ام المومنین حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنھا

امہات المومنین میں سے ایک حضرت زینب بنت خزیمہؓ بھی ہیں۔ایسا لگتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ان کی رفاقت بہت کم ہونے کی وجہ سے سیرت نگاروں اور مورخین نے ان کی طرف کم توجہ دی ہے۔ اس لیے سیرت اور تاریخ کی کتابوں میں ان کا تذکرہ بہت کم ملتا ہے اور جو روایات ہم تک پہنچی ہیں وہ بھی اختلافات سے محفوظ نہ رہ سکیں۔بہرحال مختصر مواد سے ہی میں نے آپؓ کا ایک تعارف پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔
خاندان
ام المؤمنین حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہا حارث ہلالی کی اولاد میں سے تھیں۔ بنو ہلال قبیلہ بنو عامر کی ایک شاخ تھی۔جو حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے تھے۔ بعض حالات کی وجہ سے یہ قبیلہ یمن میں جا کر بس گیا تھا۔ شمالی یمن میں تبالہ نامی مقام پر ذوالخامہ نام کا ایک بت تھا جس کی وہ لوگ پوجا کرتے تھے۔
تاریخ کی کتابوں میں منقول ہے کہ یمن کے لوگ بڑے خوش حال تھے۔ عیش و عشرت اور آرام و سکون کی وجہ سے نافرمانیاں اور بد اعمالیاں ان کے اندر سرایت کر گئی تھیں۔آخر اللہ تعالی کا عذاب اْن لوگوں پر نازل ہوااور’مآرب ‘کا بند ٹوٹ گیا جس کی وجہ سے دور تک تباہی و بربادی پھیلی۔ عمارتیں کھنڈرات میں تبدیل ہو گئیں اور آبادیاں ویرا نے میں بدل گئیں۔ جو محفوظ رہے وہ وہاں سے مختلف علاقوں میں نقلِ مکانی پر مجبور ہو ئے۔ ان ہی میں ام المؤمنین حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہا کا قبیلہ بنو ہلال بھی شامل تھا جو یمن سے حجاز میں آ کر آباد ہو ا۔
حسب و نسب
الاستیعاب میں حضرت زینب بنت خزیمہؓ کا نسب نامہ یوں لکھا ہے:
زینب بنت خزیمہ بن حارث بن عبداللہ بن عمرو بن عبدالمناف بن ہلال بن عامر بن صعصعہ بن معاویہ بن بکر بن ہوازن منصور بن عکرمہ بن خصفہ بن خنیس بن عیلاں الہلالیہ۔(1)
زینب بنت خزیمہ کا سلسلہ نسب نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نسب نامہ میں معد بن عدنان سے اکیسویں (21)پشت میں جا کر مل جاتا ہے۔ کتابوں میں منقول ہے کہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور عدنان کے درمیان1158 سال کا زمانہ ہے۔
سیرت نگاروں اور مورخین میں حضرت زینب بنت خزیمہؓ کے والد کی نسبت سے کوئی اختلاف نہیں ہے۔جیسا کہ ابن عبدالبر نے اپنی کتاب الاستیعاب میں ان کے سلسلۂ نسب کو بیان کرنے کے بعد صراحت کی ہے اور اسی پر دیگر مورخین کا بھی اتفاق ہے۔(2)
البتہ مورخین اورسیرت نگار وں نے حضرت زینب بنت خزیمہؓ کی والدہ محترمہ کے نسب کی تفصیلات بیان کرنے سے تجاہل برتا ہے۔ابن عبدالبر نے اس میں ابو الحسن الجرجانی کا یہ قول نقل کیا ہے کہ حضرت زینب بنت خزیمہؓ ام المومنین اپنی ما ں کی طرف سے حضرت میمونۃؓبنت الحارث کی بہن تھیں۔ساتھ ہی ابن عبدالبر نے وضاحت کر دی کہ یہ بات میں نے کسی اور کے یہاں لکھی ہوئی نہیں دیکھی۔اسی کو ابن سید الناس نے بھی ابن عبدالبر کے حوالے سے بیان کیا ہے لیکن انہوں نے اس پر کوئی استدراک نہیں لکھا ۔
عائشہ عبدالرحمٰن بنت الشاطی اپنی کتاب’نساء النبی‘ میں لکھتی ہیں کہ ابن عبدالبر کے علاوہ مشہور ماہر نسب ’ابوجعفر ابن حبیب‘ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسلاف کے ذیل میں میمونہؓ بنت الحارث بن حزن الھلالیۃ کا ذکر کیا ہے کہ ان کی والدہ ہند بنت عوف بن الحارث بن حماطہ الحمیریۃ تھیں اور ان کی علاتی واخیافی بہنیں ام الفضل لبابۃ الکبریٰ ام بنی العباس بن عبد المطلب، لبابۃ الصغریٰ ام خالد بن الولید اورعزۃ بنت الحارث تھیں ۔اور ماں کی طرف سے ان کی بہنیں زینبؓ بنت خزیمہ بن الحارث بن عبداللہ الہلالیۃ، اسماءؓ بنت عمیس (زوجہ جعفر بن ابی طالب اور ان کی شہادت کے بعد حضرت ابوبکرؓ صدیق اور ان کے بعد حضرت علیؓ بن ابی طالب کی اہلیہ محترمہ ہوئیں)اور سلامۃ بنت عمیس تھیں۔(3)
ہند بنت عوف جو ام المومنین حضرت میمونہؓ اور ان کی بہنوں کی والدہ تھیں،کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ پورے عرب میں ان سے زیادہ حسب و نسب کے لحاظ سے شریف عورت کوئی دوسری نہیں تھیں۔(4)
