اندھیرے سے اجالے کی طرف

شاہ مدثر

علم

خدا شناسی

اعترافِ بندگی

اور

احساسِ جوابدہی کا نام ہے۔

علم ایک ذریعہ ہے جو انسان کو اندھیرے سے نکال کر اجالے کی طرف سفر کرنے میں مدد دیتا ہے۔

محترم قارئین

دینِ اسلام میں تعلیم کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے،

کیونکہ اسلام علم کے حصول کا درس دیتا ہے، سورۃ العلق کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ علم کا حصول اللّٰہ تعالیٰ کے نام کے ساتھ مخصوص ہے، اور یہی علم خدا شناسی سیکھاتا ہے۔تعلیم کا پہلا اور سب سے اہم مقصد خدا کی معرفت حاصل کرنا ہے۔

یقیناً آج انسان علم کے میدان میں ناقابلِ یقین ترقی کرچکا ہے، آسمان کی بلندیوں، زمین کے تہہ خانوں اور سمندر کی گہرائیوں تک رسائی حاصل کرچکا ہے۔

علم کی اس غیرمعمولی ترقی کی وجہ سے زندگی کے ہر میدان میں زبردست تبدیلیاں رونماہورہی ہیں۔ ہمارا انداز فکر، قدریں اور طرز زندگی تبدیل ہورہا ہے۔ اس کی وجہ سے زندگی کا مقصد بھی بدلتا جا رہا ہے۔ آج نہ صرف ہمارا نظامِ تعلیم بگڑ چکا ہے بلکہ تعلیم کے بارے میں ہمارے بنیادی تصورات بھی برباد کر دیے گئے ہیں۔

 آج ہم ہر قسم کے  سر ٹیفکیٹ، ڈپلومے، اور ڈگریاں تو حاصل کررہے ہیں لیکن اُمّت مسلمہ کے معاملات کو چلانے اور پوری انسانیت کو اسلام کی طرف بلانے کے لئے جو فہم و فراست، قابلیت و صلاحیت درکار ہے اس سے محروم ہیں۔ نہایت ہی افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ ہم آج علم کے حقیقی مقصد کو بالکل فراموش کرچکے ہیں، آج حصولِ تعلیم کا مقصد تبدیل ہوکررہ گیا ہے۔ آج ہم تعلیم کی ضرورت کو تو محسوس کررہے ہیں مگر اس کے اصل معنی اور مقصد سے پوری طرح غافل ہیں۔ آج  تعلیم کا مقصد صرف ڈگریوں کا حصول رہ گیا ہے، آج تعلیمی میدان میں ایسی ایسی فیلڈز کا انتخاب ہورہا ہے جو زندگی کو روپیوں اور پیسوں سے بھردیں، اپنے مستقبل کو تابناک اور روشن بنانے کی فکر میں ہم غیر شعوری طور پر تعلیمی میدان میں دوڑ رہے ہیں۔

‌۔لیکن باوجود اس کے ہم  تعلیم کے مقصد کو سمجھ نہیں رہے ہیں، اس کی خاص وجہ وہ نظامِ تعلیم ہے جس نے ہمارے ذہنوں کو بدل کر رکھ دیا ہے، آج کے موجودہ تعلیمی نظام نے دنیا کو تباہی کے دہانے پر لاکر کھڑا کر دیا ہے۔ یہ وہی نظامِ تعلیم ہے جو انگریزوں کی کوکھ سے جنم لیا ہوا ہے۔

جس کا مقصد محض تن پروری و تن آسانی اور عیش پرستی ہے۔ ایک ایسا نظامِ تعلیم تیار کیا گیا جس کا مقصد ہی یہ ہے کہ مسلمانوں میں بداعتقادی کا بیج بویا جائے اور ان کو ان کے مذہبی ورثہ سے دور کردیا جائے جس کی وجہ سے وہ مسلمان بھی باقی نہ رہیں۔

