انسان اور زمین کی حکومت (قسط 46)

رستم علی خان

چنانچہ حضرت شعیب علیہ السلام نے آٹھ برس کے اقرار سے اپنی بیٹی کے مہر کے عوض ان کی بکریاں چرانے کو حضرت موسی سے لکھوا کے اپنی بیٹی کو ان سے بیاہ دیا- تاکہ ان کا نکاح درست ہو-

غرض جب جناب شعیب علیہ السلام نے اپنی بیٹی کو حضرت موسی کے سپرد کیا تو ایک عصا جس کے بارے روایت ہے کہ حضرت جبرائیل نے جناب آدم علیہ السلام کو جنت سے لا کر دیا تھا اور بعد میں مختلف انبیاء کرام سے چلتا ہوا جناب شعیب کو ورثے میں ملا تھا- اپنی بیٹی سے کہا کہ یہ عصا لائک پیغمبر مرسل کے ہے اور میں یہ عصا موسی کو دینا چاہتا ہوں-
چنانچہ عصا کو لا کر حضرت موسی کے سامنے زمین پر رکھا اور فرمایا کہ اگر تم اس عصا کو اٹھا سکو تو تم کو دوں گا- چنانچہ جناب موسی علیہ السلام آگے بڑے اور فورا عصا کو زمین پر سے اٹھا لیا- تب یہ دیکھ کر حضرت شعیب نے فرمایا کہ تمہارے متلعق میرا گمان صحیح نکلا- شائد اللہ تعالی تمہیں پیغمبر مرسل کرے گا اور تمہیں کتاب کا علم دے گا- اور اللہ کے فیصلے اٹل ہوتے ہیں-

اس عصا کے بارے ایک روایت یہ بھی ہے؛ وہ مقدس لاٹھی ہے جس کو “عصاءِ موسیٰ” کہتے ہیں۔ اس کے ذریعے سے آپ کے بہت سے اُن معجزات کا ظہور ہوا جن کو قرآن مجید نے مختلف عنوانوں کے ساتھ بار بار بیان فرمایا ہے۔ یہ لاٹھی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے قد برابر دس ہاتھ لمبی تھی ۔ اور اس کے سر پر دو شاخیں تھیں جو رات میں مشعل کی طرح روشن ہو جایا کرتی تھیں۔ یہ جنت کے درخت پیلو کی لکڑی سے بنائی گئی تھی اور اس کو حضرت آدم علیہ السلام بہشت سے اپنے ساتھ لائے تھے ۔ چنانچہ حضرت سید علی اُجہوری علیہ الرحمۃ نے فرمایا کہ :۔

ترجمہ :۔ حضرت آدم علیہ السلام کے ساتھ عود ( خوشبودار لکڑی)حضرت موسیٰ علیہ السلام کا عصا جو عزت والی پیلو کی لکڑی کا تھا، انجیر کی پتیاں ، حجرا سود جو مکہ معظمہ میں ہے اور نبی معظم حضرت سلیمان علیہ السلام کی انگوٹھی یہ پانچوں چیزیں جنت سے اُتاری گئیں۔ ( تفسیر الصاوی)

قرآن مجید نے اُس کو اِ س طرح بیان فرمایا کہ!ترجمہ :.اور یہ تیرے داہنے ہاتھ میں کیا ہے، اے موسیٰ عرض کی یہ میرا عصا ہے میں اس پر تکیہ لگاتا ہوں اور اس سے اپنی بکریوں پر پتے جھاڑتا ہوں اور میرے اِس میں اور کام ہیں.(پ 16،طہ:17،18)مَاٰرِبُ اُخْرٰی(دوسرے کاموں)کی تفسیر میں حضرت علامہ ابو البرکات عبداللہ بن احمد نسفی علیہ الرحمۃ نے فرمایا کہ مثلاً:. (۱) اس کو ہاتھ میں لے کر اُس کے سہارے چلنا- (۲) اُ س سے بات چیت کر کے دل بہلانا- (۳) دن میں اُس کا درخت بن کر آپ پر سایہ کرنا- (۴) رات میں اس کی دونوں شاخوں کا روشن ہو کر آپ کو روشنی دینا- (۵) اُس سے دشمنوں، درندوں اور سانپوں، بچھوؤں کو مارنا- (۶) کنوئیں سے پانی بھرنے کے وقت اس کا رسی بن جانا- اور اُس کی دونوں شاخوں کا ڈول بن جانا- (۷) بوقتِ ضرورت اُس کا درخت بن کر حسبِ خواہش پھل دینا- (۸) اس کو زمین میں گاڑ دینے سے پانی نکل پڑنا وغیرہ- واللہ اعلم الصواب