ولادت
نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثتِ مبارکہ سے 13؍سال پہلے 795ء کی بات ہے(5) ایک دن خزیمہ بن حارث کے گھر میں بہت ساری عورتیں ، رشتے دار اور دوست و احباب جمع تھے ،جیسے ان لوگوں کو بڑی بے تابی سے کسی خوش خبری کا انتظارتھا۔ تھوڑی دیر نہیں گذری تھی کہ گھر میں سے ایک عورت آئی اوراس نے پوچھا :
’’ خزیمہ کہاں ہے؟‘‘ خزیمہ نے جیسے ہی اْس نے عورت کی آواز سنی فوراً اس کی طرف متوجہ ہوااور سوال کیا:
’’ کیا خبر لائی ہو؟‘‘ اْس نے جواب دیا:’’ خزیمہ! لڑکی ہوئی ہے ، مبارک ہو۔بڑی خوب صورت ہے اوراس کے چہرے سے خوش بختی اور بلند اقبالی ٹپک رہی ہے۔ ‘‘
عورت کی بات سْن کر خزیمہ بے تابی اور مسرت کے ملے جلے تاثرات کے ساتھ کمرے کے اندر چلا گیا۔ بیوی کے پہلو میں لیٹی ہوئی اپنی خوبصورت بیٹی کو دیکھا تو اسے عجیب سی کشش محسوس ہوئی،بے اختیار اْس سے اپنی بیٹی کوپیارکیا اور کہا کہ :’’ یہ میری زینب ہے۔‘‘ اس طرح آپ کا نام’’ زینب ‘‘قرار پایا۔
زینب کے لغوی معنی منعمۃ البدن(خوب صورت اور نرم و نازک بدن والی)اور شجر حسن المنظر طیب الرائحۃ(خوب صورت اور اچھی خوشبو والا درخت)کے آتے ہیں۔(6) شاید اسی لیے ان کے والد نے آپ کا یہ نام رکھا ہوگا۔اس وقت کسے خبر تھی کہ یہ بلند اقبال لڑکی ایک دن خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی ہو کر امت مسلمہ کی مقدس ماں بن جائیں گی۔
حضرت زینبؓ کااسلام قبول کرنا
جب نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت کا اعلان فرمایا تو اس وقت حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہا کی عمر 13یا 14 سال تھی۔ اعلان نبوت کے بعد مکہ معظمہ کے حالات میں تبدیلی آئی اورحق پسند طبیعت کے حامل لوگ اعلانیہ اور پوشیدہ طور پر دولتِ اسلام سے مالا مال ہونے لگے۔ ساتھ ہی ازلی طور پر شقاوتوں کے حامل لوگ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے ساتھیوں کو طرح طرح سے ستا نے اور تکلیف پہنچا نے میں ہر قسم کے حربے استعمال کرنے لگے۔ تاریخ اور سیرت کی کتابوں میں یہ تو نہیں ملتا کہ حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہا کب دامنِ اسلام سے وابستہ ہوئیں ، لیکن آپ کے اعلیٰ اَخلاق و کردار ، صاف ستھری زندگی اور سخاوت و فیاضی سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ ابتدائی دور میں ہی اسلام سے قریب آ گئی ہوں گی۔
ام المومنین ہونے سے پہلے آپؓ کی ازدواجی زندگی
حضرت زینب بنت خزیمہؓ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نکاح سے پہلے کن کی زوجیت میں تھیں ۔اس میں سیرت نگاروں اور مورخین میں اختلاف پایا جاتا ہے۔
ابن کلبی کا یہ بیان ہے کہ حضرت زینبؓ بنت خزیمہ پہلے طفیل بن الحارث کے نکاح میں تھیں لیکن انہوں نے طلاق دے دی تو ان کے بھائی حضرت عبیدۃؓ بن الحارث بن عبدالمطلب نے ان سے نکاح کر لیا مگرجنگ بدرمیں شہید ہو گئے۔ حافظ ابن سید الناس کی رائے بھی یہی ہے۔
طفیل بن الحارث سے نکاح کے بعد جب حضرت زینبؓ اپنے گھر سے رخصت ہو رہی تھیں تو اْن کے گھر کا ہر فرد مغموم تھا۔ سب کاخیال تھا کہ اچھی عادتوں اور اعلیٰ اَخلاق و کردار کی حامل ہونے کی وجہ سے حضرت زینبؓ بڑی خوش گوار زندگی بسر کریں گی ،لیکن زیادہ عرصہ نہیں گذرا تھا کہ طفیل بن حارث نے انھیں کسی وجہ سے طلاق دے دی۔ سخاوت و فیاضی میں بے مثال، غریبوں ، مسکینوں اور فاقہ مستوں کی ہمدرد اور غم گسار اس نیک سیرت خاتون کو اْن کے شوہر نے طلاق کیوں دی اس کی وجہ بیان کرنے میں تاریخ و سیرت کی کتابیں خاموش دکھائی دیتی ہیں۔
ایک قول یہ ہے کہ حضرت زینبؓ بنت خزیمہ عبیدۃ بن الحارث بن عبدالمطلب کی زوجیت میں تھیں اور اس سے پہلے وہ جہم بن عمرو بن الحارث الھلالی کے نکاح میں تھیں ،جو ان کے چچا زاد بھائی تھے۔(7)
ابن سعد نے ابن حجر کے حوالے لکھا ہے کہ حضرت زینبؓ بنت خزیمہ کو طفیل بن الحارث بن عبدالمطلب کے ذریعہ طلاق ہونے بعد ان کا نکاح ان کے بھائی حضرت عبیدۃؓ بن الحارث بن عبدالمطلب سے ہوا اور آپؓ غزوہ بدر میں شہید ہوئے۔(8)
