ہیں ۔

   اللہ تعالیٰ نے مرد کو عورت پر فضیلت بخشی ہے مرد کو بعض صفات میں عورت پر نمایاں تفوق حاصل ہے۔ جس کی بنا پر وہ سزا وار ہے کہ قوامیت کی ذمہ داری اسی پر ڈالی جائے۔ مثلاً محافظت و مدافعت کی جو قوت و صلاحیت یا کمانے اور ہاتھ پاؤں مارنے کی جو استعداد اور ہمت اس کے اندر ہے وہ عورت کے اندر نہیں ہے۔ یہ امر ملحوظ رہے کہ یہاں زیر بحث کلی فضیلت نہیں ہے بلکہ صرف وہ فضیلت ہے جو مرد کی قوامیت کے استحقاق کو ثابت کرتی ہے۔ بعض دوسرے پہلو عورت کی فضیلت کے بھی ہیں لیکن ان کا قوامیت سے تعلق نہیں مثلاً عورت گھر در سنبھالنے اور بچوں کی پرورش و نگہداشت کی جو صلاحیت رکھتی ہے وہ مرد نہیں رکھتا۔ اسی وجہ سے قرآن کریم نے یہاں بات ابہام کے انداز میں فرمائی ہے جس سے مرد اور عورت دونوں کا کسی نہ کسی پہلو سے صاحب فضیلت ہونا نکلتا ہے لیکن قوامیت کے پہلو سے مرد ہی کی فضیلت کا پہلو راحج ہے۔

دوسری دلیل یہ ہے کہ مرد نے عورت پر اپنا مال خرچ کیا ہے یعنی بیوی بچوں کی معاشی اور کفالتی ذمہ داری تمام تر اپنے سر اٹھائی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ ذمہ داری مرد نے اتفاقیہ یا تبرعاً نہیں اٹھائی ہے بلکہ اس وجہ سے اٹھائی ہے کہ یہ ذمہ داری اسی کے اٹھانے کی ہے۔ وہی اس کی صلاحیتیں رکھتا ہے اور وہی اس حق کو ادا کرسکتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مرد کی اس حیثیت کو واضح کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

 ’’اَلرَّجُلُ رَاعٍ عَلٰی اَہْلِہٖ وَ مَسْئُوْلٌ۔

’’مرد اپنے اہل خانہ کا نگران ہے اور اسی سے اس نگرانی کے حوالے سے سوال کیا جائے گا‘‘۔

مرد کو چونکہ گھر کی راہنمائی، نگرانی، گھر بھر کی ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھانے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے اور پھر قیامت کے دن اسی حوالے سے اس سے سوال بھی کیا جائے گا۔ واضح بات ہے کہ جب کسی پر ذمہ داری ڈالی جاتی ہے تو پھر اس کو اختیارات بھی دیئے جاتے ہیں اس لحاظ سے مرد کوبھی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ ایسے حقوق عطا کئے گئے اور ایسے اختیارات دیئے گئے ہیں جن کو کام لاکر وہ باحسن طریق اپنی ذمہ داریاں ادا کرسکتے ہیں ۔

 حقیقت یہ ہے کہ مرد کو بیوی پر جو بھی حقوق حاصل ہیں اس کی بنیاد مرد کا قوام ہونا اور گھر کی اس حیثیت اور کردار کا تسلیم کرنا ہے جس کا ذکر سابقہ سطور میں کیا گیا ہے۔ اگر ان دونوں بنیادی باتوں کو قبول نہ کیا جائے تو پھر ایک عورت کیلئے مرد کے حقوق یعنی اپنی ذمہ داریوں کو تسلیم کرنا چنداں آسان نہیں ۔ یہ وہ بنائے نزاع ہے جس نے آج مرد و رعورت کے تعلق کو الجھا کر رکھ دیا ہے اور اولاد کی تربیت روز بروز زوال کا شکار ہے۔ دنیا کا کوئی ادارہ بھی جسے کوئی مثبت اور تعمیری کام سر انجام دینا ہے۔ یہ صورت حال قبول نہیں کرسکتا کہ اس میں فرائض ادا کرنے والے نہ اپنے سامنے اہداف کو اہمیت دیں اور نہ کسی کی نگرانی اور راہنمائی کو قبول کریں ۔ بس ان کے سامنے زندگی سے لطف اٹھانے، داد عیش دینے اور کھانے پینے کے سوا کسی چیز کی کوئی اہمیت نہ ہو۔ اگر دنیا میں معمولی نوعیت اور مختصر دائرہ میں اثر انداز ہونے والے اداروں کا یہ حال ہے تو زندگی کو وجود بخشنے والا ادارہ یعنی انسان کا مولد و مبدا اور پھر اس کی نشأۃ و ارتقاء کا ضامن اور اس کے افکار و اعمال کی پہلی تربیت گاہ کے معاملے میں یہ رویہ کہاں تک قابل قبول ہوسکتا ہے کہ میاں بیوی کے بارہ میں یہ احمقانہ تصور قبول کرلیا جائے کہ مرد و عورت کی برابری اور مساوات کا مفہوم یہ ہے کہ عورت مرد بن کر زندگی گزارے گی اور اس کا دائرہ کار بھی وہی ہوگا جو مرد کا دائرہ کار ہے۔ پھر پروپیگنڈا کے زور اور آزادیِ نسواں کے پُر فریب نام سے عورت کو ایسا بے وقوف بنایا گیا ہے جس کے نتیجے میں عورت پوری طرح جسمانی، روحانی اور اخلاقی استحصال کا شکار ہوئی۔ وہ عورت جس کی گود میں تاریخ کی بڑی سے بڑی عظمتوں نے آنکھیں کھولی تھیں اور جس کے پاؤں تلے جنت کی نوید سنائی گئی تھی اس کی گود بھی اجڑ گئی اور اس کا بڑھاپا بھی رسوا ہوگیا۔ انسانیت کی اس تذلیل میں چونکہ مرد بھی عیارانہ کردار ادا کیا ہے، اس لئے دونوں کو قدرت سزا دے رہی ہے کہ کہیں آئے دن عہد وفا کی شکست و ریخت نے خود کشی کی وارداتوں کے تناسب کو تشویشناک حد تک بڑھا دیا ہے اور کہیں نرسنگ ہومز اور اولڈ ہومز کی صورت میں انسانیت تذلیل کا شکار ہوکر اپنی آنکھوں سے اپنے انجام کو دیکھ رہی ہے۔

