اللہ کوعابد اور شاکر بندے پسند ہیں

نسیم اختر شاہ قیصر

یہ بات انسانی فطرت کے عین مطابق ہے کہ اس کی طبیعت ان لوگوں کی جانب مائل ہوتی ہے جن سے اس کا مزاج ملتا اور معاملات صحیح اور اچھے ڈھنگ سے انجام پاتے ہیں ماں باپ کی نظر میں وہی اولاد پسندیدہ ہے جو مطیع اور فرماں بردار ہے ا سی سے ان کو محبت اور انسیت ہوتی ہے جو ان کے حکم کی بجا آوری میں مستعد ہے۔سرکش اور نافرمان اولاد کے لیے ماں باپ کے دل میں محبت کی کوئی لہر جگہ نہیں بناتی اور اگر کسی گوشہ میں موجود بھی ہوتی ہے تو مسلسل حکم عدولی کے سبب وہ بھی ختم ہوجاتی ہے شوہر اور بیوی کے درمیان رشتہ مستحکم اسی وقت تک رہتا ہے جب تک بیوی شوہر کی اور شوہر بیوی کی ضرورتو ں وغیرہ کا خیال رکھتا ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ تعلق باقی رہتا بھی اسی وقت تک ہے جب تک ملنا جلنا ہو، آنا جانا ہو، لین دین ہو، ایک دوسرے کے معاملات سے دلچسپی ہو اور دکھ سکھ میں آدمی ایک دوسرے کے ساتھ کھڑا ہو، یہ اگر نہیں ہوتا تو قریب سے قریب تعلقات بھی سر د پڑجاتے ہیں اور وقت گزرنے اور فاصلہ بڑھنے کے ساتھ وہ سرد مہری مردنی کا شکار ہوجاتی ہے دنیاوی رشتہ کی طرح ایک رشتہ خالق اور مخلوق کا بھی ہے، اللہ رب العزت سے جو شخص لولگاتا ہے اور عبادت وریاضت میں اپنا وقت صرف کرتا ہے یا اپنی زندگی ان سانچوں میں ڈھالتا ہے جنھیں ہم دینی اورشرعی سانچے کہتے ہیں تو وہ بندہ اللہ تعالیٰ کا پسندیدہ بندہ کہلاتاہے عنایات الٰہی اور نوازشاتِ خداوندی سے اس کا دامن بھر دیا جاتاہے پھر وہ بندے بھی اس کے یہاں زیادہ مقبول ، زیادہ قریب تر ہوتے ہیں جو نعمتوں کے حاصل ہونے پر اس کی بارگاہ میں جذبۂ تشکر اور جذبۂ سپاس پیش کرتے ہیں۔
نعمتیں خداوند قدوس کی عطائے خصوصی ہیں اور یہ اسی وقت تک باقی رہتی ہیں جب تک ان کا شکر ادا کیاجائے ایک شکر تو زبان سے ہے کہ بندہ اس کا اقرار کرے کہ تونے جو کچھ دیا ہم اس کے شکر گزار ہیں، ہم اس لائق نہیں تھے کہ ہمیں یہ سب کچھ ملے اور ایک شکر یہ ہے کہ نعمت کو صحیح طورپر استعمال کرے اور اس کو ضائع نہ کرے نعمت کی قدر دانی کرنے والے ہی مزید نعمتوں کے مستحق قرار پاتے ہیں جہاں شکر گزاری نہیں ہے اور جذبات میں یہ احساس موجود نہیں کہ یہ سب کچھ اللہ کا دیا ہوا ہے وہاں سے نعمتیں اٹھالی جاتی ہیں۔ معلوم ہوا کہ مطمئن اور پرُسکون زندگی گزارنے والے بندے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی قدردانی کرتے ہیں اسی لیے خداوند قدوس نے ارشاد فرمایا:
’’انھیں چاہیے کہ وہ عبادت کریں اس خانہ کعبہ کے مالک (خدائے واحد ) کی جس نے انھیں کھلایا بھوک میں اور امن دیا خوف سے‘‘
انسان اپنے معاش اورروزگار کے لیے رات دن جدوجہد کرتا ہے ،اسفار کرتا ہے، اپنے اوقات سکون اور اطمینان کی زندگی حاصل کرنے کے لیے لگاتا ہے، یہاں سے وہاں جاتا ہے ، سفر پرسفر کرتا ہے اوراس کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کے پاس آج جو ہے اس سے زیادہ اسے ملے وہ کم دولت ، کم پیسے اور کم رتبے کا مالک ہے تو زیادہ پیسہ ، زیادہ دولت اور بڑا مرتبہ اس کی تقدیر بنے شریعت کی روشنی میں کسی بندے کی یہ طلب غلط طلب نہیں ہے اور نہ اسے حرام اور ناجائز قرار دیاجاسکتا ہے۔ مگر ان سب کو پانے کا جو راستہ خداوند عالم نے متعین فرمایا ہے اسی راستے پر اسے چلنا ہے اور انھیں راہوں سے اپنے لیے سہولتیں ،آسانیاں اور راحتیں حاصل کرنی ہیں۔ ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ خداوند قدوس کی نعمتوں کو اپنی فرماں برداری کے ذریعہ اپنی بندگی اور اپنی اطاعت گزاری کے ذریعہ باقی رکھنے کی سعی کرے۔ قرآن کریم نے عام آدمی سے لے کر خاص قوموں اور بستیوں کے احوال درج کئے ہیں جیسے قرآن کریم کا ارشاد ہے:
’’اللہ تعالیٰ ایک ایسی بستی والوں کی حالت بیان فرماتے ہیں کہ وہ امن واطمینان میں تھے ان کے کھانے پینے کی چیزیں بڑی فراغت سے ہرطرف ان کے پاس پہنچا کرتی تھیں، سو انہوں نے خدا کی نعمتوں کی بے قدری کی اس پر اللہ تعالیٰ نے ان کو ان حرکات کے سبب قحط اور خوف کا مزا چکھایا‘‘۔
خدائی نعمتیں یوں تو ہر شخص کو حاصل ہیں ایک سانس بھی خداکی نعمت ہے غور کیجئے اگر سانس کے آنے کا سلسلہ ختم ہوجائے تو انسان مردہ کہلاتا ہے ، دل بھی ایک نعمت ہے اگر یہ دھڑکنا چھوڑدے تو آدمی دنیا سے رخصت ہوا، آنکھ بھی ایک نعمت ہے اگر یہ بینائی سے محروم ہو تو یہ رنگ برنگی کائنات ایک نابینا کے لیے اندھیرے سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ دماغ ہے اگر اس میں خلل واقع ہوجائے تواچھی بری چیز کی تمیز ہی ختم ہوجاتی ہے ،ایسے ہی اگر ہاتھ نہ ہوں ، پاؤں نہ ہوں تو آدمی محتاج ہے معلوم ہوا دوچیزیں انسان کو دوسری تمام مخلوقات پر برتری عطا کرتی ہیں اور اس کی افضلیت کا راز بھی یہی ہے کہ ہر آدمی اپنے ہاتھوں سے اپنا رزق اٹھاتا اور اپنی جدوجہد سے اپنی روزی پاتا ہے وہ جانوروں کی طرح دوسروں کا محتاج نہیں ہوتا دوسرے ہر بندۂ خدا ہر نعمت کو یہ سمجھ اور یہ سوچ کر استعمال کرتا ہے کہ اللہ نے اس پر اپنی رحمت سے یہ نعمت اتاری ہے میں ہرگز اس کا مستحق نہیں تھا، ان جذبات کے ساتھ جب زندگی گزرتی ہے تو اس کے نامۂ اعمال پرخدائی پسندیدگی کی مہر لگادی جاتی ہے۔
ہم اور آپ رات دن اس کا مشاہدہ کرتے ہیں کہ اللہ نے بہت سے لوگوں کو خوب دولت دی ، خوب پیسے سے نوازا مگر ایک نسل یا دونسل کے بعد دولت رخصت ہوگئی اور محتاجی اور فقیری نے اس شخص کو اپنی گرفت میں لے لیا بظاہر یہ لگتا ہے کہ اس شخص کی بے تدبیری ، بدنظمی، بے فکری اور غفلت نے اس کو اس منزل پر پہنچادیا لیکن درپردہ سچائی یہ ہوتی ہے کہ اس مالدار نے کوئی لمحہ بھی تو ایسا نہیں گزارا جب اس نے اپنے دینے والے کا شکر ادا کیا ہو وہ اپنے آپ میں مست رہا ا اور اس نے اپنا ہر لمحہ پرُ تعیش زندگی کشید کرنے میں صرف کردیانتیجہ یہ ہوا وہ محروم ہوگیا، سہولتوں اور آسانیوں نے اس سے منھ موڑ لیا۔ ایک دوسرا شخص ہے جو مفلوک الحال ہے انتہائی دشواریوں کے درمیان زندگی گزاررہا ہے مگر جو بھی اسے مل رہا ہے اسے اپنے خالق اور مالک کی مہربانی اور عنایت سمجھ کر شکر گزاررہتا ہے تو اس کی شکر گزاری خداوند قدوس کو اتنی پسند آتی ہے کہ آہستہ آہستہ اس کے حالات سدھرتے چلے جاتے ہیں اور جوایک وقت کی روٹی کے لیے بھی دوسرے کی جانب دیکھتا تھا وہ اتنا مالدار اور آسودہ حال ہوجاتا ہے کہ اسے یہ بھی علم نہیں ہوتا اور نہ وہ بتاپاتا کہ اس کے پاس کتنی دولت ہے اور اس کا کاروبار کتنے کروڑوں پر پھیلاہوا ہے۔
یہاں یہ نکتہ بھی ذہن نشیں رہے کہ اللہ نے دولت سے نوازا، امارت اور عیش وسکون سے سرفراز کیا تو ان لمحات میں ان بندگانِ خدا کا بھی خیال رکھے جومجبوری اور معذوری کی زندگی گزاررہے ہیں یتیم ہیں، بیوائیں ہیں، بے سہارا اور بے آسرا لوگ ہیں، ایسے بھی ہیں جو ضعیف، کمزور اور مسلسل بیمار ہیں یا سنگین اور مہلک امراض میں مبتلا ہیں وہ محنت نہیں کرسکتے، مشقت کی طاقت اور قوت ان میں نہیں ہے ان کابھی آپ کے مال میں حصہ ہے ان کی دست گیری کیجئے، ان کی ضرورتوں کاخیال رکھئے اور ان کے لیے زندگی گذارنے کے سامان فراہم کیجئے!
شکر گزاری اور عبادت گزاری دو ایسے وصف ہیں جو اللہ تعالیٰ کے یہاں محبوب ہیں، ان دونوں کو اپنی زندگی کا حصہ بنانے والے لوگ ہی درحقیقت اللہ کے مقبول بندوں میں شامل ہیں۔

تبصرے بند ہیں۔