انتظار

نظرعرفان

انتظار، ایک اور  انتظار

آج پھر وہ نہ ملی

آج پھر میں انتظار کرتا رہا

پرندے مجھے دیکھتے رہے

اور میری بیکسی پہ روتے رہے

میں ہر طرف دیکھتا رہا

یہ میری زندگی

انکے لئے

پر وہ سمجھی نہیں

لیکن وہ بےقصور

انکی بھی ہیں مجبوریاں

جو بنیں ہم سے انکی دوریاں

جو میں جانا  اورسمجھی وہ

لیکن وہ کہہ نہ پائی مجھے

یہ پرندے جانتے ہیں

چرند تو آخر چرند!

کیا بتاؤں اسے

محبت اسی کا نام ہے

اسے دولت سے کیا  واسطہ

آج پھر وہ نہ ملی

آج پھر میں انتظار کرتا رہا

تبصرے بند ہیں۔