غضب خدا کا کہ عورت کو آزادی کے نام پر گھر سے نکالا اور اس نے اس پروپیگنڈے کا شکار ہوکر گھر کی چار دیواری میں محصور ہونے اور چھوٹے بہن بھائیوں ، شوہر اور بچوں کی خدمت سے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ چولجھا جھونکنا اور دوسروں کی خدمت کرنا میری توہین ہے۔ میں اس رجعت پسندی اور دقیانوسیت کو قبول کرنے سے انکار کرتی ہوں ، لیکن اس کا نتیجہ کیا ہوا کہ جس عورت کو گھر میں بیٹھنا اور اہل خانہ کی خدمت رجعت پسندی معلوم ہوتی تھی وہ ہوٹلوں میں ویٹرس بنی ہوئی دن رات لوگوں کی خدمت میں لگی ہوئی ہے۔ ہوٹلوں میں بستروں کی چادریں بدل رہی ہے۔ ہوائی جہازوں میں ایئر ہوسٹس بن کر سینکڑوں مہمانوں کی جا و بے جا ناز برداریاں کر رہی ہے اور ہوسناک نگاہوں کا نشانہ بنی ہوئی ہے۔ اسی پر بس نہیں دفتروں میں اسٹینو گرافر یا کسی صاحب کی سکریٹری بن کر متاعِ دین و دانش لٹا رہی ہے۔

 مختصر یہ کہ اسلام کے نزدیک اس خرابی کی تمام تر ذمہ داری اور انسانیت کی اس تذلیل کا تمام تر انحصار مرد و عورت کے تعلق کے غلط ہونے پر ہے، اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ اس کی اصلاح کی جائے۔ وہ اسی طرح ممکن ہے کہ ان دونوں کو ان کے حقیقی مقام اور اپنے اپنے فرائض سے آگاہ کیا جائے، اس لئے وہ سب سے پہلے اس تعلق کو درست کرنے کیلئے مرد کے قوام ہونے کا اعلان کرتا ہے اور پھر اسی حوالے سے اس کے حقوق کا ذکر کرتا ہے۔