الغرض جب حضرت موسی کو وہ عصا بحکم ربی حضرت شعیب نے دیا- بعد اس کے آپ کو نصیحت فرمائی کہ ایک بات تم سے کہتا ہوں سنو! زنہار نامی فلانے میدان میں بکریوں کو چرانے ہرگز مت جائیو- وہاں کے بارے مشہور ہے کہ وہاں اژدھے بہت ہیں کہیں ایسا نہ ہو کہ تم لاعلمی میں اس میدان میں بکریاں لے جاو اور وہ اژدھے بکریوں کو کھا جائیں- یا تمہیں ہی کوئی نقصان پنہچا دیں-

الغرض جب حضرت موسی علیہ السلام بکریاں چرانے کو مدائن کے میدان میں لے گئے- اور بکریاں اس میدان کی طرف بھاگیں کہ جہاں بکریاں لے جانے سے جناب شعیب نے منع فرمایا تھا اور وہ اژدھوں والا میدان تھا- پس آپ نے بہتیرا چاہا کہ بکریوں کو ادھر سانپوں والے میدان میں جانے سے روکیں لیکن نہ روک سکے اور وہ اس میدان میں جا کر چرنے لگیں- تب حضرت موسی ناچار ہو کر وہیں موجود ایک پتھر کے ساتھ ٹیک لگا کر لیٹ گئے اور عصے کو اپنے پہلو میں رکھ لیا-

بعد اس کے عصے کو حکم دیا کہ؛ اے عصا خبردار! دھیان رکھئیو اگر اژدھا یہاں آوے تو اسے مار ڈالئیو تا کہ بکریوں کو نقصان نہ پنہچانے پاوے- اور نگہبان رہنا بکریوں کا- اور خود وہیں اس پتھر سے ٹیک لگائے ہو سو گئے-

چنانچہ آپ کے سو جانے کے تھوڑی دیر بعد ہی ایک اژدھا نکلا اور بکریوں کی طرف بڑھا تاکہ بکریوں کو کھا سکے- تبھی جناب موسی کا عصا ایک بڑے اژدھے کی صورت ہوا اور اس اژدھے کو مار ڈالا جو بکریوں کو نقصان پنہچانا چاہتا- بعد اس کے جب حضرت موسی علیہ السلام نیند سے جاگے تو اپنے قریب ایک بڑے اژدھے کو مرا ہو پایا-

تب خوش ہو کر بکریوں کو لیکر گھر کیطرف چلے- اور اس بات کا زکر اپنے سسر حضرت شعیب علیہ السلام سے کیا کہ اے حضرت وہ اژدھا جس کے بارے آپ نے فرمایا کہ بکریوں کو کھا جاتا ہے بفضل خدا آج اس میدان میں مارا گیا- اور حضرت شعیب کے پوچھنے پر ساری تفصیل بیان کی- پس شعیب علیہ السلام کو اور بھی یقین ہوا کہ حضرت موسی پیغمبر مرسل ہونگے اور اللہ تعالی کیطرف سے کسی خاص مقصد کو یہاں بھیجے گئے ہیں۔

روایت ہے کہ جب موسی نے چار برس حضرت شعیب علیہ السلام کی بکریاں چرائیں تو آپ برکت اور اللہ کے فضل سے بکریوں کی افزائش میں اضافہ بہت ہوا- چنانچہ حضرت شعیب علیہ السلام نے فرمایا اے موسی اس برس یعنی پانچویں برس کو جتنی بکریاں نر جنیں گی سب آپ کو دے ڈالوں گا- پس اللہ کے فضل سے سب نے نر جنیں- وعدے کے مطابق تمام موسی کو دے ڈالے-

اگلے برس فرمایا کہ اب کے برس جتنی بکریاں مادہ جنیں گی تمام آپ کو دے ڈالیں گے- اگلے برس بفضل خدا تمام نے مادہ جنیں اور سب کی سب جناب موسی کو دے ڈالیں-

اور ایک دوسری روایت کے مطابق جب دس برس بعد حضرت موسی علیہ السلام نے حضرت شعیب سے رخصت چاہی تب انہوں نے حضرت موسی اور اپنی بیٹی کو رحصت کرتے وقت اپنی طرف سے بکریاں دیں-

پس دس برس حضرت موسی علیہ السلام نے بعوض مہر کے حضرت شعیب کی بکریاں چرائیں- بعد اس کے حضرت شعیب نے فرمایا اے موسی اب میری طرف سے تم آزاد ہو اور اپنی بیوی کیساتھ جہاں جانا چاہو جا سکتے ہو میری طرف سے کوئی ممانعت نہ ہے-

