انسان اور زمین کی حکومت (قسط 89)

رستم علی خان

حضرت سلیمان علیہ السلام کی وفات کے بعد ایک بار پھر بھی اسرائیل سرکشی پر اتر آئے اور ظلم اور ناانصافی کا دور عام ہوا- انبیاء علیہم السلام کی تعلیم و تلقین کو جھٹلانے لگے- تب اللہ نے ان ہر بخت نصر کو مسلط کیا جو ایک ظالم بادشاہ تھا جس نے انبیاء اللہ کو شہید کیا اور بنی اسرائیل کو قیدی بنایا-

نبوکد نضر یا بخت نصر بابل،بابی لونیا کا بادشاہ۔ زمانہ شہزادگی میں مصر فتح کیا۔ اپنے باپ نبولا سر کے بعد تخت پر بیٹھا۔ 597ء ق م میں یہوداہ (جودیا) بغاوت فرو کی۔ اس علاقے میں دوبارہ بغاوت ہوئی تو یروشلم کو تباہ کر دیا۔ (586 ق م ) اور چار ہزار یہودیوں کو گرفتار کرکےبابل لایا۔ یہودیوں کی اس قید کو بابل کی اسیری کہا جاتا ہے۔ اس عہد میں سلطنت کی زیادہ تر دولت بابل کی قلعہ بندی اور تعمیرات پر خرچ کی اس کا محل عجوبہ روزگار تھا۔ بابل کے معلق باغات سات عجائبات اسی نے بنوائے تھے۔ بابل علم و ادب اور تہذیب و تمدن کا بہت بڑا مرکز تھا۔ بائبل میں اس کا ذکر نبوکد نضر کے نام سے ہے۔

بعض متقدمین و متاخرین کے مطابق ان اسیران بنی اسرائیل کی تعداد 80000تهی اور ان اسیران میں حضرت دانیال علیہ السلام بهی موجود تہے حمورابی کی حکومت ختم کر کے بادشاہ بننے کہ بعد جب نبوکد (بخت نصر) بیت امقدس پر حملہ کیا تو اس نے بیت المقدس کو مکمل تاراج (اجاڑدیا) حضرت سلمان علیہ السلام کے باقیات کو لوٹ لیا محلات کو تباہ کر دیا اور ہیکل سلمانی میں موجود کتب کو جلا دیا جس میں تورایت کے اصل نسخے بهی شامل تہے اور انبیا علیہم السلام کو قتل(شہید) کر دیا تو رب تعالی نے اس پ (بخت نصر) پر عذاب نازل کیا اور اس کی شکل و صورت کو مسخ کر دیاحضرت وہب بن منبہ ہی فرماتے ہیں کہ بے شک بخت نصر کے چہرئے کا مسخ پہلے شیر کی شکل و صورت میں ہوا پس شیر درندوں کا بادشاہ بن گیا پهر بخت نصر کا مسج تبدیل (یعنی اللہ تعالی نے اس کی شکل تبدیل کر دی) گرهہ کی شکل میں ہوا پس گد هہ پرندوں کا بادشاہ بن گیا پهر بخت نصر کا مسخ بیل کی شکل و صورت میں ہوا پس بیل چوپا ئیوں (مویشوں)کا بادشاہ بن گیا بخت نصر کا یہ مسخ سات سال تک ہوتا رہا لیکن اس کا دل انسان کا دل ہی رہا اسی وجہ سے وہ (بخت نصر) تمام مسخ شدہ صورتوں میں بهی انسانی سوچ اور طرز عمل کو اپنائے رہا اور حکومت کرتا رہا جو اس وقت بهی اس کے پاس تهی پهر اللہ تعالی نے بخت نصر کو انسانی شکل عطاء کر دی تو اس کی روح بهی لوٹا دی سدی لکہتے ہیں کہ جب بخت نصرکو حق تعالی نے دوبارہ انسانی شکل عطاء کی تو اس کو بادشاہت بهی لوٹا دی چنانچہ اس وقت بخت نصر کے نزدیک حضرت دانیال علیہ السلام اور ان کے ساتهی سب سے زیادہ باعزت تہے(جنکو بخت نصر اسیران بیت المقدس کے طور پر قید کر کے بابل(عراق) لے کرآیاتها) کیونکہ یہودیوں کو اس قربت سے شدید حسد تها پس یہودی امرا بخت نصر سے کہنے لگے کہ دانیال علیہ السلام جب پانی پی لیتے ہیں تو انکا پیشاب پر سے اختیار ختم ہو جاتا ہے (یہ بات اس وقت ان میں بہت عار معیوب سمجهی جاتی تهی) بنا بریں بخت نصر نے اس بات کو جاننے کی خاطر یہودی امرا و حضرت دانیال علیہ السلام کی دعوت کی پهر انہوں نے کهانا کهایا اور پانی پیا دوسری طرف بخت نصر نے دربان کو حکم دیا کے کهانا کهانے کہ بعد حاضرین میں سے سب سے پہلے جو بهی پیشاب کرنے کے لیے باہر نکلے اسے کلہاڑئے سے قتل کردینا چاہے وہ پیشاب کرنے والا یہ ہی کیوں نہ کہے کہ میں بخت نصر ہوں پس تم اس سے کہنا کہ تو جهوٹ بولتا ہے کیونکہ بخت نصر نے مجہے تیرئے قتل کا حکم دیا ہے چنانچہ کهانا ختم ہوا تو سب حاضرین میں سے بخت نصر پہلے پیشاب کی شدت کی وجہ سے بے قرار ہو کر سب سے پہلے کهڑا ہوا جو اس کو اچانک ہی اتر آیا تها لہذاء وہ باہر نکلنے لگا تو دربان اس پر کم روشنی کی وجہ سے حملہ آور ہوا تو بخت نصر بولا میں بخت نصر ہوں تو دربان بولا تو جهوٹ بولتا ہے بادشاہ نے مجہے تیرئے قتل کا حکم دیا ہے اور اس پر کلہاڑئے کا وار کر دیا جس سے بخت نصر ہلاک ہو گیا اس کے توحیدی ہونے کہ متعلق وہب بن منبہ فرماتے کہ بعض یہود و نصاری میں اختلاف پایا جاتا ہے کہ وہ (بخت نصر) موت سے قبل ایمان لے آیا تها یا نہیں مگر بعض یہودی علما کہتے ہیں کہ اس نے انبیا کو قتل (شہید) کیا اور بیت المقدس کو تاراج (تباہ ) کیا لہذاء اللہ تعالی نے اس کی توبہ کو قبول نہ کیا اور وہ کافر ہی مرا۔

