انسان اور زمین کی حکومت (قسط 24)

رستم علی خان

قوم لوط کے افراد جو بادہ شہوت وغرور سے مست ہو چکے تھے، اس رہبر الٰھی کی نصیحتوں کو جان ودل سے قبول کرنے اور خود کو اس دلدل سے باہر نکالنے کی بجائے اس کے مقابلے پر تل گئے اور ان سے کہا: اے لوط(ع) !کافی ہوچکا، اب خاموش رہو اگر ان باتوں سے بازنہ آئے تو تمہارا شمار بھی اس شہر سے نکال دئیے جانے والوں میں سے ہو گا-

تمہاری باتیں ہماری فکر اور آرام میں خلل ڈال رہی ہیں ہم ان باتوں کے سننے کے ہرگز روادار نہیں، اگر تمہاری یہی حالت رہی تو ہم تمہیں سزادیں گے جو کم از کم جلاوطنی کی صورت میں ہوگی- قرآن مجید میں ایک اور مقام پر ہے کہ انھوں نے اپنی اس دھکی کو عملی جامہ بھی پہنایا اور حکم دیا کہ لوط(ع) کے خاندان کو شہر سے باہر نکال دو کیونکہ وہ پاک لوگ ہیں اور گناہ نہیں کرتے۔
ان گمراہ اور گناہ سے آلود لوگوں کی جسارت اس حدتک جاپہنچی کہ تقویٰ اور طہارت ان کے درمیان بہت بڑا عیب سمجھا جانے لگا اور ناپاکی اور گناہ سے آلودگی ان کی خوشی کا سبب ہوا- اور یہ کسی معاشرے کی تباہی کی علامت ہوتی ہے جو تیزی کے ساتھ برائیوں کی طرف بڑھ رہا ہوتا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا یے کہ اس فاسق وفاجر گروہ نے ایسے پاک و پاکیزہ لوگوں کو پہلے باہر نکال دیا جو ان کو ان کے بےہودہ اعمال سے روکا کرتے تھے-

لہذا انہوں نے حضرت لوط علیہ السلام کو بھی یہی دھمکی دی کہ اگر تم نے اپنے اس تبلیغی سلسلے کو جاری رکھا تو تمہارا بھی وہی انجام ہو گا- بعض تفسیروں میں صراحت کے ساتھ تحریر ہے کہ وہ پاک دامن لوگوں کو بدترین طریقے سے جلاوطن کردیا کرتے تھے۔
ایک احتمال یہ بھی ہے کہ وہ گناہوں کی دلدل میں اس حدتک پھنس چکے تھے کہ لوط کے خاندان کا تمسخراڑا کر کہتے تھے کہ وہ ہمیں ناپاک سمجھتے ہیں اور خود بڑے پاکباز بنتے ہیں، یہ کیسا مذاق ہے؟

یہ عجیب بات نھیں تو اور کیا ہے کہ بے حیائی اور بے شرمی کے فعل سے مانوس ہو جانے کی وجہ سے انسان کی حس شناخت ہی یکسر بدل جائے-

جناب لوط علیہ السلام نے اس قوم کو تیس سال تک تبلیغ کی، لیکن اپنے خاندان کے سوا(اور وہ بھی بیوی کو مستثنیٰ کر کے کیونکہ وہ مشرکین کے ساتھ ہم عقیدہ ہو گئی تھی)، اور کوئی آپ پر ایمان نہیں لایا۔لیکن حضرت لوط علیہ السلام نے ان دھمکیوں کی کوئی پرواہ نہ کی اور اپنا کام جاری رکھا اور فرمایا؛ ” میں تمہارے ان کاموں کا دشمن ہوں۔ “ (سوره شعراء آیت ۱۶۷)

یعنی میں اپنا احتجاج برابر جاری رکھوں گا، تم جو کچھ میرا بگاڑنا چاہتے ہو بگاڑ لو، مجھے راہ خدا اور برائیوں کے خلاف جہاد کے سلسلے میں ان دھمکیوں کی قطعا ًکوئی پرواہ نہیں ہے۔ اس احتجاج میں اور بھی بہت سے لوگ جناب لوط علیہ السلام کے ہمنوا ہو چکے تھے، یہ اوربات ہے کہ سرکش قوم نے آخرکار انھیں جلاوطن کردیا-لائق توجہ بات یہ کہ حضرت لوط علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ”تمہارے اعمال کا دشمن ہوں “ یعنی مجھے تمہاری ذات سے دشمنی نہیں بلکہ تمہارے شرمناک اعمال سے نفرت ہے اگر ان اعمال کو