امام قسطلانی رحمۃ اللہ علیہ کے مطابق حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہا کو طفیل بن حارث نے طلاق دے دی تو اس کے بعد آپ کی شادی طفیل کے بھائی حضرت عبیدۃ بن حارث رضی اللہ عنہ سے کر دی گئی۔ جن کی کنیت ’’ابو معاویہ ‘‘تھی، ماں کا نام سنجیلہ تھا۔ قد میانہ ، رنگ گندم گوں اور چہرہ بہت خوب صورت تھا۔ وہ جوانی کی منزلیں پار کر چکے تھے جب انہوں نے نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلانِ نبوت کو سنا اور اسلام کی صداقت کے سامنے آپؓ نے سرتسلیمِ خم کردیا اور اسلام لے آئے۔
بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں انھیں غیر معمولی مرتبہ حاصل تھا۔ مشہور صحابی مؤذنِ رسول حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہ نے جب اسلام قبول کیا تو ان کے مالک نے انھیں طرح طرح سے اذیتیں دیں لیکن وہ صبر و استقامت کے ایک مضبوط پہاڑ کی طرح اسلام پر ڈٹے رہے۔ چوں کہ آپ حبشہ کے تھے مکہ معظمہ میں آپ کا کوئی رشتے دار وغیرہ نہ تھالہٰذا نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ معظمہ میں حضرت بلالؓ کو حضرت عبیدۃؓ بن حارث رضی اللہ عنہ کا اسلامی بھائی قرار دیا تھا۔ حضرت عبیدہ رضی اللہ عنہ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے عطا کردہ اس نسبت پر بڑ اناز تھا۔ اور انھوں نے اخوت و محبت کی جو مثال قائم کی وہ اسلامی تاریخ کے اور اق میں آج بھی روشن ہے ۔
اسلام کے ابتدائی زمانے میں جن لوگوں نے اسلام قبول کیا ان پر مشرکین مکہ کی طرف سے ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے۔ حضرت عبیدۃ بن حارثؓ اور ان کی بیوی حضرت زینبؓ بنت خزیمہ پر بھی دشمنانِ اسلام نے مظالم ڈھائے۔ جب مکہ مکرمہ میں کفار و مشرکین کے ظلم و ستم حد سے زیادہ ہو گئے تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے جاں نثاروں کو مدینہ منورہ ہجرت کرنے کا حکم فرمایا۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے کسی نے عرض کیا :
’’ یارسول اللہ! ہم تو ہجرت کر جائیں گے مگر آپ؟‘‘
آپ نے ارشاد فرمایا:’’ مجھے ابھی ہجرت کا حکم نہیں ہوا ہے۔‘‘
شام کے وقت جب حسبِ معمول حضرت عبیدۃ بن حارث رضی اللہ عنہ اپنے مکان میں داخل ہوئے تو آپ کی وفا شعار بیوی حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہا نے پوچھا :
’’آپ کے چہرے کے تاثرات بتا رہے ہیں کہ آج کو ئی خاص بات ہوئی ہے۔‘‘اس پر اْن کے شوہر نے سرگوشی کے انداز میں کہا: ’’ ہاں ! آج نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ہجرت کا حکم ہوا ہے۔‘‘
حضرت زینب رضی اللہ عنہا نے اس پر دریافت کیا کہ :’’ کس طرف ہجرت کرنے کا حکم ملا ہے۔‘‘آپؓ نے جواب دیا:
’’ مدینہ منورہ کی طرف۔‘‘
حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہجرت کا حکم مل جانے کے بعد دونوں میاں بیوی خاموشی کے ساتھ ہجرت کی تیاریاں کرنے لگے اور انہیں مناسب وقت کا انتظار تھا۔ آخرکار ایک دن حضرت عبیدۃؓ بن حارث اور حضرت زینبؓ بنت خزیمہ دونوں بھائیوں حضرت طفیلؓ بن حارث و حضرت حصینؓ بن حارث اور ایک ساتھی حضرت مسطحؓ بن اثاثہ کے ساتھ مکہ مکرمہ کے کفار و مشرکین سے چھپتے ہوئے مدینہ منورہ کے لیے روانہ ہوئے۔
مہاجرین کا یہ چھوٹا سا کارواں اپنی منزل کی طرف احتیاط کے ساتھ قدم بڑھا رہا تھا کہ اچانک راستے میں حضرت مسطح بن اثاثہ رضی اللہ عنہ کو ایک بچھو نے ڈنک مار دیا اور وہ پیچھے رہ گئے۔ انھوں نے حضرت عبیدۃبن حارث رضی اللہ عنہ سے کہا کہ وہ لوگ اپنا سفر اسی طرح جاری رکھیں جیسے ہی میری طبیعت میں سدھار آئے گا مَیں آ کر راستے میں مل جاؤں گا۔ لیکن جب دوسرے دن یہ اطلاع ملی کہ حضرت مسطح رضی اللہ عنہ چلنے پھرنے کی بھی سکت نہیں رکھتے تو حضرت عبیدۃرضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں کو یہ گوارا نہ ہوا کہ ایک اسلامی بھائی کو اس طرح اکیلا چھوڑ دیا جائے۔لہٰذا وہ لوگ کچھ دور چلنے کے بعد دوبارہ واپس لوٹ آئے اور حضرت مسطح بن اثاثہ رضی اللہ عنہ کو اپنے ساتھ لیا اور اْن کی صحت کا خیال رکھتے ہوئے بڑی آہستگی سے مدینہ طیبہ کی طرف سفر کرتے رہے۔ بالآخرطویل سفر کے بعد یہ قافلہ اپنی منزل مقصود مدینہ منورہ میں داخل ہوا۔ سب سے پہلے اس نورانی قافلے کا استقبال حضرت عبدالرحمن بن سلمہ عجلانی رضی اللہ عنہ نے کیا اور بڑے محبت و خلوص کے ساتھ حضرت عبیدہ رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں کی مہمان نوازی کی۔
