انسان اور زمین کی حکومت (قسط 19)

رستم علی خان

پس لگے آپس میں فیصلہ کرنے لگے کہ یا تو ابراھیم کو مار ڈالو یا پھر جلا ہئ دو-تب اس بات پر متفق ہوئے کہ انہیں جلا دیا جائے اور ایک بڑی آگ کی تیاری کرنے لگے یہ آگ یہ آگ قریہ کوثی کے میدان میں دہکائی گئی جو بہت بڑا میدان تھا اور جو شہر بابل سے متصل ہے اور اس کے شعلے اہل شام کو دِکھائی دیتے تھے۔ آگ کے شعلے سات دن تک اس طرح جلتے رہے کہ اس کے اوپر سے پرواز کرنے والے پرندے بھی جل کر خاکستر ہو جاتے تھے۔ اس آگ کو جلانے کے لئیے اہل بابل کے ہر چھوٹے بڑے یہاں تک کے عورتوں نے بھی اپنا حصہ ڈالا اور دور دراز علاقوں سے لڑکیاں اکٹھی کر کے لائی گئیں-

اب باری آئی حضرت ابراھیم علیہ السلام کو اس آگ میں ڈالنے کی تو ظاہری بات ہے کہ کوئی ذی شعور آدمی خود سے چل کر اس آگ میں جانے سے رہا اسے وہاں ڈالا جاتا اور مسئلہ یہ تھا کہ اس کے قریب جاتا کون کیوں کہ حضرت ابراھیم کو لے جانے والے خود بھی جل جاتے کہ وہ آگ کوسوں دور تک اڑتے پرندوں کو جلا کر خاک کر رہی تھی-

تب شیطان مردود بھی وہیں موجود تھا اس نے انہیں "منجنیق” بنانے کا مشورہ دیا- لیکن ان میں سے کسی کو منجنیق بنانی نہیں آتی تھی تب شیطان مردود نے انہیں منجنیق بنا کر دی اور ان کی مدد بھی اس میں شامل تھی- چونکہ شیطان نے آسمانوں پر اس منجنیق کو دیکھ رکھا تھا کہ جب گناہگاروں کو جہنم میں ڈالا جاتا تو اس کے الاو اس آگ سے کہیں زیادہ بڑے اور روشن ہوتے اور ان کی تپش بھی دور تک جاتی تو وہاں منجنیقیں لگی ہوئیں جن میں ڈال کر جہنمیوں کو آگ میں ڈالا جائے گا- وہ منجنیق ایک بڑی غلیل کی مانند ہوتی ہے جس میں بڑی بڑی چیزوں کو ڈال کر پیچھے کی جانب کھینچ کر چھوڑا جاتا ہے اور وہ اس سے نکلنے کے بعد دور تک جا کر گرتی ہیں۔

جب منجنیق تیار ہوئی اور حضرت ابراھیم علیہ السلام کو اس میں رکھ کر کھینچا گیا تو نہ کھینچ سکے اور آپ کی مدد کو فرشتے آ گئے- تب شیطان مردود نے کہا کہ ایسے چاہے تم ساری قوم زور لگاو تو بھی مقصد کو نہ پا سکو گے کیونکہ میں یہاں ایک ایسی مخلوق دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھ سکتے اور جو طاقت و قوت میں تم سے کئی گنا بڑھ کے ہیں- تب انہوں نے پوچھا کہ تم بزرگ ہو ہم سب میں سے اور ہم دیکھتے ہیں کہ تم بہترین مشورہ دینے والے ہو تمہی ہمیں کوئی مشورہ دو- تب لعین نے کہا کہ تم میں سے گیارہ گیارہ مرد و عورتیں سب کے سامنے برہنہ ہو کر زنا کرو تو یہ فرشتے یہ ناپاک عمل دیکھ کر چلے جائیں گے پھر تم باآسانی کھینچ سکو گے-

تب ان میں سے گیارہ مرد و عورتوں نے برہنہ زنا کیا اور ان میں حضرت ابراہیم کا باپ آزر بھی تھا- (یہاں ایک بات واضح کرتے چلیں کہ آزر کے ابراہیم کا سگا باپ ہونے پر بھی بحث ہے کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ میری پیدائش پاک ہے اور میں پاک پشتوں سے پاک رحموں میں سے ہوں، بعض علما کا بیان ہے کہ اس سے مراد تھا کہ میں صاحب ایمان پشتوں میں سے ہوں یعنی ان میں کوئی کافر نہیں تو اس سے آزر چونکہ کافر تھا تو عین ممکن ہے کہ وہ باپ نہ ہو بلکہ کوئی عزیز ہو- جب کے بعض محدثین کے نزدیک اس سے مراد یہ ہے کہ آپ کی ولادت نکاح در نکاح سے ہوئی ہے یعنی کہ جائز رشتوں سے آپ کی پشتوں میں کوئی غلط عمل سے نہیں ہے اس لحاظ سے چونکہ آزر نے شرعی بیوی سے اجماع کیا تو حضرت ابراہیم کی ولادت ہوئی سو اس کے باپ ہونے میں شک نہیں ہے- واللہ اعلم الصواب)