1 تبصرہ
  1. آصف علی کہتے ہیں

    کسی بهی شادی شدہ مرد کا اور کسی شادی شدہ عورت کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ اپنے جیون ساتهی کو دهوکا دیں.
    بہت سے دین دار بهی اس بیماری میں مبتلا ہیں وہ اس بات کو عیب نہیں سمجهتے.
    آپ کی روز کی غیر محرم سے بات چیت (چاہے موبائل پر یو یا اسکائپ ،واٹس اپ یا فیس بک پر ) یہ بات آپ کو تباہی تک لے جائے گی ,کیونکہ بات شروع میں سلام سے شروع ہوتی ہے اور بعد میں زنا تک لے جاتی ہے.
    مرد وعورت نیٹ چیٹ کے ذریعہ کیا کرتے ہیں اور انہیں اس سے بچائيں ، کیونکہ اس میں فتنے کا ثبوت ملتا ہے اور یہ ثابت ہوچکا ہے اور پھر اس کے بعد ملاقاتیں اورٹیلی فون کالیں وغیرہ بھی اور بعد میں کیا نہیں ہوتا ؟
    اپنے ساتهی پر سب سے بڑا ظلم شوہر یا بیوی کا کہ کسی غیر محرم سے تعلقات استوار کر نا ہے۔ نکا ح کے بغیر کسی سے تعلقات قائم کرنا بہت بڑا گناہ ہے ۔ بعض لوگ اپنے ضمیر کو مطمئن کر نے کے لئے یا غیر محرم سے تعلقات قائم کر نے کے اپنے قبیح فعل کی طرفداری میں جھو ٹے بہانے گڑھ لیتے ہیں ۔ مثلاً بیوی ہر وقت لڑتی جھگڑ تی رہتی ہے۔ وہ کاہل اور سست الوجود ہے ۔ بن سنور کر نہیں رہتی ۔ نا فرماں بردار ہے وغیرہ وغیرہ ۔ ان بہا نوں کا کسی غیر عورت کے ساتھ تعلقات قائم کر نے کا کوئی جواز نہیں۔
    یا شوہر توجہ نہیں ديتا، میں سارا دن کام میں لگی رہتی ہوں اور اس طرح کی بہت سی باتیں,
    مردوں کو یہ جان لینا چاہئيے کہ اگر چہ ان کی بیویاں مکمل طور پر نافرں بردار ہی کیوں نہ ہوں یہ امر انہیں اس بات کی ہر گز اجازت نہیں دیتا کہ خود کو حرام کا ری میں الجھائیں ۔ غیر مرد و زن کا با ہمی اختلاط کسی طور جائز نہیں ۔ ایسے مغربی افکا ر کی اسلام میں کوئی جگہ نہیں ہے۔
    اگر خاوند یا بیوی کو اپنی بیوی یا شوہر کے کسی دوسرے شخص کے ساتھ تعلقات کا علم ہو جائے تو اس کے دل پر کیا گزرے گی ؟
    ایک مسلمان (مردو عورت)جو خود کو ایسی حرام کاری میں ملوث کرتا ہے وہ اپنی بیوی(شوہر) ، اولاد اور اپنے دین سے غداری کا مر تکب ہوتا ہے۔
    وہ اپنے ذہن میں تصور کرے بیوی گھر کی چار دیواری میں مقید اپنے ذہن میں شوہر کی محبت بسائے گھر کے کام کاج میں اور بچوں کی دیکھ بھال میں مصروف رہتی ہے۔ ہر وقت اس کے آرام کے لئے متفکر رہتی ہے اور اشتیاق بھری نگا ہوں سے اس کی گھر میں واپسی کی منتظر رہتی ہے ۔
    عورت کے لئے اس کا شوہر دنیا کے تمام مردوں سے بڑھ ہونا چاہیے۔
    ایک وفادار بیوی بیماری کی حالت میں اتنی لگن سے تیماداری اور خدمت کر تی ہے کہ اسے اپنی سدھ بدھ بھی نہیں رہتی ۔ وہ اپنے آرام اور خوشی کو تیاگ کر اس کو زیادہ سے زیادہ آرام وسکون پہنچانے کی کو شش کرتی ہے ۔ اس کی خوراک اور لباس کا خاص خیال رکھتی ہے ۔ بیوی کی ان بے لوث خدمات کے بعد اگر شوہر غیر محرم عورت سے تعلقات بڑھاتا ہے تو اس سے بڑھ کر نا شکر گزار اور کون ہوگا ؟ وہ ایسی حما قت کر کے اپنی بیوی کی پیٹھ میں چھرا گھونپتا ہے.
    اسی طرح شوہر سارا دن رزق کے لیے بهاگ دوڑ میں لگا رہتا ہے تاکہ اپنے بیوی بچوں کو زیادہ سے زیادہ سہولیات مہیا کر سکے اور اگر اتنی محنت کے بعد بیوی ایسے کام کرے تو کیا یہ ٹهیک ہے؟
    کیا یہ ایک مومن کے طور طریقے ہو سکتے ہیں؟ کیا ایسی حرکتیں ایک پاکباز شوہر یا بیوی کو زیب دیتی ہیں ؟
    ایسے میاں بیوی اپنے اس قبیح فعل کے لئے اللہ تعالیٰ کے ہاں جو ابدہ ہیں ۔ بے وفائی کا ارتکاب کر کے وہ اپنے ساتهی کے سامنے بھی جو ابدہ ہیں۔ غلط مثال قائم کر کے وہ اپنے اس ظلم کے لئے اپنے بچوں کے سامنے بھی جوابدہ ہیں.. اسے چاہئے کہ غیر محرم کے چنگل سے خود کو آزاد کر ائے اور اس کے لئے ہر تدبیر اختیا ر کرے ۔ اگر وہ واقعی پشیمان اور برائی سے بچنے کی خواہش میں مخلص ہے ۔ اللہ سے خلوص دل سے مدد چاہے ۔ یقینا اس دلدل سے باہر نکل آئے گا ۔
    ”اِنَّ الَّذِینَ اتَّقَوا اِذَا مَسَّھُم طَائِف مِّنَ الشَّیطَانِ تَذَکَّرُوا فَاِذَا ھُم مُبصِرُونَ (اعراف201)
    ”بے شک جو لوگ الله سے ڈرتے ہیں جب انہیں شیطان چھوتا ہے وہ چونک جاتے ہیں اور ان کی آنکھیں کھل جاتی ہیں۔“.

تبصرے بند ہیں۔