حضرت عمرؓ کی زندگی میں خواتین کا کردار (پہلی قسط)

تحریر: پروفیسر بدرالدین۔۔۔ ترتیب: عبدالعزیز

علامہ اقبالؒ نے عورت کی عظمت و اہمیت اور ضرورت پر اس مصرع میں کیا بھر پور اشارہ فرمایا ع ’’وجودِ زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ‘‘
اس مفہوم کو تاریخی اوراق میں پھیلے ہوئے ہزاروں واقعات کی تہ میں دیکھا جائے تو پنہاں تہ نقاب اس کی جلوہ گاہ نظر آئے گی۔ کہیں عورت کی دل گداز سر مستیاں بل کھاتی ہوئی نگاہوں سے گزریں گی تو کہیں جاں سوز سسکیاں سنائی دیں گی اور اگر ایک طرف یہ بے شمار انسانوں کی تکمیل ایمان کا سبب بنتی نظر آئے گی تو دوسری طرف اسی نے اپنے اعتقاد اور پختہ ارادے کو سپر بناکر کسی مرد آہن کے سینہ میں پتھر دل کو موم کیا ہوگا، اس میں ایمان کی چنگاری سلگائی ہوگی۔ کیوں، کیا بالکل ایسا ہی فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے ساتھ نہیں ہوا۔ جب وہ اپنی تلوار بے نیام کو ابتدائی دور کے کمزور مگر پختہ مسلمانوں کے سروں پر گھماتے گھوم رہے تھے اور اسی سلسلے میں اُم عبداللہ بنت حنتمہؓ فرماتی ہیں کہ جب حبشہ کی ہجرت کا سفر کرنے والے تھے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ میرے پاس آئے اور کہا، کیا تم لوگ جارہے ہو؟ اس زمانے میں ہمیں ان دشمنوں کی طرف سے بڑی سختیاں اور مصائب جھیلنے پڑ رہے تھے۔ اس لئے میں نے حضرت عمرؓ کو جواب دیا، ہاں! تم لوگوں نے ہمارے اوپر ظلم اور قہر کے پہاڑ توڑ رکھے ہیں، بیحد تکلیفیں پہنچائی ہیں۔ اس لئے ہم ضرور اللہ تعالیٰ کی وسیع زمین میں نکل جائیں گے۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ ہمارے لئے فراخی اور کشادگی پیدا فرما دے۔ حضرت عمرؓ نے اس کے جواب میں فرمایا: ’’اللہ تمہارے ساتھ ہے‘‘۔ اور کہتی ہیں: میں نے اس دن ان کی آنکھوں میں جو رقت دیکھی اس سے قبل نہیں دیکھی تھی۔
اس کے علاوہ فاروق اعظمؓ کی ہمشیرہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے ایمان لانے کا واقعہ بھی مشہور ہے کہ حضرت عمرؓ نے اسلام قبول کرنے کی بنا پر اپنی بہن فاطمہؓ کو اتنا مارا کہ ان کا چہرہ لہولہان ہوگیا لیکن بہن محسوس کر رہی تھی کہ اس غیظ و غضب کی تہ میں وہی خطابی جوش دہک رہا ہے جس کا کچھ حصہ میری رگوں میں بھی رواں ہے۔ اس لئے وہ کیوں خاموش رہیں اور وہ بھی اسی جوابی جوش میں بولیں: ’’اے اللہ کے دشمن! کیا مجھے تم صرف اس لئے زدو کوب کر رہے ہو کہ میں اللہ کی وحدانیت کی قائل ہوگئی ہوں‘‘۔
حضرت عمرؓ نے بغیر کسی توقف کے کہا: ہاں! اس پر فاطمہؓ بولیں : ’’اچھا تواب جو تمہارا دل چاہے کرلو، میں گواہی دیتی ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور بیشک حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں اور بیشک ہم نے تمہاری مرضی کے خلاف اسلام قبول کرلیا ہے‘‘۔