اور شیطان لعین نے بھی ان کے ساتھ مل کر ایک عورت سے زنا کیا تب فرشتے جو مدد کو آئے تھے یہ غلیظ عمل دیکھ کر وہاں سے چلے گئے- بعد اس کے انہوں نے منجنیق کو کھینچا تو وہ آسانی سے کھینچ گئی- اور جب حضرت ابراہیم علیہ السلام آگ کی طرف جا رہے تھے تو جناب جبرائیل علیہ السلام حاضر خدمت ہوئے اور فرمایا کہ میں آپ کی کیا مدد کر سکتا ہوں ؟ آپ نے پوچھا تمہیں اللہ نے بھیجا ہے ؟ تو جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا کہ نہیں میں خود آیا ہوں- تب فرمایا تو پھر جاو میرے لئیے اللہ ہی کافی ہے اور وہی میرا کارساز ہے- پھر پانی کے فرشتے نے عرض کی حکم کریں تو ابھی آگ کو بجھا دوں – پوچھا اللہ نے تمہیں بھیجا ہے ؟ فرمایا نہیں میں تو خود آیا ہوں – تب فرمایا میرے لئیے میرے لئیے اللہ ہی کافی ہے اور وہی میرا کارساز ہے- تب حضرت جبرائیل نے پوچھا کہ اگر اللہ سے کچھ کہنا ہے تو بتا دیں میں عرض پنہچائے دیتا ہوں – حضرت ابراہیم نے فرمایا کیوں کیا وہ خود نہیں دیکھ رہا مجھے کیا وہ سمیع البصیر نہیں ہے تم جاو- تب اللہ نے حضرت ابراہیم کے ایمان و استقلال کو دیکھتے ہوئے آگ کو حکم دیا کہ ٹھنڈی ہو جا- بعض روایات میں تذکرہ ہے کہ آگ اس قدر ٹھنڈی ہو گئی کہ حضرت ابراہیم کو سردی محسوس ہونے لگی تو اللہ سے عرض کی کہ یا باری تعالی مجھے سردی لگ رہی ہے- تب فرمایا کہ آگ میرے ابراہیم پر سلامتی کے ساتھ ٹھنڈی ہو جا- اور آگ کی جگہ نخلستان ہوا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لئیے ایک تحت رکھا گیا اور آپ کے ایمان و استقامت پر اللہ نے آپ کو خلیل اللہ کے لقب سے نوازا-

روایات میں تذکرہ ملتا ہے کہ جب آپ کو آگ میں ڈالا گیا تو ایک "بلبل پرندے” کو اس بارے خبر ہوئی تو وہ دوڑی اور اپنی چونچ میں مقدور بھر پانی بھر کر لاتی اور آگ پر ڈالتی جاتی اور بار بار یہی عمل دہراتی رہی تو اللہ کو اس کا یہ عمل اس قدر پسند آیا کہ اس پر بھی اس آگ کو ٹھنڈا کر دیا گیا اور وہ نار نمرود اس کے لئیے بھی نخلستان ہوا اور وہ حضرت ابراہیم کے ساتھ اس نخلستان میں اڑتی پھری اور جنت کی بشارت دی گئی۔

جب حضرت ابراہیم کو آگ میں ڈالا گیا تو پوری قوم تماشہ دیکھنے کو آئی ہوئی تھی- جب انہوں نے دیکھا کہ وہ آگ بجائے آگ کے مثل نخلستان اور گلزار کے ہو گیا ہے اور آپ اس میں بڑے آرام و سکون سے ہیں اور جڑاو تحت پر بیٹھے ہیں اور جنت کی نعمتیں آپ کے آگے کھانے کو رکھی ہیں تو بجائے اس کے کہ عقل کرتے اور سمجھتے انہوں نے آپ پر دور سے انہیں منجنیقوں میں پتھر ڈال کر برسانے شروع کر دئیے- لیکن انہوں نے دیکھا کہ پتھر جب آگ کے اوپر پنہچتے تو مثل ابر ہو جاتے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام پر سایہ کئیے رہتے- ظالم ناخوش ہوئے اور دل مسوس کر رہ گئے-حضرت ابراہیم علیہ السلام اس آگ میں چالیس دن تک رہے اور بعد میں فرماتے کہ میری زندگی کے سب سے خوبصورت دن وہ چالیس دن تھے جب میں نار نمرود میں تھا-