*غور کرنے کا مقام ہے کہ  آج کے مسلمان اعلیٰ قسم کے ڈاکٹر،انجنیئر،پروفیسر،فلاسفر،سیاستدان اور سائنسدان تو بن رہے ہیں لیکن خدا شناسی،فکرِ آخرت اور غلبۂ دین کی فکر سے محروم ہوتے جارہے ہیں کیونکہ موجودہ نظامِ تعلیم انگریزوں کے دماغ کی پیداوار ہے۔ اس تعلیم کے ذریعے خیالات و نظریات کو ایک مخصوص رنگ میں ڈھالا جارہا ہے، موجود نظامِ تعلیم کا اثر آج مسلم نوجوانوں کے کردار میں صاف نظرآرہا ہے، اس کے علاوہ خدا بیزاری،عیش پرستی،تن پروری،فحاشی،بے حیائی، حرام خوری،شراب نوشی،عشق مجازی،خونریزی ہر عام و خاص برائی تعلیم یافتہ لوگوں میں بھی سرایت کرتی جارہی ہے۔

اسی تعلیم کا نتیجہ ہے کہ آج یومِ آزادی اور یومِ جمہوریہ کے موقع سے مسلمان بچے اور بچیوں کو نچایا جاتا ہے، تعلیمی دیوی کی پوجا پاٹ ہوتی ہے، وندے ماترم پڑھوایا جاتا ہے، ان حالات سے بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ان اداروں کے ذمہ داروں اور سرپرستوں کی ذہنیت کس قدر مغرب زدہ ہوچکی ہے،

اور بڑی چالاکی سے  اس قبیح عمل کو فنونِ لطیفہ کا نام دے دیا گیا ہے، موجودہ نظامِ تعلیم کے ذریعے مغربی تہذیب و ثقافت، مغربی آداب و رسوم اور مغربی طرز معاشرت کا ایک جال بچھایا جارہا ہے، اس وقت امت مسلمہ بھی اس جال میں پھنستی جارہی ہے۔اور ہمارے افکارو نظریات اور ہماری ثقافت و تہذیب صدفی صد مغربی ثقافت و تہذیب کے سانچے میں ڈھل چکی ہے۔ یہ بات ذہن نشین رہے کہ  موجودہ تعلیم مقصدیت سے عاری اور انتہائی ناقص ہے، اس وجہ سے ہماری نسلوں میں بھی حصولِ تعلیم کے بعد بے مقصدیت جنم لے رہی ہے۔ لہذٰا ہمیں بامقصد تعلیم کی ضرورت ہے، اگر ہم اپنے بچوں کو صحیح مقصد نہیں دے گے تو کوئی دوسرا انہیں مقصد دے گا اور ان کو اپنے مقصد میں استعمال کرےگا۔ اور اسی کا نتیجہ ہے کہ آج امت کا ایک بڑا حصہ لادینیت اور الحاد کا  شکار بن رہا ہے

اللہ سے کرے دور، تو تعلیم بھی فتنہ

املاک بھی اولاد بھی جاگیر بھی فتنہ

موجودہ نظامِ تعلیم کے مضر اثرات سے وہی بچ سکتا ہے جس کے اندر مقصدِ علم کا شعور زندہ ہو۔ خدا شناسی اور فلاحِ انسانیت کا جذبہ باقی ہو۔

محترم قارئین

اگر ہم چاہتے ہیں کہ معاشرے کو اخلاقی بگاڑ اور انسانی غلامی سے بچائیں تو ہمیں تعلیمی عمارت کی بنیاد کو خدا شناسی پر رکھنی ہوگی، اسلام کا نقطئہ نظر تعلیم کے سلسلہ میں یہ ہے کہ تعلیم کے ذریعہ انسان حق و باطل کی تمیز، اخلاقی اقدار کی تحصیل اور معرفت خداوندی کے حصول کے راستے تلاش کرے اور انسانی ہمدردی و غمخواری کا جذبہ لے کر انسانوں کی خدمت کرے۔ تعلیم کا اصل مقصد تو اسلام کی نشر و اشاعت اور قوم و ملت کی خدمت و حفاظت ہے۔ بلکہ علم وہ نور ہے جو انسان کو کفر و شرک اور ظلم و جہل کی تاریکیوں سے نکال کر اجالوں کی طرف راہ نمائی کرتا ہے۔ لہٰذا تعلیم کا عمل جتنا بامقصد اور موثر   ہوگا، اتنا ہی قوم اور ملک کا مستقبل شاندار اور تابناک ہوگا۔

دیار عشق میں اپنا مقام پیدا کر

نیا زمانہ نئے صبح و شام پیدا کر

تبصرے بند ہیں۔