اس طرح حضرت عمرؓ نے ان کے شوہر یعنی اپنے بہنوئی کو بھی بیحد مارا مگر کچھ شرمندہ ہوئے اور مکان کے ایک گوشے میں چلے گئے۔ اس کے بعد اس صحیفہ کے اوراق طلب کئے جو وہ پڑھ رہے تھے اور خود پڑھا۔ پھر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر اسلام قبول کرلیا۔ اب اس گفتگو کے درمیان ہمارے لئے یہ سمجھنا کچھ مشکل نہیں ہے کہ ہم فاروق اعظمؓ کی قلبی کیفیات اور ان پر ظاہری پیچیدہ خلجانات اور خطرات کا اندازہ لگا سکیں جو بنت حنتمہ اور بنت خطاب جیسی دو خواتین سے گفتگو کے دوران انھیں پریشان کئے ہوئے تھے۔اس وقت ہمارے سامنے وہ جاں باز شجاع کھڑا نظر آتا ہے، جس کی بہادری اچھے اچھے لشکری سپاہیوں کے دانت کھٹے کر دینے میں کبھی پیچھے نہ ہٹی۔ یہاں ان دو عورتوں کے سامنے آخر اس کے غضبناک شعلے کیوں سرد ہوگئے، اس کا غصہ کیوں ٹھنڈا پڑگیا۔ اس کی ایک ہی وجہ سمجھ میں آتی ہے کہ مکہ معظمہ کی سر زمین پر اسلام کی حقانیت اور نعرۂ توحید کی سربلندی جو ہزار مخالفت کے باوجود روز افزوں تھی، اس کو فاروق اعظمؓ کی دور رس نگاہیں بخوبی سمجھ رہی تھیں اور دل کی گہرائیوں میں اس کے اثرات اپنا کام کر رہے تھے۔ ادھر ان خواتین کے پختہ عزم اور قرآن کریم کی صداقت نے اپنا بھرپور اثر دکھایا تو فاروق اعظمؓ کے سینے کا وہ شعلہ بھڑک اٹھا جو عرصے سے ابھرنے اور چمکنے کیلئے بے چین تھا۔
ایک مرتبہ تاجروں کا ایک قافلہ مدینہ منورہ میں آیا اور مسجد نبویؐ کے قریب ٹھہرا۔ فاروق اعظمؓ نے حفاظت کے نقطۂ نظر سے حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ کو ساتھ لیا اور رات میں قافلہ کی حفاظت کی۔ دونوں وہاں جاکر نوافل پڑھتے رہے۔ اسی دوران ایک بچہ کے رونے کی آواز آئی تو آپؓ نے جاکر ماں سے کہا کہ اس کا خیال کرے۔ بچہ پھر رویا تو آپؓ نے ماں کو توجہ دلائی۔ تیسری بار بچہ رویا تو آپؓ نے سختی سے کہاکہ تو کس قدر بری ماں ہے کہ اپنے بچے کا خیال نہیں رکھتی۔ اس پر ماں نے کہاکہ اس بچے کا دودھ چھڑا دیا گیا ہے، کیونکہ دودھ چھوٹنے سے پہلے حضرت عمرؓ کسی بچہ کا وظیفہ جاری نہیں کرتے۔ آپؓ نے اس بچے کی عمر معلوم کی تو پتہ چلا کہ وقت سے پہلے دودھ چھڑا دیا گیا ہے۔ اس پر آپ نے اعلان کروا دیا کہ کسی بچے کے دودھ چھڑانے میں جلدی نہ کی جائے اور آئندہ مسلمانوں کے ہر بچہ کو اس کا حق ملے گا۔ اس طرح اور بچوں کو بھی اس واقعہ سے فائدہ ہوا۔
مشہور صحابی حضرت اسلم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ نکلا اور ہم لوگ اصرار کی وادی تک پہنچ گئے۔ وہاں دیکھا کہ ایک جگہ آگ جل رہی ہے تو حضرت عمرؓ نے فرمایا: اسلمؓ!مجھے محسوس ہورہا ہے کہ یہاں کچھ مسافر ٹھہرے ہوئے ہیں اور شاید انھیں سردی لگ رہی ہے۔ آؤ؛ چل کر دیکھیں۔ بس ہم تیزی سے وہاں پہنچے تو دیکھا کہ ایک عورت آگ جلا رہی ہے اور ا س کے آس پاس بچے شور مچا رہے ہیں۔