بخت نصر بادشاہ کے بارے اور بھی کئی روایات ہیں- جیسے کہ ایک تفسیر کے مطابق یہ عمالقہ کا ایک لاوارث بچہ تھا جو شہر عمالقہ والوں کے بڑے بت "نصر” کے قریب لاوارث پڑا ہوا ملا- اور اسی نسبت سے اس کا نام بخت نصر ہوا- جب بڑا ہوا تو اس کی بہادری اور قابلیت کو دیکھ کر شاہ بابل نے اسے اپنا وزیر مقرر کر لیا- اس نے بادشاہ کے لیے کئی علاقے فتح کیے پھر جب شاہ بابل مرا تو لوگوں نے اس کی جگہ اسے بادشاہ بنا لیا- بادشاہ بننے کے بعد اس نے بیت المقدس پر حملہ کیا اور ہزاروں لوگوں کا بےزریغ خون بہایا اور بیشتر علماء انبیاء کو بھی شہید کیا اور بہت سوں کو قیدی بنا لیا- وللہ اعلم بالصواب-

اور ایک روایت کیمطابق جو حکایت الاولیاء میں ہے کہ بخت نصر ابتداء میں نہایت نیک بخت اور صالح تھا حضرت زکریا علیہ السلام اور حضرت یحییٰ علیہ السلام کی نہایت اطاعت کرتا تھا، اتفاقاً اس نے ایک عورت سے نکاح کیاجس کے ہمراہ ایک نہایت حسین و جمیل لڑکی پہلے شوہر سے تھی۔ جب وہ لڑکی سن بلوغت کو پہنچی تو بادشاہ اس کی بہار حسن دیکھ کر فریفتہ و دیوانہ ہو گیا اس کی ماں کو پیغام دیا وہ بہت خوش ہوئی۔ مگر دل میں یہ اندیشہ پیدا ہوا کہ بادشاہ پیغمبروں کا مطیع فرمان ہے اور ایسا نکاح اللہ کے پیغمبروں کی شریعت کے خلاف ہے وہ کیوں اس کام کی اجازت دیں گے اس لئے بادشاہ سے کہا کہ تم اس کا حق مہر ادا نہ کر سکو گے۔ بادشاہ نے دریافت کیا کہ حق مہر کتنا ہے؟ جو کچھ کہو میں دوں گا۔