جب اللہ تعالیٰ کے حکم سے نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت فرما کر مدینہ منورہ پہنچے اور مواخات قائم کی توحضرت عبیدۃ بن حارث رضی اللہ عنہ کو حضرت عمیر بن حمام انصاری رضی اللہ عنہ کا بھائی قرار دیا۔ حضرت عمیر رضی اللہ عنہ نے دیگر انصاری صحابہ کی طرح بھائی چارگی کی وہ مثال قائم کی کہ دنیا دیکھتی رہ گئی۔ آپ نے حضرت عبیدۃ رضی اللہ عنہ اور ان کے خاندان کی رہایش کے لیے ایک بڑی زمین دے دی جہاں وہ رہنے لگے۔ حضرت زینب رضی اللہ عنہا حسبِ معمول غریبوں ، مسکینوں اور فاقہ مستوں کو کھانا کھلاتیں ، لوگوں کا دکھ درد بانٹتیں ، ان کے دروازے پر آنے والے سائل کو کبھی خالی ہاتھ نہیں لوٹاتیں۔یہاں بھی وہ سخاوت و فیاضی میں بڑی مشہور ہو گئیں۔ اسی طرح ان کے شوہر حضرت عبیدہ بن حارث رضی اللہ عنہ کو نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جو محبت و عقیدت تھی اس سے آپؐ بہ خوبی واقف تھے۔ نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حضرت عبیدہ بن حارث رضی اللہ عنہ کی جو منزلت و رفعت تھی، اس کو دیکھتے ہوئے مہاجرین و انصار انھیں ’’شیخ المہاجرین‘‘ کے لقب سے یاد کیا کرتے تھے۔
مدینہ منورہ میں ہجرت کرنے کے بعد اسلام نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے جاں نثاروں کے حْسنِ سیرت اور اعلیٰ اخلاق و کردار اور اپنی حقانیت اور صداقت کی بنیاد پر بڑی تیزی سے پھیلنے لگا۔اسلام کی اس طرح بڑھتی مقبولیت اور لوگوں کے اسلام قبول کرنے کی وجہ سے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے کفار و مشرکین اور یہود و نصاریٰ کی نیندیں اڑ گئیں۔ ان دشمنانِ اسلام نے اسلام کو ختم کرنے اور مسلمانوں کو نقصان پہنچا نے کے لیے طرح طرح کے منصوبے بنائے۔ اب اسلام سے ان کی مخالفت میں بھی بڑی تیزی آ گئی۔ جب کفار و مشرکین کی سازشیں عروج پکڑنے لگیں تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے نبیِ کریمؐ نے ان کا سدِ باب کرنا شروع کیا۔
ہجرت کے آٹھویں سال ماہِ شوال کے آغاز میں آپ نے رابغ نامی علاقے کی طرف ایک سریہ بھیجا (ایسا اسلامی لشکر یا ٹولی جس میں نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم شامل نہ ہوں اسے سریہ کہتے ہیں) اس سریہ کا امیر ام المساکین حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہا کے شوہر شیخ المہاجرین حضرت عبیدہ بن حارث رضی اللہ عنہ کو مقرر فرمایا۔ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ٹولی کو ایک سفید جھنڈا عطا کیا جس کو حضرت مسطح بن اثاثہ رضی اللہ عنہ لیے ہوئے تھے۔ رابغ کے قریب جب یہ لشکر ’’ ثنیہ مریہ‘‘ کے مقام پر پہنچا تو ابو سفیان اور عکرمہ بن ابوجہل کی کمان میں دو سو مشرکین کی جماعت سے مڈ بھیڑ ہوئی۔ حضرت سعد بن وقاص رضی اللہ عنہ نے کفار پر تیر پھینکا۔ یہ سب سے پہلا تیر تھا جو مسلمانوں کی طرف سے کفار پر چلایا گیا۔ مدارج النبوت میں شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمہ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ :
’’ حضرت سعد بن وقاص رضی اللہ عنہ نے کل آٹھ تیر پھینکے اور ہر تیر ٹھیک نشا نے پر بیٹھا۔ کفار ان تیروں کی مار سے گھبرا کر فرار ہو گئے۔ اس لیے کوئی جنگ نہ ہوئی۔ اس سریہ کو ’’ سریہ عبیدہ بن الحارث‘‘ کہا جاتا ہے۔‘‘
اسی دوران جنگ بدر کا واقعہ پیش آیا۔ مدینہ منورہ سے میدانِ بدر کا فاصلہ تقریباً اٹھانوے(98) میل کا تھا۔ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے جاں نثار اصحاب رضی اللہ عنہم کے ساتھ جمعہ کی رات 71؍ رمضان المبارک 2ھ کو بدر کے قریب اترے۔ یہ اسلامی تاریخ کا حق و باطل کے درمیان پہلا باضابطہ معرکہ تھا۔ دونوں لشکروں میں صف آرائی ہونے کے بعد دشمنانِ اسلام کی طرف سے کفارِ مکہ کے سردار عتبہ، شیبہ اور ولید میدانِ جنگ میں اترے اور انفرادی لڑائی کے لیے آواز لگائی۔ جس کے جواب میں نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے تین جاں نثار اصحاب’’ علی ، حمزہ اور عبیدہ ‘‘(رضی اللہ عنہم)کو بھیجا۔