حضرت عمرؓ نے فرمایا: السلام علیکم یا اہل الضوء (اے روشنی والو تم پر سلامتی ہو) اور آپؓ نے برا سمجھا کہ ’’اہل النّار‘‘ کہیں۔ عورت نے جواب دیا : وعلیکم السلام، پھر آپؓ نے فرمایا: کیا میں قریب آسکتا ہوں۔ عورت نے کہا: اگر اچھی نیت سے آئے ہو تو آجاؤ، ورنہ چھوڑ دو۔ آپؓ قریب آئے اور کہا تمہارا کیا حال ہے؟ عورت نے کہا: شب اور سردی کا عالم ہے۔ آپؓ نے پھر پوچھا: اور بچوں کا کیا حال ہے، یہ شور کیوں مچا رہے ہیں؟ اس نے جواب دیا: بھوک کی وجہ سے۔ آپؓ نے پھر سوال کیا اور ہانڈی میں کیا رکھا ہے؟ وہ بولی: بس پانی ہے۔ میں اسی سے ان کو تسلی دے رہی ہوں۔ اس سے یہ سوجائیں گے اور ہمارے خدا کے درمیان تو بس ’عمر‘ ہی ہے۔ اس پر حضرت عمرؓ نے فرمایا: خدا تجھ پر رحم فرمائے، بھلا عمر کو تیرے حال کی کیا خبر ہے۔ اس پر وہ بولی: وہ ہمارا سردار بنا ہے اور ہم سے غافل ہے۔ اسلمؓ کہتے ہیں کہ یہ سنتے ہی حضرت عمرؓ میری طرف متوجہ ہوئے اور کہا چلو، میں تیزی سے ان کے ساتھ چلا۔ یہاں تک کہ ہم آٹے کے گودام تک آئے۔ حضرت عمرؓ نے یہاں سے آٹے کا تھیلا لیا، پھر کچھ گھی یا چربی لی اور مجھ سے کہا کہ اسے میرے اوپر لاد دو۔ میں نے کہا: حضورؓ آپ کی طرف سے میں چلتا ہوں۔ آپؓ نے فرمایا: کیا قیامت کے دن بھی تم میرا بوجھ اٹھاؤ گے۔ لہٰذا میں نے آپؓ کے اوپر لاد دیا اور ہم تیزی سے چلے۔ وہاں پہنچ کر آپؓ نے اس خاتون سے کہا: لاؤ میں تمہارے لئے ’حریرہ‘ تیار کرتا ہوں۔اس کے بعد آپؓ نے ہانڈی کے نیچے آگ پھونکنی شروع کی اور میں نے دیکھا کہ دھواں آپ کی داڑھی میں سے نکل رہا تھا۔ حریرہ تیار ہوگیا تو آپؓ نے پلیٹ میں نکالا اور فرمانے لگے؛ بچوں کو کھلاؤ۔ لاؤ میں اسے ٹھنڈا کرتا ہوں۔ جب بچے سیر ہوکر کھا چکے تو عورت نے آپؓ سے کہا: اللہ تعالیٰ تمہیں جزائے خیر دے۔ اس منصب کیلئے عمرؓ سے تو تم زیادہ اچھے ہو۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی دوسری صفات کے علاوہ آپؓ بہت غیرت مند بھی تھے۔ ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اصحابؓ کے درمیان گفتگو فرما رہے تھے اور فاروق اعظمؓ بھی ان میں موجود تھے۔ حضورؐ نے فرمایا کہ ایک مرتبہ مجھے خواب میں جنت دکھائی گئی تو اچانک میں نے دیکھا کہ ایک محل کے پاس ایک عورت وضو کر رہی ہے۔ میں نے پوچھا: یہ محل کس کیلئے ہے؟ کہا گیا عمرؓ کیلئے ہے۔ میرا دل چاہا کہ میں اندر داخل ہوکر دیکھوں لیکن مجھے عمر کی غیرت یاد آئی اور میں وہاں سے واپس آگیا۔ حضرت عمرؓ اس پر رونے لگے او ر عذر خواہی کرتے ہوئے بولے یا رسول اللہ! کیا میں آپؐ سے زیادہ غیرت مند ہوں۔ اس طرح آپؓ کی یہ غیرت مندی خاص طور پر خواتین میں مشہور تھی۔