عورت نے کہا اس کا حق مہر تمہارے دونوں پیغمبروں کا سر ہے۔ اگر تم یہ حق مہر ادا کر دو تو لڑکی حاضر ہے ورنہ اس کا نام بھی مت لو۔ بادشاہ کہنے لگا یہ پیغمبر ہمارے دشمن نہیں ہیں بلکہ ہمارے خیر خواہ ہیں اور ہمارے لئے دعا گو ہیں۔ انکو بے جرم قتل کرنا ظلم عظیم ہے۔ اس کے علاوہ جو مانگو جو حق مہر ہو مجھے منظور ہے۔ عورت نے کہا اس کے علاوہ اور کوئی حق مہر نہیں۔

بادشاہ نے ہوائے نفسانی سے مغلوب ہو کر فوج کو حکم دیا کہ دونوں بے گناہوں کا سر کاٹ لاؤ، عین حکم سپاہیوں نے پہلے حضرت یحییٰ علیہ السلام کو بیت المقدس میں قتل کیا تو حضرت زکریا علیہ السلام یہ منظر دیکھ کر جنگل کی طرف بھاگ نکلے، فوج پیچھے ہوئی اور شیطان نے رہنمائی کی جب سپاہیوں نے آ دبایا اور گھیر لیا تو حضرت زکریا علیہ السلام نے ایک درخت سے التجا کی مجھے اس وقت اپنے اندر پناہ دے تو درخت حکم خداوندی سے پھٹ گیا اور آپ علیہ السلام اس میں سما گئے اور پھر بند ہو گیا لیکن قدرے کپڑا باہر رہ گیا فوج متحیر ہوئی کہ کہاں غائب ہو گئے؟

شیطان نے نشان دیا کہ اس درخت کے اندر ہیں اور یہ کپڑا ان کے موجود ہونے کی علامت ہے۔ پھر شیطان نے آرا کی ترکیب بتلائی، درخت چیرا گیا جب آرا کی نوبت سر پر پہنچی تو حضرت زکریا علیہ السلام نے سسکی بھری،

حکم الہٰی نازل ہوا۔

مفہوم: اگر اُف کرو گے تو پیغمبری سے خارج کر دئیے جاؤ گے، تم نے غیر سے کیوں پناہ مانگی؟ اگر ہم سے التجا کرتے تو کیا ہم پناہ نہیں دے سکتے تھے؟ اب اس کا مزہ چکھو اور چپ سر پر آرا چلنے دو۔

غرضیکہ سر سے پاؤں تک جسم چیرا گیا اور حضرت زکریا علیہ السلام نے دم نا مارا۔ جب دونوں پیغمبر اس بے دردی سے قتل ہوئے تو غضب الہٰی نازل ہوا، دن تاریک ہو گیا اور ایک بادشاہ فوجِ خونخوار لے کر چڑھا اور اس شہر کے باشندوں کو گرفتار کر لیا، حضرت یحییٰ علیہ السلام کا خون بند نا ہوتا تھا جب قبر میں رکھتے تو قبر خون سے لبریز ہو جاتی، بادشاہ کے لشکر نے قسم کھائی کہ جب تک حضرت یحییٰ علیہ السلام کا خون بند نہیں ہو گا ہم باز نہ رہیں گے۔

ہزار ہا آدمی تہ تیغ کر دئیے لیکن خون بند نا ہوا، اس وقت ایک شخص حضرت یحییٰ علیہ السلام کی میت پر آیا اور کہا کہ آپ پیغمبر ہیں یا ظالم؟ ایک خون کے بدلے میں ہزار آدمی قتل ہو چکے اب کیا سارا جہان قتل کراؤ گے؟ اتنا کہنا تھا کہ آپ علیہ السلام کا خون بند ہو گیا۔ آپ علیہ السلام کی قبر مبارک جامع دمشق میں ہے- اور اسی جنگ میں بخت نصر بھی قتل ہوا اور ان دونوں عورتوں کو جنگی قیدی بنا کر زنجیروں میں جکڑ کر لیجایا گیا- کچھ عرصہ بعد اسی ابتری اور رسوائی کی حالت میں جہنم واصل ہوئیں واللہ اعلم بالصواب

تبصرے بند ہیں۔