ترجمہ سے متعلق مختلف نظریات اور رجحانات

ترجمہ سے متعلق نظری مباحث کے دو فکری محور ہیں :تصور زبان اور تصور لفظ ومعنی ، اگر یہ تصور کرلیا جا ئے کہ کو ئی ایک ہی زبان تمام زبانوں کی ماں ہے تو نسلی وحدت کے سبب ان میں لین دین کا عمل ممکن ہو گا بصورت دیگر نا ممکن ۔شمس الرحمان فاروقی اپنے مضمون ’’ دریافت اور بازیافت‘‘ میں لکھتے ہیں ۔
’’چونکہ ایک زبان سے دوسری زبان میں کسی نہ کسی طر ح کا ترجمہ ممکن ہے ،
اس لئے یہ نتیجہ اخذکیا جاسکتا ہے کہ کبھی کوئی قدیمی، آفاقی ام الاسنہ تھی ‘‘
ترجمہ سے متعلق بنیادی بحث یہی قائم ہو تی ہے کہ ترجمہ ممکن ہے یانا ممکن ؟ اس تعلق سے مذکو رہ اقتباس کا ایک فقرہ ’’کسی نہ کسی طرح کا ترجمہ ممکن ہے ‘‘ فاروقی کے محتاط رویہ کا پتہ دیتا ہے ،یعنی ان کے نزدیک ترجمہ کلی طورناممکن پر تو نہیں ہے لیکن ہو بہو ممکن بھی نہیں ہے ، چونکہ ترجمے کے عمل میں اصل کا کچھ حصہ لا زماً ضائع ہو جا تا ہے ۔فاروقی نے ترجمے سے متعلق اپنی اس روش کی تائید میں عصرِحاضر کے عظیم امریکی مفکر نوم چامسکی کے وہ مباحث بھی پیش کئے ہیں جن میں چامسکی کی پوری نے انسان کے حیوانِ ناطق ہو نے سے متعلق بنیادی سوالات قائم کر تے ہو ئے ترجمے کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ چامسکی اس سلسلے میں سوال کر تا ہے کہ آخر انسان بولتا کیوں ہے ؟ فاروقی چامسکی کے بحث سے یہ نتیجہ اخذ کر تے ہیں کہ نطق اور زبان انسان کی فطری اور داخلی قوت ہے یعنی انسان کے اندرون میں جو داعیہ ہو تاہے اس کا اظہار وہ زبان سے کر تا ہے حالانکہ اظہار کا عمل کئی اور ذرائع سے بھی ہو سکتا ہے مثلاً موسیقی،مصوری اوررقص وغیرہ لیکن ان تمام ذرائع ترسیل اور زبان کے مابین ایک بنیادی فرق یہ کہ ان کی تفہیم کے لئے ترجمہ ضروری نہیں لیکن زبان چونکہ Codes یعنی علامیوں کا مجموعہ ہو تی ہے اور علامیہ تشریح طلب ہو تے ہیں اس طور پر دیکھا جائے تو پھر داخلی خود کلامی بھی ترجمے کا ایک عمل قرارپائے گی بلکہ یو ں کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ کلام کی ہر سطح ترجمے سے عبارت ہے انسان جو کچھ بو لتا ہے وہ اس کے خیالات کا تر جمہ ہو تا ہے یعنی زبان کے وسیلے سے جو کچھ ظاہر ہو تا ہے وہ بھی ناطق کے اپنے خیال کی حقیقی صورت نہیں ہے ۔ اسی سے بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ انتقالِ خیال کے دوران اصل کا کتنا حصہ ضائع ہو جاتا ہو گا ۔ ارسطو کا وہ مشہور قول کہ ’’کوئی فن پارہ اصل کی نقل ہو تا ہے ‘‘ بھی اسی تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے گویا انسان کی زبان اس کی ذہنی کیفیت کا ترجمہ کر تی ہے بہ الفاظِ دیگر اس کی اپنی زبان اس کی اپنی ہی کیفیات کی نقال ہو تی ہے اس صورت میں ایک زبان سے دوسری زبان میں ترجمے کا صاف مطلب یہ ہو گا کہ ترجمہ دراصل نقل در نقل کا عمل ہے اس پس منظر میں اطالوی کہاوت Traduttori Traditori (ترجمہ نگار دھوکے باز ہو تاہے )کی معنویت بھی بخوبی سمجھ میں آجاتی ہے ۔