امت کا رہنما طبقہ: صحابہ کرام!

آل واصحاب نبی رضی اللہ عنہم پر تاریخی روایات کی پڑی ہوئی گرد ان کے مبارک ومقدس ، منور و مجلّیٰ، خوبصورت و خوب سیرت چہروں کی تابناکی کو کبھی دھندلا نہیں سکتی۔ اہل بیت کرام ہوں یا اصحاب عظام؛ دونوں شمع رسالت کے پروانے، آسمان نبوت کے روشن ستارے، بستان نبوت مہکتے پھول ، آفتاب رسالت کی چمکتی شعائیں ، آغوش نبوت کی پروردہ ہستیاں اور کاشانہ نبوت کے فیض یافتہ شمار ہوتے ہیں ۔اس لیے کہ رسول ؛خالق ارض و سماء کا شاہکار اور انوار الہی کا آئینہ دار ہوتاہے۔اسی طرح اہل بیت کرام اور اصحاب عظام ؛رسول خدا کی مرصع نگاریوں کے انمول شاہکار اور کمالات نبوت کے آئینہ دار ہوتے ہیں ۔

  خالق نے اگر ہستی سرور کو سنوارا

آل واصحاب کے دل ساقی کوثر نے سنوارے

قدرت خود زلف رسول میں شانہ کرتی ہے، حسن نبی کو نکھارتی ہے ،جمال حبیب کو سنوارتی ہے کیونکہ جمال حبیب میں کمال محب جھلکتاہے اسی رسالت اپنے اہل بیت اور اصحاب کے نفوس وقلوب کا تزکیہ وتصفیہ کرتی ہے ،ان کی عملی زندگی کے گلے میں اوصاف حمیدہ اور اخلاق کریمانہ کی مالاڈالتی ہے کیونکہ انہی مبارک ہستیوں کے سیرت وکردار سے حسن نبوت کی خْوآتی ہے اور جمال رسالت نمودار ہوتاہے۔ اہل بیت کرام ازواج نبی اور اصحاب رسول کے بے خار پھولوں سے لدا ایک حسین گلدستہ اپنی عطر بیزیوں سے اقوام عالم کے قلوب واذہان کو توحید باری تعالی ،ختم رسالت ،صداقت قرآن ،یوم میعاد اور ایمانیات کی طرف مشک آفریں پیغام حق دیتا رہا ہے اور ان کا فیض قیامت تک جاری و ساری رہے گا۔انہی کے جادہ منزل کو ‘صراط مستقیم’ کا نام خدا کی لاریب کتاب ا ور لاشک کلام میں دیا گیا۔انہی کے ایمان کو معیار قراردیاگیا جیسے کلام الہی کی معتبر وضاحت تشریح نبوت(سنت نبوی) ہے ایسے کلام رسول کی معتبر اور مستند وضاحت تشریح صحابی ہے۔انہی کے قلوب میں رب ذوالعلیٰ نے جھانک کر دنیوی واخروی اوردائمی وابدی کامیابیوں کے اعزاز عطا فرمائے۔

شریعت اسلامیہ میں صحابہ کرام ان برگزیدہ لوگوں کو کہا جاتا ہے جنہوں نے ایمان کی حالت میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سیملاقات کی ہو، آپ کی صحبت سے مستفید ہوئے ہوں اور ایمان ہی کی حالت میں دنیا سے رخصت ہوئے ہوں ۔ یہ سب کے سب جنتی ہیں ، سب مخلص مومن ہیں ، تمام معاملات بالخصوص شریعت کو امت تک پہنچانے میں قابل اعتبار و قابل اعتماد ہیں ، اللہ تعالیٰ ان سب سے راضی اور وہ سب کے سب اللہ تعالیٰ سے راضی ہیں ، دنیا میں اللہ نے ان کے جنتی ہونے کی بشارت قرآن کریم میں ذکر فرما دی ہے۔ تمام صحابہ کرام اصحاب فضل ہیں ۔ لیکن جیسے انبیاء کرام میں فضیلت کے اعتبار سے مختلف درجات ہیں ایسے ہی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے بھی مختلف درجات ہیں ۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ فتح مکہ سے پہلے مسلمان ہونے والے فتح مکہ کے بعد مسلمان ہونے والوں سے افضل ہیں ۔فتح مکہ سے پہلے مسلمان ہونے والوں میں وہ صحابہ افضل ہیں جو صلح حدیبیہ میں شریک ہوئے۔صلح حدیبیہ کے شرکاء میں سے وہ صحابہ افضل ہیں جو غزوہ بدر میں شریک ہوئے۔غزوہ بدر والوں میں سے وہ زیادہ  افضل ہیں جنہیں عشرہ مبشرہ ہیں یعنی وہ دس خوش نصیب صحابہ کرام جن کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نام لے کر ایک ہی مجلس میں جنتی ہونے کی بشارت سنائی۔عشرہ مبشرہ میں سے خلفائے راشدین افضل ہیں یعنی سیدنا ابو بکر صدیق ، سیدنا عمر فاروق ، سیدنا عثمان غنی اور سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہم اجمعین اور خلفائے راشدین میں سے افضل شخصیت حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی ہے۔