مگر بہت کم لوگ یہ بات جانتے ہیں کہ آتش نمرود کے گلزار کی خوشبو صرف حضرت ابراہیمؑ نے ہی نہیں سونگھی تھی بلکہ ایک اور شخصیت بھی اس آگ میں آپ کے ہمراہ تھیں جس کو رب تعالیٰ نے آنیوالی نسلوں کیلئے محترم بنا دیا۔ یوں تو حضرت سارہؑ نے بھی عشق الٰہی اورنبی کی محبت میں نمرود کے خلاف احتجاجاََ آتش نمرود میں حضرت ابراہیمؑ کی ہمراہی کی استدعا کرتے ہوئے کودنے کی کوشش کی تھی مگر آپ ؑ کے والد اور دیگر لوگوں نے آپ کو ایسا نہ کرنے دیا، حضرت سارہؑ اس وقت حضرت ابراہیم ؑ کے نکاح میں نہ آئی تھیں ۔یہ سعادت کا مقام بھی عجیب ہے رب کائنات جسے چاہتا ہے عنایت فرما دیتا ہے۔ آتش نمرود میں حضرت ابراہیمؑ کے ساتھ کوئی اور نہیں بلکہ نمرود کی ہی نو عمر بیٹی بھی تھی۔ واقعہ کچھ ایسے ہے کہ نمرود کی کم سن بیٹی نے اپنے باپ سے کہا۔ ابا جان ! مجھے اجازت دیں کہ میں ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں جلتاہوا دیکھوں ۔نمرود نے اجازت دے دی اور اس نے آگ کے قریب پہنچ کر ابراہیم علیہ السلام کود یکھا کہ آپ کے اردگرد آگ بھڑک رہی ہے۔  اس نے کسی اونچی جگہ پر چڑھ کردیکھا تو آگ کے شعلے آسمان سے باتیں کررہے تھے مگر حضرت ابراہیم علیہ السلام بالکل صحیح سالم تشریف فرماتھے۔

اس نے حیران ہو کر حضرت ابراہیم علیہ السلام سے سوال کیا کہ اتنی بڑی آگ تمہیں جلاتی کیوں نہیں ۔  آپ ؑ نے فرمایا جس کی زبان پر بسم اللہ الرحمن الرحیم جاری ہو اور دل میں خدا کی معرفت کا نور ہو۔ اس پر آگ کاا ثر نہیں ہوتا۔ نمرود کی بیٹی نے جب حضرت ابراہیمؑ کو آگ کے بھڑکتے شعلوں میں بھی مطمئن اور خوش و خرم پایا تو بولی۔ اے ابراہیم ؑ! میں بھی تمہارے پاس آنا چاہتی ہوں ۔مگر چاروں طرف تو آگ کے شعلے بھڑک رہے ہیں آؤں کیسے ؟آپؑ نے فرمایا۔ لاالہ الااللہ ابراہیم خلیل اللہ۔  کہہ کربے خوف چلی آؤ۔ نمرود کی بیٹی نے اس پاک کلمے کو پڑھا۔ اور فوراََ آگ میں کود پڑی۔  خدا کی قدرت آگ اس پر سرد ہو گئی۔  اور وہ اس میں صحیح سالم زندہ رہی۔ جب ابراہیم علیہ السلام کے پاس سے اپنے گھر واپس آئی اور باپ کو ساری سرگذشت سنائی تو نمرود سیخ پا ہو گیا پہلے تو اسے سمجھاتے ہوئے کہا کہ میں تیرے بھلے کی بات کہتا ہوں دین ابراہیم علیہ السلام سے باز آ۔ اور بتوں کی پوجا سے منہ نہ پھیریو ورنہ اچھا نہ ہوگا۔ نمرود نے اگرچہ اپنی بیٹی کو بہت ڈرایا دھمکایا مگر اس نے ایک نہ مانی۔ آخر ملعون نمرود نے اس خدا کی پیاری پر ظلموں کے پہاڑ توڑ ڈالے۔ جب سختیاں حد سے بڑھ گئیں تو خدا کے حکم سے جبرائیل علیہ السلام آئےاور خدا کی پیاری کو وہاں سے اٹھا کر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس پہنچا دیا حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے لڑکے کے نکاح میں دے دیا۔ جس سے اولوالعزم پیغمبر پیدا ہوئے۔

بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق

تبصرے بند ہیں۔