اور ترجمہ چونکہ بنیادی طور پر اصل کی نقل ہے اور نقل میں لازماً اصل کی تمام صفات نہیں آسکتی ہیں لہذا اس رو میں جب بات آگے بڑھتی ہے تو پھر مذہبی اصطلاح میں فتویٰ بھی صادر فرمادیا جا تا ہے کہ ’’ ترجمہ کر نا ایک گناہ ہے ‘‘یہ مفتی صاحب ہیں حضرت گرانٹ شاور مین کُر سَیلی۔کُرسَیلی کے اس تصور میں نمایاں جھول یہ ہے کہ اس رو سے تمام تخلیقی عمل ہی کا روبار گناہ قرار پا ئے گا ، چونکہ تخلیق بھی تو اصل کی نقل ہے ۔
ترجمہ اصل متن کی نقل ہے اس بیان پر غور کیا جا ئے تو بات بہت دور تلک جائے گی مثلاًنقل میں اصل کا شائبہ ،کمیت اور عکس تو آسکتا ہے لیکن اصل کی اصلیت ، کیفیت اور حسن کبھی نھیں آسکتا Cervantes کہتا ہے :
”Translation from one Language to another…..is like
gazing at a flemish tapestry with the wrong side out ”
(ایک زبان سے دوسری زبان میں تر جمے کا عمل ایسا ہی ہے جیسے کسی قیمتی نفیس کڑھے ہوئے کپڑے کو اُلٹی طرف سے دیکھنا ۔)
مذکورہ اقتباس میں اصل متن کو’’ قیمتی نفیس کڑھا ہوا کپڑا ‘‘ اور ترجمے کو اس کپڑے کو الٹی طرف سے دیکھنے سے تعبیر کیا گیا ہے تمثیل ہر چند کہ دلنشیں ہے لیکن ترجمے کی تاریخ اس کی تر دید کر تی ہے، اس اعتراف کے باوجو د کہ تر جمے میں اصل کو کبھی کبھی توڑ مروڑ کر پیش کیا جاتا ہے ۔ لیکن بارہا ایسا ہو ا ہے کہ تر جمہ اصل تخلیق سے زیادہ خوبصورت اور پر کیف ہو جا تا ہے اسی صورتِ حال کے پیشِ نظر بینے دیتّو کروچے لکھتے ہیں :
’’ ترجمہ یا تو اصل کے حسن میں اضافہ کر دیتا ہے یا پھر گھٹا دیتا ہے یا بگاڑ دیتا ہے یا پھر ایک نئی ہی تخلیق عمل لاتا ہے ‘‘
مذکورہ اقتباس اس خیال کی واضح تردید کر تا ہے کہ تر جمہ کسی بھی سطح پر اصل متن کا ’’ متبادل متن ‘‘ ہو سکتا ہے ، اس سیاق میں مشہور فرانسیسی کہاوت ” La belle infedele” یعنی’’ حسن اور وفاداری دونوں یکجا نہیں ہو سکتے۔‘‘ کا حوالہ بھی ناگزیر ہے جس میں ترجمے کو عورت سے تشبیہ دی گئی ہے کہ عورت یاتو خوبصورت ہو گی یا پھر اپنے شوہر کی وفادار ۔ یعنی ترجمہ یا تواپنے اصل متن سے بے وفائی کر کے اپنے حسن کی جلوہ فشانی کر ے گا یا پھر اصل متن کا عین تابع ہو گا ۔ اسی تسلسل میں ایچ اسمتھ کا یہ قول بھی ملا حظہ فرمائیں۔
”Translation of a leterary work is as taste less as a stewed strawberry”
(ادبی تخلیقات کا تر جمہ ایسا ہی بد مزہ ہو تا ہے جیسا کہ بھنی ہو ئی اسٹرا بیری ۔)اسمتھ کا تر جمے کو بھنی ہوئی اسٹرا بیری ‘‘سے تشبیہ دینا یقیناً اس کی تخلیقی درّا کی کا پتہ دیتا ہے ۔ چو نکہ اسٹرا بیری تووہ پھل ہے جس کا اصل ذائقہ بھوننے کے بعد نہ صرف ضائع ہو جاتا ہے بلکہ بد ذائقہ بھی ہو جا تا ہے لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ کیا تر جمہ بھو ننے کے عمل سے مشابہ ہے ؟ اس کا صحیح جواب در اصل تر جمہ نگار کے رویے پر منحصر ہے عمومی طور سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ ترجمہ اگر اسٹرا بیری کو بھو ننا نہیں ہے تو کم از کم اس کو نچو ڑکر اس کی ہئیت اور لذت دونوں میں بگا ڑضرور پیدا کر تا ہے اور شا ید مشہور متر جم اید ورڈ فٹز جیرالڈ اسی پس منظر میں اصل متن کو ’’ زندہ کتا‘‘ او رتر جمے کو ’’مر دہ شیر‘‘ سے تعبیر کر تے ہو ئے زندہ کتے کو مردہ شیر سے بہترقرار دیتے ہیں ۔ جیرا لڈ کے نقطہ نظر سے سوچنے کا ایک او رزاویہ نکلتا ہے کہ اگر تر جمہ متن سے بہتر ہوبھی جائے اس کے باوجود ترجمہ کم تر ہے کیو نکہ اس کی بنیاد نقل پر قائم ہے اس میں اصل کی روح رواں دواں نہیں ۔معروف مفکر اور شاعر دانتے نے بھی کچھ اسی قسم کے خیالات کا ا ظہار کیا ہے اقتباس ملا حظہ ہو :
’’ کسی بھی فنکار کے تخلیقی لمحوں کی پھول پتیاں آدھی اصل تخلیق میں اورتین چوتھا ئی ترجمے میں بکھر جاتی ہیں ‘‘
یہاں پر بھی اصل بات وہی ہے کہ ترجمہ نقل در نقل کا عمل ہے اور نقل میں اصل پو ری طر ح نہیں آسکتی، بالخصوص شاعری کے تعلق سے یہ مسئلہ اور پیچیدہ ہو جا تا ہے چونکہ نثرکے مقابلے میں شاعری تخلیقی اعتبار سے کئی معنوں میں مختلف ہو تی ہے ۔مثلاً مو سیقیت اور غنا ئیت ،لفظو ں کی داخلی ہم آہنگی ، معنی آفرینی، علامتیں اور صنعتیں اور لفظوں کا تہذیبی سیاق وغیرہ ۔ ایسی صورت میں ترجمہ نگار کی اصل مشکل یہ ہو تی ہے کہ وہ بیک وقت شعرکے متذکرہ عناصر میں ہر عنصر کا کیوں کرخیال رکھ سکتا ہے اور شعر کے ہزار رنگ میں سے کتنے رنگوں کو محفوظ کر سکتا ہے اس تناظر میں دانتے کہتے ہیں:
Northing witch is harmonise by the bond of its
own to another language with the muses can
be changed out destroying all its sweetness”
(جو چیز مو سیقیت کی بندشوں سے ہم آہنگ ہو جاتی ہے اسے ایک زبان سے دوسری زبان میں منتقل کر نے پر اسکی ساری لطافت ضائع ہو جاتی ہے )یہی وجہ ہے کہ ٹی ایس ا یلٹ اور سمو یل جانس کے نز دیک شاعری کا تر جمہ ناممکن ہے ، وکٹر ہیوگو نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ :
”A translation in verse – to me some thing absurd and impossible”
(شاعری کا تر جمہ میرے نزدیک یا تو احمقانہ ہو گا یا پھر نا ممکن ۔)اور رابرٹ فراسٹ کی وہ بات بھی اسی سلسلے میں ہے کہ شاعری وہ ہے جو ترجمے میں حذف ہو جاتی ہے اور Humboldt کے الفاظ میں :
”All translation seems to me simply an attempt to solve an unsolveable problem”
( تمام تراجم میرے نزدیک ایک ناقابل حل مسئلے کو حل کر نے کی کو شش ہے ۔)