اپنے سے دور کردو تو پھر تم میرے پکے دوست بن جاوٴگے۔
بہرحال جناب لوط علیہ السلام کی ذمہ داری کا آخری مرحلہ آن پہنچا لہٰذا وقت آپہنچا کہ جناب لوط علیہ السلام خود کو بھی اور جو لوگ ان پر ایمان لاچکے ہیں انہیں بھی اس گناہ آلود علاقے سے بایر نکال کرلے جائیں تاکہ ہولناک عذاب اس بےحیا قوم کو اپنی لپیٹ میں لے لے۔

حضرت لوط علیہ السلام نے اللہ کی بارگاہ میں دست دعا بلند کرکے کہا:

”پروردگار: ! جو کچھ یہ لوگ کہہ رہے ہیں مجھے اور میرے خاندان کو اس سے نجات دے۔

حضرت لوط علیہ السلام کی قوم کی سرکشی جب حد سے بڑھ گئی اور اس میں دن بدن اضافہ ہوتا گیا تو انہوں نے اللہ پاک سے التجا کی کہ وہ فسادیوں کے خلاف انکی مدد فرماۓ۔ انکی دعا قبول ہوئی اور آپ کی ناراضی کی وجہ سے قوم پر اللہ کا عذاب نازل ہوا۔

اللہ تعالی نے اس قوم کی تباہی کے لئیے فرشتوں کو بھیجا کیونکہ وہ سرکشی اور بےحیائی میں حد سے بڑھے ہوئے تھے- اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجے گئے فرشتے اس قوم کے لئے عذاب الہٰی لیکر پہنچے- یہ فرشتے پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرف گئے اور انہیں حضرت اسحق و یعقوب کی بشارت دی کہ یہی حکم الہی تھا- بعد اس کے حضرت لوط کی بستی کو تباہ کرنے گئے اور حضرت ابراہیم بھی ان کے ساتھ ہی تھے لیکن آپ کو راستے میں ٹھہر دیا گیا- روایات میں ان کی تعداد مختلف بیان ہوئی ہے کہ وہ تین تھے نو تھے یا بارہ تھے- واللہ اعلم الصواب-

اور وہ فرشتے انسانی شکل میں حضرت لوط علیہ السلام کے پاس آۓ- تب آپ اپنے کھیتوں میں کام کر رہے تھے- فرشتوں نے انہیں سلام کیا اور ان کے گھر ٹھہرنے کی خواہش ظاہر کی۔ حضرت لوط علیہ السلام کو انکی درخواست رد کرنے سے شرم آئی اور وہ انہیں لیکر گھر کیطرف چل پڑے۔ (اور بعض روایات میں ہے کہ دن وہیں ایک ویرانے میں گزارا اور شب کو انہیں گھر کی طرف لیکر چلے تانکہ بستی والوں کو ان کی خبر نہ ہو سکے) کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ اگر انہوں نے ان مسافروں کی مہمانی نہ کی تو کوئی اور ان کو اپنے گھر لے جاۓ گا اور وہ انتہائی بد کردار قوم تھی۔ آپ علیہ السلام اسی لئے پریشان بھی تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ مہمانوں کا دفاع اور بدکاروں سے انکا بچاؤ ایک مشکل کام ہے، انہیں پہلے بھی اس کام میں مشکلات آ چکی تھیں اور شہر کے لوگوں نے کہہ رکھا تھا کہ کسی اجنبی کو اپنا مہمان نہ بنائیں۔ راستے میں حضرت لوط علیہ السلام نے کہا کہ قسم ہے اللہ کی میں نہیں جانتا کہ روۓ زمین پر اس بستی والوں سے زیادہ گندے اور خبیث لوگ بھی ہونگے۔

وہ فرشتے کم سن اور خوبصورت لڑکے بن کر گئے تھے اور انہیں اللہ پاک کی طرف سے حکم ملا تھا کہ اس وقت تک اس قوم کو تباہ نہ کریں جب تک انکا نبی ان کے خلاف تین مرتبہ گواہی نہ لے کر آئے۔ حضرت لوط علیہ السلام کو اس قوم کی بد افعالیاں اچھی طرح معلوم تھیں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
ترجمہ: ” اور جب ہمارے فرشتے لوط کے پاس آۓ تو وہ ان کے آنے سے غمناک اور تنگ دل ہوۓ اور کہنے لگے کہ آج کا دن بڑی مشکل کا دن ہے۔” (ھود،۷۷)