حضرت علی اور حضرت حمزہ رضی اللہ عنہما دونوں نے جلد ہی اپنے مدمقابل کو قتل کر دیاجب کہ حضرت عبیدہ بن حارث رضی اللہ عنہ اور ولید میں دیر تک لڑائی جاری رہی اوردونوں ہی زخمی ہو گئے۔ حضرت علی اور حمزہ رضی اللہ عنہم نے آگے بڑھ کر ولید کو قتل کیا۔ اس معرکے میں حضرت عبیدہؓ بن حارث کا ایک پاؤں شہید ہو گیا تھا یہ زخم بڑا کاری تھا۔ جنگ کے خاتمے کے بعد جب لشکر مدینے کی طرف واپس ہونے لگا تو صفرا ء کے مقام پر آپ نے داعیِ اجل کو لبیک کہا اور وہیں مدفون ہوئے۔
حضرت زینبؓ بنت خزیمہ نے جب اپنے شوہر کی شہادت کی خبر سنی تو اْن کی آنکھیں نم ہو گئیں ، لیکن صبر کا دامن نہیں چھوڑااور بارگاہِ رب العزت میں عرض کیا:
’ ’ اے اللہ! بس تو راضی ہو جا۔‘‘(9)
روایتوں میں آتا ہے کہ جب حضرت زینبؓ بنت خزیمہ نے اپنے شوہر حضرت عبیدۃؓ بنت الحارث کی شہادت کی خبر سنی توا س وقت وہ زخمی مجاہدوں کو پانی پلانے اور ان کی مرہم پٹی کرنے میں مصروف تھیں لیکن انہوں نے صبر و سکون اور استقامت کے ساتھ اپنے کام کو جاری رکھا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح دے دی۔(10)
ایک قول یہ بھی ہے کہ حضرت زینبؓ بنت خزیمہ جلیل القدر صحابی حضرت عبداللہ بن جحشؓ( لقب المجدع فی اللہ،گوش بریدۂ راہِ خدا)کے نکاح میں تھیں جو جنگِ احد (3ھ)میں شہید ہوئے۔اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپؓ کو نکاح کا پیغام بھیجا۔اسے ابن حجر نے اصابۃ میں اور ابن عبدالبر نے الزھری سے روایت کیا ہے۔علامہ شبلی نعمانی نے بھی حضرت عبداللہ بن جحشؓ سے ہی شادی ہونے کی روایت لی ہے۔(11)
حضرت عبد اللہؓ بن حجش کی شہادت کے بارے میں ایک روایت ملتی ہے کہ انہوں نے غزوہ احد سے پہلے شام کو حضرت سعدؓ بن ابی وقاص سے یہ درخواست کی کہ آؤ ! کل لیے ایک دعا میں مانگوں اور ایک تم مانگو جس کی جیسی خواہش ہو۔ تمہاری دعا پر میں آمین کہوں اورمیری دعا پر جو بھی میں مانگوں تم آمین کہو ! غالباً اس کی وجہ وہ رہی ہوگی کہ حضرت سعدؓ بن ابی وقاص حضور کی دعاکی وجہ سے مجیب الدعوات بن گئے تھے۔ سب سے پہلے حضرت سعدؓبن ابی وقاص نے دعا کی:
’’الٰہی کل جب دشمن سے مڈبھیڑ ہو تو ایسا آدمی میرے مقابلے پر لاجو سخت جنگجو اور غضب ناک ہو،وہ مجھ سے لڑے اور میں اس سے لڑوں،پھر مجھے اس پر غالب فرما تاکہ میں تیری راہ میں اسے قتل کر دوں۔‘‘
اس پر حضرت عبد اللہؓ بن حجش نے آمین کہا۔ پھر انہوں نے دعا مانگنا شروع کی :
’’اے میرے اللہ !میرے مقابلے میں ایسا آدمی لانا جو بڑا بہادر اور تند ہو،میں اس سے لڑوں اور وہ مجھ سے لڑے،یہاں تک کہ میں لڑتے لڑتے تیری راہ میں اس کے ہاتھ سے قتل ہو جاؤں،پھر وہ میری ناک اور کان کاٹ ڈالے،جب میں تجھ سے ملوں اور تو مجھ سے پوچھے کہ تیرے کان ناک کیوں کاٹے گئے؟تو میں عرض کروں کہ اے اللہ!تیرے لیے اور تیرے رسول کے لیے!میرے جواب پر تو فرمائے کہ ہاں تو سچ کہتا ہے۔‘‘(12)
جنگ احد میں دونوں صحابی کی دعا قبول ہوئی اورعبد اللہؓ بن حجش کو شہادت نصیب ہو ئی چوں کہ احد میں کفار نے شہدائے احد کا مثلہ کیا تھا۔ لہذا ان کے ساتھ بھی یہ ہی ظلم روا رکھا گیا۔ پہلے ’سریہ‘(رجب2ھ) کے سردارہونے کی و جہ سے کفار ان سے بہت ناراض بھی تھے۔
علامہ ابن اثیرؒ نے لکھا ہے کہ حضرت سعدؓ بن ابی وقاص کا گزر ان کی لاش پر ہوا تو بے ساختہ ان کی زبان سے نکلا:
’’خدا کی قسم!عبداللہ کی دعا میری دعا سے بہتر تھی،‘‘(13)
ان کی شہادت پرحضرت زینب نے،اپنی ہم خاند ان حضرت حمنہؓ الہلالیۃکی طرح جب ان کے شوہر حضرت عبد اللہؓ بن حجش کے انتقال کی خبر دی گئی تو انہوں نے کوئی آہ و فغا ں نہیں کی بلکہ پہلے سے بھی اور زیادہ عبادت و سخاوت میں مصروف ہوگئیں۔حضرت حمنہؓ کے بارے میں مورخین نے لکھا ہے کہ غزوہ احد میں انہیں ان کے والد کی شہادت کی خبر دی گئی تو وہ خاموش رہیں، پھر ان کے بھائی(حضرت عبداللہ بن جحشؓ)کی شہادت کی خبر دی گئی تو انہوں نے فرمایا اللہ تعالی ان پر رحم فرمائے ۔انا للہ وانا الیہ راجعون ۔ مگر ان کو جب ان کے نامور شوہر حضرت معصب بن عمیرؓ کے شہید ہونے کی خبر دی گئی تو ان کے منہ سے نکلا !ہائے میرا غم ۔ جونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سن لیا اور فرمایا:
’’ان للزوج من المرأۃ لشعبۃ ماہی لشی۔(14)
’’بے شک عورت کو خاوند سے جو قلبی تعلق ہوتا ہے وہ اور کسی سے نہیں ہوتا ہے۔‘‘
پھر ان سے حضور نے پوچھا کہ تمہیں آخر کس چیز نے بے چین کر دیا تو انہوں نے فرمایا کہ یارسول اللہ اپنے بچوں کے مستقبل نے، کہ ان کا سوتیلا باپ نہ جانے کیسے پرورش کرے گا۔ آپ میرے لیے اللہ سے دعا فرمائیے کہ اللہ تعالیٰ صبرِ جمیل کی عطا فرمائے۔ آپ نے دعا فرمائی پھر ان کی شادی حضرت طلحہ بن عبد اللہؓ سے ہوئی جوکہ ایک جلیل القدر صحابی تھے۔ انہوں نے ان کے بچوں اور ان کا ان کے پہلے شوہر سے بھی زیادہ خیال رکھا۔
ایک قول یہ ہے کہ حضرت زینبؓ بنت خزیمہ طفیل بن الحارث بن عبدالمطلب کی زوجیت میں تھیں لیکن انہوں نے آپؓ کو طلاق دے دی۔پھر آپؓ کا نکاح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوا۔اسے طبری اور عبدالبر نے قتادہ سے روایت کی ہے۔(15)
راجح قول یہ ہے کہ حضرت زینبؓ بنت خزیمہ طفیل بن الحارث بن عبدالمطلب کی زوجیت میں تھیں۔ اس کے بعد وہ ان کے بھائی عبیدۃؓبن الحارث کی زوجیت میں آئیں جو جنگِ بدر میں شہید ہوئے۔پھر آپ کا نکاح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوا۔اس روایت کو ابن حبیب نے المحبر میں،ابو حسین الجرجانی النسابۃ کی اسی روایت کو ابن عبدالبرنے،ابن سید الناس نے عیون الاثر میں اور المحب الطبری نے السمط میں بیان کیا ہے۔
حضرت زینبؓ بنت خزیمہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجیت میں
جب نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہا کے صبر و استقامت ، ثابت قدمی اور ان کے جہاد کا علم ہوا اور ان کی نگہداشت کرنے والا کو ئی نہ دیکھا تو آپ نے انھیں نکاح کا پیغام بھیجا اور اس طرح اْمت کے غم گسار نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اور بیوہ عورت کو سہارا دیااور انھیں ’’ ام المساکین‘‘ کے ساتھ ساتھ’’ ام المؤمنین‘‘ کا تاجِ عزت و رفعت پہنایا۔یہ نکاح اوائل رمضان 3ھ میں ہوا اورچار سو( 400) درہم مہرتھا۔(16)
حافظ ابو عمرو نے لکھا ہے کہ یہ ام المومنین سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا کی ماں کی طرف سے بہن تھیں۔ نکاح کے وقت ساڑھے بارہ اوقیہ (پانچ سو درہم) مہر مقرر ہوا۔اس وقت حضرت زینب کی عمر تقریباً تیس سال کی تھی۔
طبری میں ہے کہ :
’’اور اس سال ۔چوتھی صدی۔میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زینبؓ بنت خزیمہ سے نکاح کیا ،رمضان کے مہینے میں اور وہ اس سے پہلے طفیل بن الحارث بن عبدالمطلب کی زوجیت میں تھیں جنہوں نے آپؓ کو طلاق دے دی تھی۔‘‘
اس طرح حضرت زینب بنت خزیمہؓ پانچویں خاتون تھیں جوام المومنین کے عظیم مرتبے پر فائز ہوئیں۔اس سے پہلے حضرت خدیجہؓ ، حضرت سودہ بنت زمعہؓ ،حضرت عائشہؓاور حضرت حفصہؓآپؓ کے عقدِ نکاح میں آچکی تھیں۔ حضرت زینب بنت خزیمہؓ کوحضرت عائشہؓ اور حضرت حفصہؓ کی سہیلی ہونے کا بھی شرف حاصل تھا۔ان دونوں کو یہ بھی پتہ تھاکہ حضورنے ان کے اور ان کے شوہر کے تقویٰ کے بنا پر ان کی دلجوئی کرنے کے لیے یہ شادی کی ہے ،لہذا انہوں نے بھی خوش آمدید کہا اور ان کی برابر دلجوئی کی ۔(17)
حضرت زینبؓ بنت خزیمہ کا ولی کون تھا
حضرت زینبؓ بنت خزیمہ کے نکاح کے وقت ولی کون تھا ؟اس میں سیرت نگاروں اور مورخین میں اختلاف ہے۔
ابن الکلبی سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بذاتِ خود حضرت زینب بنت خزیمہ کو نکاح کا پیغام بھیجا تھا اور انہوں نے اسے قبول کر لیااور بارہ اوقیہ پر نکاح ہوا۔(18)
ابن ہشام السیرۃ میں لکھتے ہیں :
’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے حضرت زینبؓ بنت خزیمہ کے نکاح میں ولی آپؓ کے چچا قبیصۃ بن عمرو الھلالی تھے۔‘‘
وفات
حضرت زینبؓ بنت خزیمہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کتنی مدت رہیں اور ان کی وفات کب ہوئی اس میں بھی مورخین اور سیرت نگاروں کی مختلف روایات ملتی ہیں۔