ایک مرتبہ خواتین حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس زور زور سے باتیں کر رہی تھیں کہ اچانک حضرت عمرؓ تشریف لے آئے اور اندر داخل ہونے کی اجازت چاہی۔ بس پھر کیا تھا عورتیں جلدی سے پردہ کرنے لگیں تو حضورؐ کے چہرے پر مسکراہٹ آگئی۔ فاروق اعظمؓ نے فرمایا: یا رسول اللہ! باری تعالیٰ ہمیشہ آپؐ کو مسکراتا رکھے۔ گویا آپ مسکرانے کی وجہ دریافت کرنا چاہتے تھے۔ اس پر حضورؐ نے فرمایا: مجھے ان عورتوں پر تعجب ہورہا ہے۔ یہ میرے پاس بیٹھی تھیں لیکن جوں ہی تمہاری آواز سنی پردہ کرنے لگیں۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا: یا رسول اللہ! آپؐ زیادہ مستحق ہیں کہ آپؐ سے ڈریں۔ پھر آپؓ عورتوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمانے لگے: اے اپنی جانوں کی دشمن! تم مجھ سے ڈرتی ہو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں ڈرتیں۔ اس پر خواتین بغیر کسی ہچکچاہٹ کے بولیں: ہاں! اس لئے کہ تم زیادہ سخت اور درشت ہو۔
باطنی فکر کو سمجھ لینا بھی فاروق اعظمؓ کی خاص صفت تھی۔ ایک مرتبہ آپؓ نے حضرت مغیرہ بن شعبہؓ کو عراق کی ولایت سے معزول کرنے اور حضرت جبیربن مطعم رضی اللہ عنہ کو ان کی جگہ متعین کرنے کا فیصلہ کیا اور اس راز کو جبیرؓ سے کہہ دیا کہ خاموشی سے تیاری کریں، کسی سے ذکر نہ کریں۔ حضرت مغیرہؓ نے اس کو محسوس کرلیا اور ایک ہم نشیں سے ذکر کیا کہ اپنی بیوی کے ذریعے کسی طرح اس کی تحقیق کرائے، کیونکہ یہ عورت اس کام میں مشہور تھی۔ اسی لئے اس کو لقاطۃ الحصاء (کنکریاں چننے والی) کہا جاتا تھا۔ وہ عورت حضرت جبیر بن مطعمؓ کے گھر گئی اور دیکھا کہ ان کی بیوی اپنے شوہر کے سفر کی کچھ تیاری میں مشغول ہیں۔ عورت نے پوچھا: کہاں جارہے ہیں۔ بیوی نے کہا: عمرہ کیلئے۔ عورت بولی: نہیں تم سے چھپایا ہے۔ اگر ان کے دل میں تمہارے لئے ذرا بھی جگہ ہوتی تو سے راز نہ چھپاتے۔ اس پر بیوی کو غصہ آگیا۔ اتنے میں حضرت جبیرؓ گھر میں آگئے۔ بیوی کا موڈ خراب دیکھا تو وجہ پوچھی۔ انھوں نے بتا دیا۔ اس پر حضرت جبیرؓ نے نہایت صحیح بات بتادی۔ ادھر حضرت مغیرہؓ کو راز کی تصدیق ہوگئی تو وہ حضرت عمرؓ کے پاس پہنچے اور کہنے لگے۔ اللہ تعالیٰ امیر المومنینؓ کی رائے کو بابرکت بنائے اور آپ نے تو جبیر کو عراق کا گورنر بنا دیا ہے، لیکن حضرت عمرؓ نے ان کی رائے سے واقفیت پر کسی تعجب کا اظہار نہیں کیا، بلکہ یہ فرمایا: اے مغیرہ! گویا کہ میں تو تمہارے ساتھ ہی ہوں۔ تم نے ایسا کیا اور ایسا کیا۔ اشارہ اس بھید معلوم کرنے والی عورت کی طرف تھا۔ فاروق اعظمؓ کی باتوں سے ایسا محسوس ہورہا تھا کہ وہ اس واقعے کے عینی شاہد ہوں اور پھر فرمایا تجھے خدا کی قسم ہے، کیا ایسا نہیں تھا۔ اس پر حضرت مغیرہ بولے۔ خدا گواہ ہے بالکل ایسا ہی تھا۔
(جاری)

تبصرے بند ہیں۔