پس حضرت لوط علیہ السلام ان مہمانوں (فرشتوں ) کو لیکر اپنے گھر آ گئے۔ تاکہ انکی حفاظت کر سکیں لیکن انکی بیوی انکی قوم جیسی تھی اور کافرہ تھی، اس نے قوم کو ان مہمانوں کی خبر کر دی پس قوم کے لوگ حضرت لوط علیہ السلام کے دروازے پر آۓ اور بلند آواز سے کہنے لگے کہ اے لوط وہ حسین اور کم سن اشخاص جو تمہارے ہاں مہمان ہوۓ ہیں تم انکو ہماری طرف بھیج دو تب حضرت لوط علیہ السلام نے کہا:

” اے قوم! یہ (جو میری قوم کی) لڑکیاں ہیں، یہ تمہارے لئے جائز اور پاک ہیں۔ ” (ھود،۷۸)

حضرت لوط علیہ السلام نے جب قوم کے بدکاروں کو مہمانوں کی بے آبروئی پر آمادہ دیکھا تو فرمایا کہ یہ میری بیٹیاں موجود ہیں۔ ان بیٹیوں سے مراد لوط علیہ السلام کی قوم کی لڑکیاں تھیں جن کو ظالموں نے چھوڑ رکھا تھا اور مرد لڑکوں سے جنسی خواہش پوری کرتے تھے، کیونکہ کسی نبی کی قوم کی بیٹیاں اُسی کی بیٹیاں ہوتی ہیں، اس میں مومنہ اور کافرہ کے فرق کی بھی ضرورت نہیں ہوتی۔ آج بھی قوم کے بڑے بوڑھے کم از کم دیہات میں بستی کی سب لڑکیوں کو اپنی ہی بیٹیاں سمجھتے ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اس سے آپ علیہ السلام کی اپنی بیٹیاں مراد ہیں جو دو یا تین تھیں۔ مگر یہ اس صورت میں ہے کہ لوط علیہ السلام کے مخاطب چند مخصوص لوگ ہوں ورنہ ساری بستی کیلئے ان کی بیٹیاں کیسے کافی ہو سکتی تھیں۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت لوط علیہ السلام کے گھر پر چڑھائی کرنے والوں کو بھیجنے والے قوم کے کچھ سردار تھے۔ انہی کیلئے ان بدمعاشوں نے مہمانوں کا مطالبہ کیا تھا۔ اس لئے حضرت لوط علیہ السلام نےفرمایا کہ یہ میری بیٹیاں موجود ہیں۔ مگر یہ واضح رہے کہ خواہ بیٹیوں سے ان کی حقیقی بیٹیاں مراد ہوں یا قوم کی لڑکیاں، حضرت لوط علیہ السلام کا مطلب یہ تھا کہ ان سے نکاح کر کے جائز طور تمنع کرو۔ خدا نخواستہ یہ مطلب نہیں تھا کہ زنا کرو، ورنہ ھُنَّ اَطْھَرُلَکُمْ کا کوئی مطلب نہیں رہتا اور نہ کوئی اللہ کا نبی ایسی بات کرسکتا ہے۔

” سو اللہ سے ڈرو اور میرے مہمانوں (کے بارے) میں مجھے ذلیل نہ کرو۔ کیا تم میں سے کوئی بھی شائستہ آدمی نہیں ؟۔

لیکن اس قوم نے یہ بات بھی نہ مانی سب کے سب کافر اور بدکار تھے انہوں نے بے حیائی کا مطاہرہ کرتے ہوۓ پیغمبر سے کہہ دیا :
” اے لوط! آپکو معلوم ہے ہم تمہاری (قوم کی) بیٹیوں کی خواش نہیں رکھتے۔ ہم جو چاہتے ہیں وہ آپکو معلوم ہی ہے۔” (ھود، ۷۹)