الاصابۃ میں ایک روایت ہے :
حضرت زینبؓ بنت خزیمہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجیت میں حضرت حفصہؓ کے بعد آئیں اور دو یا تین ماہ آپؓ کا انتقال ہو گیا۔(19)
ایک دوسری روایت ابن الکلبی سے ہے:
حضرت زینبؓ بنت خزیمہ کی شادی حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے رمضان 3ھ میں ہوئی اور وہ آپ کی رفاقت میں آٹھ مہینہ(8)رہیں پھر ربیع الآخر 4ھ میں آپؓ کا انتقال ہوگیا۔(20)
شذرات الذہب میں ہے :
’’حضرت زینب بنت خزیمہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجیت میں 3ھ میں آئیں اور تین ماہ بعد ان کا انتقال ہو گیا۔‘‘
حضرت زینب بنت خزیمہؓ کی عمروفات کے وقت تیس (30)سال تھی۔(21)
حضرت زینبؓ بنت خزیمہ کاامتیاز
ام المساکین کا لقب
حضرت زینب بنت خزیمہؓ بعض معاملات میں دیگر ازدواج مطہرات سے آگے نظر آتی ہیں۔جیسے آپؓ بڑی رحم دل،منکسر المزاج، اور سخی تھیں۔آپ ہمہ وقت دوسروں کی مدد کے لیے تیار رہتی تھیں اور ہمیشہ آپ اپنی ذات پر دوسروں کو ترجیح دیا کرتی تھیں۔اگرچہ آپ کا بچپن بڑے ناز و نعم میں گذرالیکن اس دور کی دوسری بچیوں کی بہ نسبت آپ بڑی منفرد تھیں۔ بچپن ہی سے انھیں غریبوں ، مسکینوں اور فاقہ مستوں کو کھانا کھلا نے کا بڑا شوق و ذوق تھا۔ جب تک وہ کسی کو کھانا نہ کھلا لیتیں انھیں سکون محسوس نہ ہوتا۔اْن کے باپ خزیمہ کا شمار اْس زمانے کے بڑے رئیسوں میں ہوتا تھا۔ اْس کے پاس کسی چیز کی کمی نہ تھی۔باوجود اس دولت و ثروت کے حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہا کے اندر بچپن ہی سے عاجزی ،انکساری اور فیاضی کی صفت پائی جاتی تھی۔اسی وجہ سے زمانہ جاہلیت سے ہی لوگ آپ کی اس صفت کی وجہ سے آپ کو ’’ام المساکین‘‘ کے لقب سے یاد کرنے لگے تھے۔(22)
ابن ہشام لکھتے ہیں:
’’حضرت زینبؓ بنت خزیمہ کو ’ام المساکین‘ کہا جاتا تھا،ان کی رحم دلی اور نرمی کی وجہ سے۔‘‘(23)
الاستیعاب اور الاصابۃ میں لکھا ہے:
’’اور انہیں ام المساکین کہا جاتا تھا۔کیوں کہ وہ انہیں کھانا کھلاتی تھیں اور انہیں صدقہ خیرات دیتی تھیں۔‘‘
اسی طرح کے الفاظ تاریخ الطبری:3/33 اورشذرات الذہب :1/10 میں بھی ملتے ہیں۔
طبرانی نے ابن شہاب الزہری سے روایت کیا ہے کہ:
’’ جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے زینب رضی اللہ عنہا بنت خزیمہ الہلالیہ سے نکاح فرمایا، اس وقت بھی ان کی کنیت ام المساکین تھی۔ یہ نام اور کنیت بوجہ کثرت سے غرباء اور مساکین کو کھانا کھلانے سے مشہور تھی۔‘‘
ابن ابی خشمیہ فرماتے ہیں:
’’ سیدہ زینب رضی اللہ عنہا جاہلیت میں بھی ام المساکین کے لقب سے معروف تھیں‘‘۔
ان ہی صفات کے حامل لوگوں کے بارے میں قرآن کہتا ہے:
یوفون بالنذرویخافون یوماً کان شرہ مستطیراً۔ویطعمون الطعام علی حبہ مسکیناً و یتیماًواسیراً۔انما نطعمکم لوجہ اللہ لا نرید منکم جزاء ولا شکوراً۔انا نخاف من ربنایوماً عبوساً قمطریراً(24)
’’یہ وہ لوگ ہوں گے جو (دنیا میں) نذر پوری کرتے ہیں اور اس دن سے ڈرتے ہیں جس کی آفت ہر طرف پھیلی ہوئی ہو گی اور اللہ کی محبت میں مسکین اور یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں (اور ان سے کہتے ہیں کہ) ہم تمہیں صرف اللہ کی خاطر کھلا رہے ہیں۔ ہم تم سے نہ کوئی بدلہ چاہتے ہیں نہ شکریہ۔ ہمیں تو اپنے رب سے اس دن کے عذاب کا خوف لاحق ہے جو سخت مصیبت کا انتہائی طویل دن ہو گا‘‘
مفسرین اور سیرت نگار ،صحابہ کرام میں سے کئی ایک عظیم نام لے کر بیان کرتے ہیں کہ وہ ان آیات کی تصویر و تفسیر تھے۔ لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اہلیہ محترمہ حضرت زینبؓ بنت خزیمہ بھی اس کا بہترین نمونہ ہیں۔
عائشہ عبدالرحمٰن بنت الشاطی اپنی کتاب’نساء النبی‘ میں الشیخ محمد المدنی کے حوالے سے لکھتی ہیں کہ انہوں نے ’’الرسالۃ‘‘(25) میں اپنے ایک مقالے میں لکھا ہے:
’’زینب بنت جحشؓ بہت زیادہ سخی تھیں۔یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اہلیہ محترمہ۔اور وہ یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ بہت شفقت و محبت کے ساتھ پیش آتی تھیں۔یہاں تک کہ وہ ’’ام المساکین‘ کے نام سے معروف ہو گئیں۔‘‘
