اردو اور قومی یکجہتی

جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ اردو ایران یا عرب سے ہندستان آئی ہے یا عربی اور فارسی کی کوکھ سے پیدا ہوئی ہے ۔ وہ لوگ دراصل اردو زبان کی تاریخ سے واقف نہیں ہیں اور ایسی گمراہ کن افواہیں سیاسی بازیگروں کے ذریعہ جان بوجھ کر پھیلائی گئی ہیں۔ میں ان سے کہنا چاہوں گا کہ اردو خالص ہندستانی زبان ہے اور یہ زبان قومی یکجہتی کی کوکھ سے پیدا ہوئی ہے۔ اس کے لیے کسی ثبوت کی ضرورت نہیں ہے۔ اس لیے کہ کیا کبھی یہ سوال ہندی، بنگلہ ، پنجابی یا کسی بھی ہندستانی زبان سے پوچھا گیا کہ وہ ہندستان میں پیدا ہوئی ہے یا نہیں؟ اور اس زبان میں قومی یکجہتی ہے یا نہیں؟ اگر یہ سوال کسی اور زبان سے نہیں پوچھا گیا تو پھر میں یہ پوچھنا چاہتا ہو ں کہ آخر اردو سے ہی یہ سوال بار بار کیوں کیا جاتا ہے؟ اردو کی ہندستانیت پر انگلی اٹھانے کی ہمت کیوں کی جاتی ہے؟ اردو پر قومی یکجہتی، حب الوطنی اور رواداری کے حوالے سے شک و شبہے کا اظہار کیوں کیا جاتا ہے؟ ان سوالات کا صرف ایک ہی جواب ہے اور وہ جواب ہے گندی، گھناؤنی، تعصب انگیز اور نفرت آمیز سیاست۔ مگر اردو کا شاعر تمام ہندستانیوں کو یہ پیغام دیتا ہے کہ :
ان کا جو کام ہے، وہ اہلِ سیاست جانیں
میرا پیغام محبت ہے، جہاں تک پہنچے
زبانوں کی تاریخ کا ادنیٰ سے ادنیٰ سے طالب علم بھی یہ بات اچھی طرح جانتا ہے کہ اردو خالص جدید ہند آریائی زبان ہے اور یہ زبان کھڑی بولی، ہریانوی او ربرج بھاشا کے محبت بھرے ملن سے پیدا ہوئی ہے۔ اردو کی جنم بھومی ہندستان کا دل یعنی دلّی اور اُس کے آس پاس کا علاقہ ہے اور اردو کی سب سے بڑی ڈکشنری فرہنگ آصفیہ میں کل 59ہزار الفاظ ہیں جن میں50فی صدی الفاظ ہندستانی ہیں25%الفاظ ہندی اور فارسی کے میل سے بنے ہیں اور باقی25%الفاظ عربی، فارسی اور ترکی وغیرہ ہیں۔
اردو کی وہ کون سی صنف ہے جو ہندستان کی مٹی کے خمیر میں لُتھڑی ہوئی نہ ہو۔ شاعری میں قصیدہ ، مثنوی، مرثیہ، غزل اور نظم ہو یا نثر میں داستان، ناول اور افسانہ وغیرہ ہو۔ غرض کہ ہر صنف کی رگوں میں ہندستانی مٹی، دریا، پہاڑ، سمندر، جنگلات، گاؤں اور شہر کا تازہ خون رواں دواں ہے۔ قصیدے کی بات کریں تو سو داؔ ، ذوقؔ اور غالبؔ ہو یا محسن کاکوروی کسی بھی شاعر کا کوئی بھی قصیدہ اٹھا لیجیے اُس کے ہر لفظ سے ہندستان کی شان و شوکت ٹپکے گی ۔ ذوقؔ کا شعر سنیے:
ساون میں دیا پھر مہِ شوال دکھائی
برسات میں عید آئی قدح کش کی بن آئی
ساون کا مہینہ ،اُس مہینے کی برسات اور برسات میں عید کی خوشی151 صرف اور صرف ہندستان میں ہی ممکن ہے۔ محسن کاکوروی نے پانچ قصیدے لکھے اور سارے قصیدے حضور ﷺ کی شان میں لکھے۔ لیکن محسن کاکوروی کے اُن قصیدوں کو پڑھنے سے محسوس ہوتا ہے کہ جیسے حضورؐ عرب کے ریگزاروں میں نہیں بلکہ ہندوستان کی جل تھل دھرتی میں پیدا ہوئے اور حضورؐ کا وطن متھرا اور بنارس کے درمیان ہی کسی علاقے میں ہے۔ اُسی طرح صنف مثنوی کو لے لیجیے ۔ میر حسن کی مثنوی سحر البیان میں دلّی کی تہذیب چلتی پھرتی نظر آتی ہے تو پنڈت دیاشنکر نسیم کی مثنوی گلزار نسیم میں لکھنوی تہذیب رقص کررہی ہے۔ اب ذرا مرثیے کو ہاتھ لگا کر دیکھ لیجیے۔ مرثیہ کا ہیرو امام حسین اور ان کے گھر کے بچے، عورتیں سب کے سب ہندستان کے رہنے والے لگتے ہیں وہ کسی عرب گھرانے کے لوگ نہیں ہیں۔ ان کا لباس، کھانا پینا، رہن سہن، طور طریقہ اور بات چیت سبھی کچھ ہندستانی ہے۔ میر انیس کے مرثیے کا ایک شعر سنیے:
بانوئے نیک نام کی کھیتی ہری رہے
صندل سے مانگ ، بچوں سے گودی بھری رہے
اب کہاں امام حسینؓ کی بیوی شہربانو اور کہاں اُن کی مانگ میں سندور! حضرت شہربانو کی مانگ سندور سے اور گودی بچوں سے بھری رہنے کی دعا کوئی عربی تہذیب و ثقافت کی چیز کہاں ہے؟ یہ تو خالص ہندو تہذیب ہے۔ ہندوساس اور نند اپنی بہو اور بھاوج کو ایسی دعائیں دیتی ہیں۔
اردو نظم کیا ہے؟ بھلا کون نہیں جانتا کہ اردو نظم کی شروعات ہی فطری مناظر، ہندستانی رسوم و رواج اور حب الوطنی سے ہوتی ہے۔ میں یہ بات پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ آپ کسی بھی اردو شاعر کی کسی بھی نظم پر آنکھ بند کرکے انگلی رکھ دیجیے اور پڑھ کر دیکھیے تو معلوم ہوگا کہ یہ تو ہندستانی رنگ و آہنگ اور ہندستانی تہذیب و ثقافت میں ڈوبی ہوئی ہے۔ قلی قطب شاہ سے لے کر نظیر اکبر آبادی تک صرف ان نظموں کے عنوانات ہی دیکھ لیجیے تو پتہ چلے گا کہ ہولی،دیوالی، عید ، میلہ ٹھیلہ وغیرہ ان سب پر انھوں نے خوب نظمیں لکھیں اور بہار کے گیت گائے۔
بیس و یں صدی کی ابتدا سے تو اردو نظموں میں حب الوطنی کے باقاعدہ ترانے گائے جانے لگے۔ اقبال، جوش، فیض ، چکبست، جمیل مظہری، تلوک چند محروم اور سرور جہان آبادی کن کن کا نام لیا جائے۔ خاص کر بعض تاریخ سے بے بہرہ لوگ اقبال کو ملک کے بٹوارے اور پاکستان بنانے کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں لیکن اقبال کی شاعری کو اٹھاکر دیکھ لیجیے۔ بھلا وہ کون سنگ دل ہے جو لتا منگیشکر کی جادو بھری آواز میں:
سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا
ہم بلبلیں ہیں اس کی، یہ گلستاں ہمارا
سنے اور وطن کی محبت میں اُس کے دل کی دھڑکن بے قابو نہ ہوجائے۔ وہ اقبال ہی تھے جنھوں نے قومی یکجہتی کا یہ محبت بھرا پیغام سنایا کہ:
مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا
ہندی ہیں ہم، وطن ہے ہندوستاں ہمارا
اور اردو غزل تو ہے ہی سراپا الفت و محبت، انسان دوستی، مذہبی رواداری ، سیکولرزم، جمہوری اور تہذیبی قدروں کی امین، ترجمان اور پاسبان۔
سوداؔ نے کہا :
کعبہ اگرچہ ٹوٹا تو کیا جائے غم ہے شیخ
کچھ قصرِ دل نہیں کہ بنایا نہ جائے گا
میرؔ کہتا ہے:
اُس کے فروغِ حسن سے جھمکے ہے سبب میں نور
شمعِ حرم ہو یا کہ دیا سومنات کا
ذوقؔ چٹکی لیتا ہے کہ:
اے زہدِ خشک، تیری ہدایت کے واسطے
سوغاتِ عشق لائے ہیں کوئے بتاں سے ہم
غالب کی رواداری دیکھیے:
وفاداری بشرطِ استواری اصل ایماں ہے
مرے بت خانے میں تو کعبے میں گاڑو برہمن کو
امیرؔ مینائی کا درد دیکھیے کہ:
خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیرؔ
سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے
جوش ملیح آبادی کی رواداری ملاحظہ فرمائیں کہ:
حرم ہو، مدرسہ ہو، دیر ہو، مسجد کہ مے خانہ
یہاں تو صرف جلوے کی تمنا ہے کہیں آجا
کلیم عاجز نے پیغام دیا کہ:
اپناتو کام ہے کہ جلاتے چلو چراغ
رستے میں چاہے دوست یا دشمن کا گھر ملے
اور ارریہ کا ایک شاعر فرقہ پرستوں کا مذاق یوں اڑاتا ہے کہ:
کچھ کام نہیں ہے تو پھر اے شیخ و برہمّن
اللہ کو ایشور سے لڑا کیوں نہیں دیتے
الغرض !اردو محبت کی زبان ہے۔ ہندستان کی زبان ہے۔ قومی یکجہتی اور انسان دوستی کی زبان ہے۔ اب یہاں ایک اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس زبان نے ملک کو انگریزوں کی غلامی سے نجات دلانے کے لیے بھی کوئی کردار ادا کیا؟ یہ سوال بھی اکثرسیاسی بازیگروں کی طرف سے اس طرح اٹھایا جاتا ہے جیسے اردو کو جرمِ غداری اور ملک دشمنی کی وجہ سے عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کرکے اُس سے اُس کی حب الوطنی اور قومی یکجہتی کا ثبوت طلب کیا جارہا ہو۔ میں یہاں پر یہ بات پورے دعوے کے ساتھ کہنا چاہوں گا کہ جنگِ آزادی میں اردو نے صرف انقلابی کردار ہی ادا نہیں کیا بلکہ اردو دراصل مجاہدینِ جنگ آزادی کی ’’مادری زبان‘‘ تھی۔ تاریخ گواہ ہے کہ شہید بھگت سنگھ کی مادری زبان اردو تھی۔ اس کے دستاویز آج بھی نیشنل آرکایوز میں محفوظ ہیں۔ اور شہید بھگت سنگھ نے ہی سب سے پہلے ’’انقلاب زندہ باد‘‘ کا نعرہ بلند کیا تھا اور یہ نعرہ خالص اردو کا نعرہ ہے۔ کیا یہی کارنامہ کم ہے کہ اردو نے جنگ آزادی کو انقلاب کا نعرہ عطا کیا۔ اور تاریخ کے اوراق اس بات کی بھی گواہی دیتے ہیں کہ انگریزوں سے لڑتے ہوئے جنگِ آزادی کے شیروں اور سورماؤں کے ہونٹوں پر مچلتے اور رقص کرتے ہوئے نغمے اور ترانے بھی اردو زبان کے ہی ہوتے تھے۔ بسملؔ عظیم آبادی کا یہ شعر ہر مجاہدِ آزادی گنگناتا تھا کہ:
سر فروشی کی تمناّ اب ہمارے دل میں ہے
دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے
یہاں میں اپنی بات اپنی ایک نظم ’’میں اردو زبان ہوں‘‘ کے آخری حصے پر ختم کرنا چاہوں گا ۔ کیوں کہ اس نظم کا موضوع ہی اردو اور قومی یکجہتی ہے۔ لیکن آج یہ زہر پھیلایاجارہا ہے کہ اردو غداروں کی زبان ہے۔ ذرا میری نظم کا یہ حصہ بغور ملاحظہ کیجیے:
’’میں اردو زباں ہوں/ میں تاریخ و تہذیبِ ہندوستاں ہوں/ میں ہندوستانی ہوں، رشک جہاں ہوں/ جہانِ محبت کی میں پاسباں ہوں/مگر پاسبانِ وطن مجھ کو غدار کہنے لگے ہیں/ تو غدار ہونے کا مطلب مسلماں ہوں میں بھی/ مسلمان151 یعنی کہ دہشت ، جہالت، غلاظت کی پہچان ہوں میں/ یہ پہچان میری عجب سانحہ ہے/ مگر سانحہ مادرِ ہند کا ہے، یہ میرا نہیں ہے/ میں کچھ بھی نہیں ہوں/ مجھے آریاؤں نے پالا/ میری اصل ہندوستاں ہے/ میں اردو زباں ہوں، میں ہندوستاں ہوں/ مگر میرے اہلِ وطن مجھ کو غدار کہنے لگے ہیں/ بظاہر تو ہے گرچہ یہ میری ذلت/ مگر اصل میں مادرِ ہند کی صاف عصمت دری ہے/ میں اردو زباں ہوں/ مجھے آریاؤں نے پالا/ میری اصل ہندوستاں ہے‘‘

تبصرے بند ہیں۔