صحیح بخاری میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : لوگوں میں بہترین میرے زمانے  والے ہیں ؛پھر وہ جو ان کے بعد ہیں ، پھر وہ جو ان کے بعد ہیں ۔

صحیح مسلم میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :میرے اصحاب میں سے کسی کو برا مت کہو ، اس لیے کہ اگر تم میں سے کوئی احد پہاڑ کے برابر سونا صرف کرے تو ان کے (خرچ کردہ) ایک مد یا آدھے مد کے برابر نہیں ہو سکتا۔

سنن ابو داؤد میں حضرت سعید بن زید رحمہ اللہ فرماتے ہیں :کسی صحابی کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مل کر جہاد کرنا ، جس میں اس کا چہرہ خاک آلود ہو گیا ہو ، تمہاری زندگی بھر کے اعمال سے افضل ہے اگرچہ عمرِ نوح بھی دے دی جائے۔

ابن ماجہ میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کو برا نہ کہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ گزرا ہوا ایک لمحہ تمہاری زندگی بھر کے اعمال سے بہتر ہے۔

مجمع الزوائد میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ا? تعالیٰ نے نبیوں اور رسولوں کے بعد ساری دنیا سے میرے صحابہ کو منتخب فرمایا اورفرمایا: میرے سب ہی صحابہ بھلائی والے ہیں ۔

صحابہ کرام کے بارے مختصر طور پر چند باتیں سمجھنا ضروری ہیں ۔

1: معیار صحابیت :عقائداورمسائل کے مجموعہ کا نام ’’شریعت‘‘ ہے۔ اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں عقائد میں بھی بنیاد صحابہ رضی اللہ عنہم کوبنایا ہے اورمسائل میں بھی بنیادصحابہ رضی اللہ عنہم کوبنایا ہے۔

2:صحابی نمائندہ مصطفی ہوتا ہے :یعنی صحابی کی آئینی حیثیت یہ ہے کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نمائندہ ہوتا ہے۔  اللہ رب العزت نے دین پیغمبر کو دیا، پیغمبر نے صحابہ کودیا،ایک ہے ’’رسول خدا‘‘ اور ایک ہے ’’رسول مصطفی‘‘، نبی کو ’’نمائندہ خدا‘‘ کہتے ہیں اورصحابی کو ’’نمائندہ مصطفیٰ‘‘ کہتے ہیں ، کلام اللہ کامعنی نبی سمجھائے گا اورکلامِ مصطفی کامعنی صحابی سمجھائے گا۔

3: کلام رسول میں فہم صحابی کی اہمیت :جیسے کلام اللہ کے الفاظ بھی نبی سے سیکھنے ہیں اور معنی بھی نبی سے،اسی طرح حدیث پاک کیالفاظ بھی صحابی سے لینے ہیں اور معنی بھی صحابی سے۔کلام رسول کی مراد میں میں فہم صحابی کی حیثیت سب سے زیادہ ہے۔

4:نبی معصوم اور صحابی محفوظ ہوتا ہے: نبی معصوم ہے اورصحابی محفوظ ہے۔ معصوم کا معنی یہ ہے کہ اللہ اپنے نبی سے گناہ ہونے دیتا نہیں اورمحفوظ کا معنی کہ صحابی سے گناہ ہو تو سکتا ہے لیکن اللہ اس کے نامہ اعمال میں باقی نہیں رہنے دیتا۔

 5: صحابہ تنقید سے بالاتر ہیں : تنقیدکی بنیادیں دوہوتی ہیں :عقیدہ  اورعمل۔ اگرتنقیدکی بنیاد عقیدہ ہو تو اگر عقیدہ غلط ہو جائے وہ صحابی رہتا ہی نہیں اوراگرعمل غلط ہوجائے توتب بھی تنقید نہیں ہو سکتی کیونکہ صحابہ کو معیار ماننے کی بنیاد عمل ہے ہی نہیں بلکہ معیار صحابی کا  عقیدہ اور صحبتِ نبوت ہے۔

6: صحابہ معیار حق ہیں :جونیک اعمال صحابہ نے کیے وہی نیک اعمال ہم کریں ، اگرخدانخواستہ ہم سے گناہ ہوجائے توپھر ہمارے دل کی کیفیت ویسی ہونی چاہیے جو ایسے موقع پر صحابہ کی ہوتی تھی کہ فوراً توبہ و استغفار میں مصروف ہو جاتے تھے۔

  اللہ جل شانہ نے صحابہ کرام کو اپنے نبی کی صحبت اور دین کی اشاعت کے لیے منتخب کیا  تھا، اس لیے ان کی فضیلت کو دل و جان سے تسلیم کرتے ہوئے ان کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کی جائے۔ اسلامی عقائد اور انسانی اخلاق کی اصلاح ویسے ہونی چاہیے جیسے صحابہ نے محنت کر کے ساری دنیا میں اپنے عمل سے واضح کی۔

تبصرے بند ہیں۔