حالانکہ مذکو رہ قول میں شاعری کی تخصیص کے بجائے ہر قسم کے ترجمے کی تعمیم روا رکھی گئی ہے جو کہ یقیناً مبالغہ آمیز ہی نہیں بلکہ مضحکہ خیز بھی ہے بات اگر کارو باری زبان کے تعلق سے ہو تو اس کا تر جمہ نہ صرف یہ کہ ممکن ہے بلکہ اس قسم کے تر جمے کا کام تو مشین سے بھی لیا جاسکتا ہے ،ہاں یہ بات درست ہے کہ شاعری میں چوں کہ ایک پیچیدہ ترین تخلیقی حسیت کا اظہار ہو تا ہے لہذا اس کا تر جمہ نہایت مشکل عمل ہے ، جس میں لفظ ،معنی، مفہوم ،ہےئت اور کیفیت ہر سطح پر مفاہمت کا رویہ اختیار کر نا پڑے گا ۔شاید اسی تناظر میں جو وٹ نے ترجمے کو ایک مفاہمہ قراردیاہے اس سمجھو تے میں کبھی زیادہ نقصان اصل متن کاہو جاتا ہے اور کبھی ہدف زبان کا ۔اس خسارے کو پیشِ نظر رکھیں توپروفیسر البر ٹ گیرارڈ کی یہ بات بھی قابل فہم ہو جاتی ہے کہ ’’ترجمہ نام ہے ،ایک سعئ نا مشکورکا جس کے صلہ میں شدید مشقت کے بعد صرف حقارت ملتی ہے ‘‘یہاں پر لفظ حقارت سے دو مفہوم اخذ کئے جاسکتے ہیں اول تو یہ کہ ترجمے میں اصل فن پارہ کا کیف وجمال نہ آنے پر ترجمہ اصل کے مقابلے میں حقیر ٹھہرتا ہے اور دوم یہ کہ ترجمے نگار کو بہر حال لو ہے کے چنے چبانے کے باوجود ثانوی در جہ یا ذیلی حیثیت کا فنکار سمجھا جاتا ہے ۔چوں کہ اس کی ساری کاوش کی بنیاد کسی دوسرے کی تخلیق پر ہوتی ہے وہ خود کچھ تخلیق کر نے کے بجائے فن پر انحصار کر تا ہے لیکن جیسا کہ عرض کیا جا چکا ہے کہ چامسکی نے تر جمے کے مشکل امر ہو نے کے باوجوداس کو ایک ناگزیر عمل قرار دیا ہے ۔ یہاں پر یہ وضاحت بھی ضروری معلوم ہو تی ہے کہ ترجمے کے ناگزیریت کے رد عمل میں رچرڈ رارٹی نے نہ صرف ترجمہ بلکہ ہستی ، زبان ،تہذیب اور صداقت وغیرہ کے عدم وجوب اور لا یعنیت کا فلفسہ بھی پیش کیا ہے ۔ رچرڈ رارٹی کے خیال میں ہستی اور زبان دونوں ہی وجوب سے عاری ہیں اور صداقتوں کا اظہار چوں کہ زبان کے ذریعے ہی عمل میں آتا ہے جب کہ زبان انسان کی وضع کر دہ ہے اس لحاظ سے زبان بھی انسان کی خود ساختہ قدر ہے ۔فی الواقع اس کا کو ئی وجود نہیں ،اس نظریہ کی رو سے ترجمہ ایک لا یعنی عمل قرار پاتا ہے چو ں کہ جب تمام سچائیاں انسان کی من گھڑت ہیں تو ایسی کو ئی آفاقی صداقت نہیں ہو سکتی جسے ہم جان سکیں اور اس کا ترجمہ کر سکیں ۔ زبان کے عدم وجوب سے زبان کے غیر حقیقی ، استعاراتی اور اتفاقی ہو نے کا نظریہ فروغ پذیر ہو اجس کے نتیجے میں منفی علم ‘‘(Negative knowledge) کے خیا ل کو تقویت ملی۔ اب ایسی صورت میں تر جمہ چہ معنی دارد ، یہاں تو سارے کا سارا معاملہ وہم وگمان کا ہوگیا۔Sapir whorfکے لسانی اضافیت(Linguistic relativity) اور لسانی جبریت Linguistic determinism) (کے مشترکہ نظریہ نے تو لفظ ومعنی کی بحث میں جیسے ایک ہل چل سی بر پا کر دی ۔ اس نظریہ کے مطابق کسی شے کا جو بھی تصور قائم ہو تا ہے وہ اضافی ہے اور ہر تصور پر زبان کا جبرو تسلط قائم ہے یعنی شے کا وہی تصور ابھر تا ہے جو کہ زبان پیدا کر نا چاہتی ہے ۔