چنانچہ حضرت موسی علیہ السلام کو بھی تمنا ہوئی کہ واپس اپنے شہر مصر میں جائیں اور اپنی والدہ کی خدمت سے مشرف ہوویں اور اپنے بہن بھائی سے بھی ملاقات کریں- چنانچہ آپ نے حضرت شعیب علیہ السلام سے اجازت چاہی اور اپنی بیوی صفورا اور ساتھ جو مال ملک حضرت شعیب نے آپ کو دیا سب لیکر مصر کیطرف روانہ ہوئے-

جب شہر مدائن سے باہر آ گئے اور ایک منزل طے کر لی تو رات ہو گئی-

روایت ہے کہ حضرت موسی کی بی بی پیٹ سے تھیں تبھی انہیں درد جننے کا ہوا- اور سخت سردی محسوس ہونے لگی- تب حضرت موسی آگ کی تلاش میں ادھر ادھر دیکھنے لگے کہ شائد کہیں سے کچھ آگ کا بندوبست ہو سکے- تب دیکھا طور کی جانب آگ دہکتی ہوئی نظر آئی-اپنے گھر والوں سے کہا کہ تم یہاں ٹھہرو میں اس طرف دیکھ کر آتا ہوں شائد کوئ خبر مل جائے یا آگ کا بندوبست ہی ہو سکے- چنانچہ ارشاد ہے؛

ترجمہ: پھر جب موسی پوری کر چکا وہ مدت اور لے چلا اپنے گھر والوں کو- پھر دیکھی ایک آگ کوہ طور کیطرف اور کہا اپنے گھر والوں کو- ٹھہر رہو یہاں، میں نے دیکھی ہے ایک آگ شائد لے آوں وہاں سے تمہارے پاس کچھ خبر یا انگارہ آگ کا شائد تم پا لو- (القرآن)

چنانچہ حضرت موسی علیہ السلام اپنی بیوی اور بکریوں کو وہاں چھوڑ کر اور صرف عصا ہاتھ میں لیکر خود "طوی” کی جانب چلے- چنانچہ جب نزدیک پنہچے تو ایک درخت دیکھا جو سبز تھا لیکن اس میں آگ دہک رہی تھی- تب حضرت موسی نے وہاں سے کچھ جھاڑ کاٹ کر انہیں عصا کے ساتھ باندھ کر آگ کے سر پر رکھ دیا کہ جھاڑ میں آگ سلگے تو اسے اپنے اہل کے پاس لے جا سکیں-

پس وہ آگ ایک شاخ سے دوسری شاخ پر اور دوسری سے تیسری پر چلی جاتی بھاگتی ہوئی- غرض جہاں عصا رکھ دیتے اس پر آگ نہ سلگتی بلکہ آگے بھاگ جاتی- تب حضرت موسی اس آگ سے مایوس ہو کر پلٹنے لگے تو آپ کو آواز آئی- چانچہ ارشاد ہے؛

ترجمہ: پھر کہا تحقیق میں ہوں تیرا رب پس اتار ڈال اپنی دونوں جوتیاں توجیح میدان پاک ہے کہ نام اس کا طوی ہے اور میں نے پسند کیا تجھے- پس سن کے جو کچھ وحی کی جاتی ہے- (القرآن)

پس جب مقام طوی پر پنہچے تو اللہ تعالی نے آپ سے کلام فرمایا- حکم ہوا کہ اپنی جوتیاں اتار دیجئے- روایت ہے کہ جب آپ چلنے لگے تو آپ کی بیوی نے کہا کہ وہاں مت جائیے کہ اس میدان میں سانپ بچھو بہت ہیں- تب ان کو تسلی دینے کی غرض سے فرمایا کہ میرے پاس عصا ہے اور پاوں میں نعلین ہیں پس سانپ اور بچھووں سے کیا خدشہ- چنانچہ جب جوتیاں اتاریں تو وہ دو بچھو بن گئے- پس تب ڈرے تو فرمایا مت ڈریں میں رب ہوں تمہارا-

بعد اس کے پوچھا کہ یہ آپ کے ہاتھ میں کیا چیز ہے- بولے یہ میرا عصا ہے اسے ٹیک کر کھڑا ہوتا ہوں اور اس سے اپنی بکریوں پر پتے جھاڑتا اور بھی کتنے کام ہیں جو اس سے لیتا ہوں- تب حکم ہوا کہ اسے زمین پر ڈال دیں- پس جب ڈالا تو وہ سانپ تھا جو زندہ تھا اور دوڑتا پھرتا تھا۔

تبصرے بند ہیں۔