افسانہ ’بھات‘ کا تنقیدی تجزیہ

ابراہیم افسر

آج ہمارا معاشرہ تمام طرح کی سماجی برائیوں کی آماج گاہ بن چکا ہے۔ یہ برائیاں ایک دن میں پیدا نہیں ہوتیں ، بلکہ رفتہ رفتہ اپنی جڑیں مضبوط کرتی ہیں ۔ شادی کا عمل ہم سب کی زندگی میں ضرور آتا ہے۔ لیکن شادی بیاہ میں اپنائی جانے والی رسومات سے کس طرح خاندان کے خاندان تباہ ہو رہے ہیں ، یہ حقیقت کسی سے چھپی نہیں ہے۔ اگر ان رسومات کو’’ لعنت‘‘سے تعبیر کیا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ ہندوستانی معاشرے میں یہ رسومات اتنی اندر تک سما چکی ہیں کہ ان کی اصلاح کابیڑا اٹھائے کون؟الغرض صالح معاشرے کی تعمیر کے لئے صالح اور اعلی اقدار کی ضرورت ہوگی۔

اردو ادب میں ان معاشرتی برائیوں کے خلاف خوب لکھا گیا اور لکھا جا رہا ہے۔ لیکن جواں سال افسانہ نگار اور علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے ریسرچ اسکالر توصیف بریلوی نے اپنے افسانے میں ایک ایسی معاشرتی برائی کو موضوع سخن بنایا جس کی جانب لوگوں نے کم توجہ کی، یعنی شادی سے قبل بھائی کی جانب سے دیا جانے والا ’بھات‘۔ جی ہاں یہی بھات اب معاشرے میں وبا کی صورت اختیار کر گیا ہے۔ بھات بھی’ جہیز‘کی طرح لوگوں کو اندر ہی اندر کھوکھلا کر رہا ہے۔ خاندان پہلے جہیز کے نام سے کانپتے تھے لیکن اب جہیز سے پہلے بھات کا نام سن کرروح دم توڑ دیتی ہے اور رشتوں میں مٹھاس کی جگہ کھٹاس پیدا ہو رہی ہے۔

’بھات‘ افسانے کا مرکزی کردار توحید ہے جو اپنے والد کی موت کے بعد گھر کا ذمہ دار فرد ہے۔ گھر میں اس کے علاوہ بہن فرحین، نازیہ اور بھائی ارشدہے۔ یعنی چار افراد کا کنبہ ہے۔ توحید اور فرحین جوان ہیں ، دونوں ہی شادی کے قابل ہیں لیکن گھر کی مالی حالت خستہ ہے۔ توحید اپنے کھیتوں پر جاکر دن بھر محنت کرتا ہے اور فرحین گھر کی تمام طرح کی ذمہ داریاں سنبھالتی ہے۔ انھیں ناگفتہ حالات میں توحید کی بڑی پھوپھی کی بیٹی ذکیہ کی شادی آ جاتی ہے جس کے لئے ان کی پھوپھی بھات کا دعوت نامہ لے کر توحید کے گھر آتی ہے اور بھات میں دیگر سامان لانے کی فرمائش کے ساتھ ذکیہ کی ڈمانڈ بنارسی ساڑی کا بھی تذکرہ کرتی ہے۔ توحید اپنی پھوپھی کو بھروسا دلاتا ہے کہ وہ ذکیہ کی شادی میں بنارسی ساڑی ضرور دیگا، لیکن ادھر گھر مین جمع پونجی ختم ہے۔ ایسے میں توحید اپنی بہن فرحین کی جھمکی جو اس نے اس کی شادی کے لئے بنوائی تھی، کو گروی رکھ دیتا ہے کیوں کہ گیہوں کی فصل بارش سے تباہ ہو چکی ہے۔ توحید بھات دینے کے چکر میں لوگوں کا مقروض ہو جاتا ہے۔ ابھی ایک بھات دیکر توحید نے دم بھی نہ لیا تھا کہ دوسری پھوپھی بھی گھر پر اپنی بیٹی کی شادی اور بھات کا پیغام لے کر آتی ہے۔ بھات میں کون کون سا سامان دینا ہے اس کی فہرست توحید کو سنائی جاتی ہے۔ توحید اور فرحین ایک دوسرے کا چہرہ ایسے دیکھتے ہیں مانو موت سامنے کھڑی ہو۔ کیونکہ گیہوں کی فصل سے واجب آمدنی نہ ہوئی تھی اور اب دھان کی فصل بونے کے لئے بیج کے پیسے بھی توحید کی جیب میں نہ تھے اوپر سے پھوپھیوں کا بھات۔ اس کا سر چکرانے لگتا ہے۔ افسانہ ختم ہو جاتا ہے۔

ویسے میں نے معاشرے میں بھات کے نام پر لوگوں کو مقروض ہوتے دیکھا ہے۔ لیکن جس خوبصورتی سے توصیف بریلوی نے اس افسانے کا تانہ بانہ بنا ہے وہ لائق تحسین ہے۔ سماج مین جڑ جما چکی اس برائی کو اب ختم کرنے کا وقت آ گیا ہے اور نو جوان نسل کو اس خفی برائی یا لعنت سے روبرو کرانا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ توصیف بریلوی نے اس افسانے کی تخلیق کرکے اس برائی کو ختم کرنے کی جانب  پہلا قدم بڑھایا ہے۔ ان کے اس قدم کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔

تبصرے بند ہیں۔