لیکن عائشہ عبدالرحمٰن بنت الشاطی اس کی نفی کرتی ہیں کہ مجھے نہیں معلوم انہوں نے کہاں سے اس لقب کو زینبؓ بنت جحش کے لیے استعمال کیا ہے۔جب کہ سیرت کے تمام مصادراور قرنِ اول کی تمام تاریخی کتابوں میں اس بات پر اتفاق ہے کہ یہ لقب حضرت زینبؓ بنت خزیمہ کے لیے ہے۔(26)
حضرت زینبؓ کانبی کریمؐ کی زندگی ہی میں وفات پانا
حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بعد حضرت زینب رضی اللہ عنہا ہی کو یہ شرف حاصل ہوا کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہی رخصت ہوئیں۔جب کہ دیگر ازواج مطہّرات نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد وفات پائی۔
حضرت زینب کی نمازِ جنازہ نبی کریم ؐ کا پڑھانا اور جنت البقیع میں دفن ہونا
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زینبؓ بنت خزیمہ کی خود نماز جنازہ پڑھائی اور انہیں جنت البقیع میں دفن کیا۔(27)
آپؓ پہلی امہات المومنین تھیں جن کی تدفین جنت البقیع میں کی گئی۔(28)
****

حواشی
(1)الاستیعاب:357
(2)تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو،الطبقات الکبریٰ،نساء الاستیعاب والاصابۃ،السیرۃ الھشامیۃ:4/792،تاریخ الطبری:3/971، المحبرلابن حبیب:38، جمہرۃ انساب العرب:262، السمط الثمین:211، عیون الاثر:2/203
(3)نساء النبی،عائشہ عبدالرحمٰن بنت الشاطی،دارالکتب العربی،بیروت،لبنان،9791ء،ص231
(4)المحبر:105۔109،الاصابۃ:8/59
(5)خاندان نبوت صلی اللہ علیہ وسلم،محمد ادریس،مکتبہ رحمانیہ،نزد گورنمنٹ لطیف ہائی اسکول(دارالسلام)، 3991ء، ص725
(6) قاموس الاسماء العربیۃ،شفیق الارناؤوط،دارالعلم للملایین، بیروت،لبنان،طباعت دوم،1998ء، ص021
(7)زوجات الانبیاء علیھم السلام وامہات المومنین رضی اللہ عنھن،محمد علی قطب،الدار الثقافیۃ للنشر، القاھرۃ، 4002، ص641۔السیرۃ الھشامیۃ
(8)ابن حجر:الاصابۃ،ج 7،ص 376 بحوالہ کتاب الطبقات الکبیر،محمد بن سعد بن منیع الزھری،مکتبۃ الخانجی،القاہرۃ، 1002، ج01، ص211
(9)امہات المومنین،محمود احمد صواف،مکتبہ علوم اسلامی،سمن آباد،جھنگ صدر،ص26۔36
(01)زوجات النبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم و اسرار الحکمۃ فی تعددھن،ابراہیم محمد حسن الجمل،مکتبۃ وھبۃ، القاہرۃ، طباعت دوم،ص86
(11) سیرۃ النبی،شبلی نعمانی،دارالمصنفین،شبلی اکیڈمی،اعظم گڑھ،1102ء،ص923
(21)خیر البشر کے چالیس جاں نثار،طالب ہاشمی،مرکزی مکتبہ اسلامی،3531،چتلی قبر،دہلی،طبع چہارم،5991ء،ص601۔701)،مستدرک حاکم،اسد الغابۃ
(31)خیر البشر کے چالیس جاں نثار،طالب ہاشمی،مرکزی مکتبہ اسلامی،3531،چتلی قبر،دہلی،طبع چہارم، 5991ء ، ص511
(41)ابن ماجہ:0951
(51)نساء النبی،عائشہ عبدالرحمٰن بنت الشاطی،دارالکتب العربی،بیروت،لبنان،9791ء،ص331
(61)شذرات الذہب،طبقات:8/28
(71)زوجات النبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم و اسرار الحکمۃ فی تعددھن، ابراہیم محمد حسن الجمل،مکتبۃ وھبۃ،القاہرۃ، طباعت دوم،ص86
(81)زوجات الانبیاء علیھم السلام وامہات المومنین رضی اللہ عنھن،محمد علی قطب،الدار الثقافیۃ للنشر، القاھرۃ،4002، ص641، الطبقات الکبریٰ :7/511، الاصابۃ:4/613
(91)الاصابۃ: 4/ 513، الاستیعاب:4/213
(02)نساء النبی،عائشہ عبدالرحمٰن بنت الشاطی،دارالکتب العربی،بیروت،لبنان،9791ء،ص431۔زوجات النبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم و اسرار الحکمۃ فی تعددھن، ابراہیم محمد حسن الجمل،مکتبۃ وھبۃ،القاہرۃ،طباعت دوم،ص96
(12)زوجات الانبیاء علیھم السلام وامہات المومنین رضی اللہ عنھن،محمد علی قطب، الدار الثقافیۃ للنشر، القاھرۃ،4002، ص641
(22)طبقات الکبریٰ:7/511
(32)السیرۃ:4/692
(42) الدھر :7۔01
(52)شمارہ: 3011،تاریخ4/3/569
(62)نساء النبی،عائشہ عبدالرحمٰن بنت الشاطی،دارالکتب العربی،بیروت،لبنان،9791ء،ص631
(72)الطبقات الکبریٰ :7/611
(82)نساء النبی،عائشہ عبدالرحمٰن بنت الشاطی،دارالکتب العربی،بیروت، لبنان، 9791ء،ص631

 (مضامین ڈیسک)

تبصرے بند ہیں۔