یہ بات کہتے ہوۓ ان ذلیلوں کو نہ تو معزز اور پاکباز رسول سے شرم آئی اور نہ اللہ عظیم و برتر کی گرفت سے خوف محسوس ہوا حضرت لوط علیہ السلام ان کو اپنے گھر میں داخل ہونے سے روکنے کی کوشش کرتے رہے۔ دروازہ بند تھا اور وہ لوگ اسے کھولنے اور اندر گھسنے کی کوشش کر رہے تھے جب صورتحال نازک ہو گئی تو آپ علیہ السلام نے فرمایا:
"اے کاش! مجھ میں تمہارے مقابلے کی طاقت ہوتی یا میں کسی مضبوط قلعے میں پناہ پکڑ سکتا۔

جب نبی اللہ کی تین بار اس قوم کی سرکشی پر گواہی پوری ہو گئی،

(1) جب فرشتے آئے تو آپ غمناک ہوئے اور سوچا کہ آج کا دن سخت ہے اور فرشتوں کو کہا کہ ایسے برے لوگ زمین پر کہیں نہیں سو احتیاط کرنا کہ یہ حد سے گزرے ہوئے ہیں –

(2) اے قوم میری بیٹیاں حاضر ہیں اور یہ پاک ہیں تمہارے لئیے سو اللہ سے ڈرو اور میرے مہمانوں کے بارے مجھے زلیل و رسوا نہ کرو-

(3) اے کاش! مجھ میں تمہارے مقابلے کی طاقت ہوتی یا میں کسی مضبوط قلعے میں پناہ پکڑ سکتا۔”

یعنی انکی یہ تمنا کہ کاش انکے پاس قوم سے مقابلے کی طاقت ہوتی یا انکے قبیلے یا خاندان کے لوگ وہاں موجود ہوتے جو ظالموں کے خلاف انکی مدد کرتے اور انکی بدتمیزی کی سزا دے سکتے۔

جب تین بار گواہی ہو چکی تب فرشتوں نے کہا :
” اے لوط! ہم تمہارے پروردگار کے فرشتے ہیں۔ یہ لوگ ہر گز تم تک نہیں پہنچ سکتے۔”

حضرت جبریل علیہ السلام باہر تشریف لے گئے اور اپنے پر کا ایک کنارا ان کے چہرے پر مارا تو وہ اندھے ہو گئے، بعض علماء کہتے ہیں انکی آنکھیں بالکل معدوم ہو گئیں نہ انکی جگہ باقی رہی نہ کوئی نشان باقی رہا وہ دیواروں کو ٹٹولتے اور نبی علیہ السلام کو دھمکیاں دیتے کہ تم نے اپنے گھر جادوگر بلا رکھے ہیں اور یہ کہتے ہوئے لوٹ گئے کہ جب صبح ہو گی تو تم کو دیکھیں گے۔

پھر فرشتوں نے حضرت لوط علیہ السلام کی طرف متوجہ ہو کر کہا کہ

"آپ اپنے گھر والوں کو لیکر رات کے آخری حصے میں یہاں سے تشریف لے جائیں اور جب قوم پر عذاب نازل ہو تو انکی آواز سن کر تم میں سے کوئی پیچھے مڑ کر نہ دیکھے۔ سواۓ تمہاری عورت کے اسے بھی وہی پہنچنا ہے جو انہیں پہنچے کا۔ ان کے عذاب کے وعدے کا وقت صبح ہے اور کیا صبح کچھ دور ہے؟”

حضرت حضرت لوط علیہ السلام جب شہر سے نکلے تو ان کے ساتھ انکی بیٹیاں اور بیوی بھی تھی اورجب وہ شہر سے نکل گئے اور سورج طلوع ہوا تو اللہ کا عذاب بھی آ گیا جسے ٹال دینا کسی کے بس میں نہیں تھا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

” تو جب ہمارا حکم آیا ہم نے اس بستی کو الٹ کر نیچے اوپر کر دیا۔ اور ان پر پتھر کے تہ بہ تہ کنکر برساۓ جن پر تمہارے پروردگار کے ہاں سے نشان کئے ہوۓ تھے اور وہ ظالموں سے کچھ دور نہیں۔ ”