بالفاظ دیگر مختلف زبانیں شے کو مختلف طریقوں سے دکھاتی ہیں یعنی ہم جو کچھ دیکھتے ہیں اور سوچتے ہیں وہ ہماری زبان کی روشنی میں ہو تا ہے ہمارا سو چنا اور ہمارا دیکھنا ہی ہے لسانی اضافیت یعنی ہر زبان کے بو لنے والے اپنی اپنی زبان کی روشنی میں دیکھتے اور سو چتے ہیں اور ان کا تصورِ شے ایک دوسرے سے مختلف ہو تا ہے اور لسانی جبریت دراصل لسانی اضافیت ہی کا دوسرا رخ ہے جس کے مطابق ہم کسی شے کا تصور اسی انداز میں قائم کر نے پرمجبور ہیں جس انداز میں ہماری زبان ہمیں سو چنا سکھاتی ہے . اب مسئلہ یہ کہ چوں کہ شے کا تصور زبان سے مشرط ہے اور یہ تصور ہر زبان میں مختلف ہے ایسی صورت میں جب کہ دو زبانوں میں ایک ہی شے کے لئے دو مختلف تصوراتِ معانی مو جود ہوں تو پھرترجمہ کیسے ممکن ہے ؟ مثال کے طور پر ماموں، خالو، چچا ،اور پھو پھا رشتوں کا انگریزی میں الگ الگ تر جمہ کیسے کیا جائے اگر uncle کے ساتھ Mgternal/paternglکا سابقہ جوڑ بھی دیا جا ئے تو اس کے باوجود وہ کیفیت جو رشتوں سے متعلق ہماری زبان میں پائی جاتی ہے وہ انگریزی میں کیو ں کر پیدا ہو سکتی ہے ۔
لسانی جبریت اور لسانی اضافیت کے نظریے کی توسیع کر تے ہو ئے Saussure نے لسانی ماڈل پیش کیا جس کے مطابق لفظ اصل شے کا نشان ہے یعنی لفظ معنی نما ہے اور اس لفظ سے جومعنی مراد ہو تا ہے وہ اس کا تصور معنی ہے مثال کے طور پر لفظ پانی میں فی نفسہٖ پانی کی خصوصیات مو جو د نہیں ہے نہ اس لفظ میں پانی کی سیالیت ہے نہ پانی کا رنگ اور مز ہ لیکن لفظ پانی سے جو تصور پیدا ہو تا ہے تر جمہ در اصل اسی شے یعنی تصورمعنی کا ہو تا ہے، معنی نمایعنی لفظ کا نہیں۔ بالفاظ دیگرترجمہ دراصل اپنی زبان کے لسانی جبر سے نکل کر دوسری زبان کے لسانی جبرکوتوڑنے کا نام ہے ۔
ترجمے سے متعلق نظریات کی تاریخ میں سب سے بڑا انقلاب اس وقت بر پا ہو ا جب فرانسیسیPost structuralist رولا ں بار ٹھں نے مصنف کی موت اور قاری کے ظہور کا دعوی کیا اس نظریہ کی رو سے قاری کو مصنف سے زیادہ اہمیت حاصل ہو گئی۔ چوں کہ وہ متن سے مکالمہ کر کے خودمعنی متعین کر تا ہے ۔ قاری اورمتن کے مابین اس عمل سے معنی کے بے شمار دروازے کھل گئے لہذا مترجم کو یہ آزادی حاصل ہو گئی کہ وہ بحیثیت قاری بزعم خود متن کے معنی متعین کر ے چو نکہ متن اب ایک ۔Mono Lithic eneity کے بجائے plurality of discourses ہو گیا لہذا اب تر جمہ نگار کو یہ اختیار دے دیا گیا کہ وہ کسی متن کی بازیافت اپنے تناظر ات میں کر ے پھر بارتھِس کے بعد دریدا نے رہی سہی کسربھی پو ری کر دی اور انھوں نے یہ کہہ کر ترجمے کی ثانوی حیثیت کے تصور پر ضرب کا ری کی کہ :
’’ترجمہ ایک ایسی تحریر ہے جس کو محض رسم الخط کی تبدیلی سے تعبیر نہیں کیا جا سکتا بلکہ ترجمہ تو در اصل متن
کے اندرون سے نکلی ہو ئی ایک ایسی تحریر ہے جس کوproductive writing کہا جا سکتا ہے ‘‘
بہر کیف ترجمہ نظری سطح پر خواہ کیسا ہی ناگوار عمل تصور کیا جائے لیکن عالمگیر انقلابات کی فضا ہموار کر نے میں ترجمہ کا غیر معمولی کر دار رہا ہے ۔ ماضی میں عیسائیت ، اسلام ، یو رپی نشاۃِ ثانیہ اور مارکسز م کا فروغ ترجمے کی مر ہونِ منت رہا ہے اور اب مستقبل میں مشرق کا طلوع بھی تر جمے ہی کی بدولت ممکن ہو سکے گا۔

تبصرے بند ہیں۔