روایات میں ہے کہ پھر جبرائیل امین نے ان بستیوں کو اول زمین کی جڑ سے اکھاڑا پھر اسے اس طرح اوپر اٹھایا کہ کسی چیز نے جنبش تک نہ کی یہاں تک کہ درختوں کے پتے بھی نہ ہلے اور انہیں اتنا اوپر اٹھایا کہ آسمان والوں کو ان کی آوازیں سنائی دیں ان کے جانوروں کی اور کتوں کے بھونکنے کی اور پھر انہیں زمین پر الٹ دیا اور وہ ٹوٹ کر بکھر گئیں – پھر ان پر مسلسل پتھروں کی بارش سے انہیں نظروں سے اوجھل کر دیا۔ ہر پتھر پر اس شخص کا نام لکھا تھا جس پر اسے گرنا تھا، خواہ ان میں سے کوئی اپنے شہر میں تھا یا سفر کی وجہ سے شہر سے باہر تھا۔

حضرت لوط علیہ السلام کی بیوی بھی اپنے خاوند اور بیٹیوں کے ہمراہ روانہ ہوئی تھی، لیکن جب شہر تباہ ہونے کی آواز اور ہلاک ہونے والوں کا شور سنا تو اللہ کے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہوۓ اس نے مڑ کر دیکھا اور بولی "ہاۓ میری قوم” وہیں ایک پتھر اس پر آ پڑا، جس نے اسکا سر پھاڑ کر اسے اسکی قوم سے ملا دیا۔ وہ انہی لوگوں کے مذہب پر تھی اور حضرت لوط علیہ السلام کی جاسوسی کرتے ہوۓ آپکے پاس آنیوالے مہمانوں کے بارے میں قوم کو اطلاع دے دیا کرتی تھی۔ جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
” اللہ نے کافروں کے لئے نوح کی بیوی اور لوط کی بیوی کی مثال بیان فرمائی ہے۔ دونوں ہمارے نیک بندوں کے گھر میں تھیں اور دونوں نے انکی خیانت کی تو وہ اللہ کے مقابلے میں ان عورتوں کے کچھ بھی کام نہ آۓ اور انکو حکم دیا گیا کہ دوسرے داخل ہونیوالوں کیساتھ ت بھی دوزخ میں داخل ہو جاؤ!”

اور روایات میں مذکور ہے کہ خیانت سے مراد یہ ہے کہ وہ دونوں نبی کے گھر کی خبریں باہر والوں کو دیا کرتی تھیں نہ کہ بدعملی کرتی تھیں – اور نہ ہی کسی نبی کی بیوی بدعفتی کرتی ہے-

جب عذاب نازل ہوا تو حضرت ابراہیم جو فرشتوں کے ساتھ آئے تھے اور راستے میں تھے اللہ کے عذاب کو دیکھ کر بیہوش ہو گئے حضرت جبرائیل امین نے آپ کا سر اپنی گود میں رکھا اور چہرے پر ہاتھ پھیرا جس سے آپ کو ہوش آئی اور آپ حضرت لوط کے خاندان کے ساتھ واپس ملک شام آ گئے-

اللہ تعالیٰ نے ان بستیوں کی جگہ ایک بدبودار جھیل بنا دی جسکے پانی اور اردگرد کی زمین سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا جا سکتا کہ وہ قطعہِ زمیں انتہائی بیکار ہے۔اللہ پاک فرماتا ہے:

” سو ان کو سورج نکلتے نکلتے چنگھاڑ نے آ پکڑا اور ہم نے اس شہر کو ال کر نیچے اوپر کر دیا اور ان پر کنکر کی پتھریاں برسائیں۔ بیشک اس قصے میں اہلِ فراست کے لئے نشانی ہے اور وہ شہر اب تک سیدھے راستے پر موجود ہے۔ بیشک اسمیں ایمان لانے والوں کے لئے نشانی ہے۔”

"وہ شہر اب تک سیدھے راستے پر موجود ہے ” کا مطلب ہے کہ وہ بستیاں اس شاہراہ پر واقع تھیں جس پر اب بھی لوگ سفر کرتے ہیں جیسے فرمایا:

” اور تم دن کو بھی ان کی بستیوں کے پاس سے گزرتے ہو اور رات کو بھی۔ تو کیا تم عقل نہیں رکھتے؟
مزید فرمایا:

” تو وہاں جتنے مومن تھے، ان کو ہم نے نکال لیا اور اس میں ایک گھر کے سوا مسلمانوں کا کوئی گھر نہ پایا اور جو لوگ دردناک عذاب سے ڈرتے ہیں، ان کے لئے وہاں نشانیاں چھوڑ دیں۔

تبصرے بند ہیں۔